میرا سوال سن کر وہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے مسکرا کر سوال دہرا دیا‘ وہ غصے سے بولے ’’بھاڑ میں جائے دنیا‘ مجھے کیا لوگ آٹھ ارب ہوں یا دس ارب‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا’’ آپ کی بات سو فیصد درست ہے‘ ہمیں اس سے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ہمارے لیے صرف اپنی نالی‘ اپنی گلی اور اپنا پرنالہ اہم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجودہو سکتا ہے آپ کے مسئلے کا حل دنیا کی کل آبادی میں چھپا ہو‘‘
وہ تھوڑا سا بے آرام ہوئے اور پھر بولے ’’سات ارب ہو گی‘‘ میں نے عرض کیا ’’آج کے دن تک دنیا کی کل آبادی 7 ارب 80 کروڑ اور 30لاکھ ہے‘ ہم اگر اس آبادی کو سو لوگ سمجھ لیں تو اس کی تقسیم بہت دل چسپ نکلے گی‘ ان سو لوگوں میں سے 11 یورپ میں رہتے ہیں‘ 5 شمالی امریکا‘ 9 جنوبی امریکا ‘ 15 افریقہ اور60 یعنی کل آبادی کا نصف سے زائد حصہ براعظم ایشیا میں رہ رہا ہے‘‘ وہ تھوڑی دیر میری طرف دیکھتے رہے اور پھر بولے ’’مجھے اس بکواس کی کوئی سمجھ نہیں آ رہی‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’آپ مجھے پہلے میرا آرگومنٹ مکمل کرنے دیں‘‘ مرزا صاحب نے کندھے اچکائے اور کہا ’’اوکے تم بات مکمل کرو‘‘ میں نے عرض کیا’’دنیا کے 100 لوگوں میں سے 49 دیہاتوں میں رہتے ہیں ‘ 51 شہری اور مضافاتی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں‘ 77 کے سروں پر چھت ہے‘ 23 کے پاس رہنے اور رات بسر کرنے کی کوئی جگہ دستیاب نہیں‘ 100 میں صرف 21 کے پاس ان کی ضرورت سے زائد خوراک ہوتی ہے‘ 63 کے پاس ضرورت کے مطابق ہوتی ہے اور 16 کو زندگی بھر پوری خوراک نہیں ملتی‘ یہ دن میں صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں اور عمر بھر یہ سوچتے رہتے ہیں کاش ہمیں رات کو بھی کھانا مل جائے یا ہم صبح اٹھ کر ناشتہ کر سکیں‘ 100 میں سے 48 روزانہ صرف دو ڈالر کماتے ہیں اور یہ ان کا کل سرمایہ اور اخراجات ہوتے ہیں‘
100 میں سے صرف 87 کو پینے کا صاف یا نیم صاف پانی ملتا ہے‘ 13 کو پانی ملتا ہی نہیں اور اگر مل جائے تو وہ آلودہ اور بدبودار ہوتا ہے اور 100 میں سے 75 کے پاس موبائل فون ہے جب کہ 25 موبائل فون کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں‘‘ مرزا صاحب نے کرسی پر پہلو بدلا اور مجھے روک کر بولے
’’یہ بکواس کب تک چلتی رہے گی‘ تمہارے بارے میں لوگوں کی رائے ٹھیک ہے تم اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر لوگوں کا وقت ضائع کرتے ہو‘‘ وہ اس کے ساتھ ہی ہانپنے لگے۔میں نے قہقہہ لگایا اور پھر عرض کیا ’’آپ بس میرا تھوڑا سا مزید بکواس برداشت کر لیں‘‘
وہ خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’100 میں سے صرف 30 کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے جب کہ 70آج بھی انٹرنیٹ کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں‘ 100 میں سے صرف 7 یونیورسٹی پہنچ پائے‘ 93 کالج تک بھی نہیں گئے‘ 83 پڑھ لکھ سکتے ہیں اور 17 چٹے ان پڑھ ہیں‘
100میں سے 33 عیسائی‘ 22 مسلمان‘ 14 ہندو‘ 7 بودھ‘ 12 چھوٹے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ 12 کا سرے سے کوئی مذہب نہیں‘‘ میں نے سانس لیا اور پھر کہا ’’ اور میں اب اپنے اصل ایشو کی طرف آتا ہوں‘‘ وہ بے زاری سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا
’’100لوگوں میں سے 26 لوگ 14 سال کی عمرسے پہلے فوت ہو جاتے ہیں‘ 66 لوگ 15 سے 64 سال کے دوران فوت ہوتے ہیں اور دنیا کے 100 میں سے صرف 8 لوگوں کو 65 سال سے اوپر زندگی ملتی ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو گھر دے رکھا ہے‘
اگرآپ کے پاس کھانے کے لیے وافر خوراک اور پینے کے لیے صاف پانی موجود ہے‘ آپ کے پاس اگر موبائل فون ہے‘ آپ کے گھر یا دفتر میں انٹرنیٹ چل رہا ہے‘ آپ نے اگر کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کر لی اور آپ کی عمر اگر 65 سال سے اوپر ہے تو پھر آپ کو اس زمین سے مزید کچھ نہیں چاہیے‘
آپ کے پاس پھر سب کچھ موجود ہے اور آپ سیدھے سادے ناشکری کے مرض میں مبتلا ہیں لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے فوراً معافی مانگیں‘‘ مرزا صاحب کی آنکھوں میں پہلی بار رونق آئی اور وہ میری طرف دل چسپی سے دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’حضرت علیؓ نے فرمایا تھا جس شخص کے پاس رہنے کے لیے گھر‘ آمدورفت کے لیے سواری‘ تین وقت کا کھانا اور ایک سلیقہ شعار بیوی ہے
وہ خوش نصیب ہے جب کہ آپ اور میں خوش نصیبی کے اس مرحلے سے بھی آگے نکل گئے ہیں‘ ہم تعلیم‘ صاف پانی‘ موبائل فون‘ انٹرنیٹ‘ انٹرنیشنل ٹریول اور کمفرٹس بھی حاصل کر چکے ہیں‘ ہمیںاب اللہ سے مزید کیا چاہیے؟ آپ خود ماشاء اللہ ارب پتی ہیں‘ دو ہزار لوگوں کو تنخواہ دیتے ہیں‘ آپ کے گھر میں آٹھ گاڑیاں کھڑی ہیں‘ اللہ نے آپ کو سعادت مند اولاد دے رکھی ہے‘ دس کنال کے گھر میں رہتے ہیں‘
آپ کے کچن میں چھ لوگ کام کرتے ہیں اور دنیا جہاں کے ڈاکٹر اور ادویات ہر وقت آپ کو دستیاب ہیں لیکن آپ اس کے باوجود پریشان ہیں‘ کیوں؟ آپ نے کبھی سوچا؟ ‘‘ وہ تھوڑے سے شرمندہ ہوئے اور نرم آواز میں بولے’’ بیٹا میں اسی لیے تمہارے پاس آیا ہوں‘
مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں ان تمام نعمتوں کے باوجود اداس کیوں ہوں‘ میرے اندر خوشی کیوں نہیں‘ میں پریشان کیوں رہتا ہوں؟‘‘ میں نے فوراً عرض کیا ’’سر آپ کے پاس سب کچھ ہے بس ایک چیز کی کمی ہے اور وہ ہے وٹامن شکر‘ گریٹی چیوڈ (Gratitude) ‘آپ شکر نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ اطمینان کی نعمت صرف اپنے شکر گزار بندوں کو دیتا ہے‘
آپ آج شکر کرنا شروع کر دیں آپ کی اندرونی اور بیرونی کیفیت بدل جائے گی‘میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں‘ کوئی بھی شخص جب مجھ سے میرا حال پوچھتا ہے تو میں زور دے کر پوری انرجی کے ساتھ کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کا بے انتہا کرم اور رحم ہے‘ اس نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے‘
آپ بھی یہ نسخہ استعمال کر کے دیکھیں‘ آپ کی پوری شخصیت بدل جائے گی‘‘ وہ بڑی دیر تک سر ہلاتے رہے اور پھر آہستہ سے بولے ’’لیکن ہماری زندگی میں روزانہ بحران آتے ہیں‘ ہم روز جن مسائل سے گزرتے ہیں‘ ہم ان کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں‘ یہ بھی ہمیں ڈپریس کرتے ہیں‘‘
میں نے ہنس کر جواب دیا ’’آپ اپنے دفتر میں دو تصویریں لگا لیں‘ آپ کا یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ آپ اپنے سامنے ایک گھوڑے اور ایک ٹوٹے پھوٹے قبرستان کی تصویر لگا لیں اور جب بھی کوئی مسئلہ آئے تو آپ ان دو تصویروں کو دیکھنا شروع کر دیں‘ آپ کا وہ مسئلہ دو منٹ میں مسئلہ نہیں رہے گا‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔
میں نے عرض کیا ’’آپ پہلے گھوڑے کی تصویر کو سمجھیں‘ ایک بادشاہ نے کسی شخص کو سزائے موت سنا دی‘ جلاد اسے بادشاہ کی عدالت سے لے جانے لگا تو اس شخص نے بادشاہ سے عرض کیا‘ حضور اگر میں مرگیا تو میرے بعد دنیا کا ایک منفرد ہنر بھی ختم ہو جائے گا‘
آپ مجھے کم از کم اتنی مہلت دے دیں میں اپنا فن کسی کو سکھا جائوں‘ بادشاہ نے اسے واپس بلایا اور پوچھا تمہارے پاس ایسا کون سا فن ہے؟ قیدی ہاتھ باندھ کر بولا‘ حضور میں گھوڑے کو اڑنا سکھا سکتا ہوں‘ بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا‘ کتنے عرصے میں‘ وہ بولا‘ جناب تین سال میں‘ بادشاہ نے کہا اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پھر‘ قیدی نے کہا‘ آپ بے شک میری گردن اتار دیجیے گا‘
بادشاہ نے پوچھا تمہیں اس کے لیے کیا کیا چاہیے؟ اس نے عرض کی‘ سفید گھوڑا‘ بڑا سا میدان اور میرے رہنے اور کھانے پینے اور خدمت کے لیے ملازمین‘ بادشاہ نے اس کی تینوں شرطیں مان لیں‘ قیدی کو بادشاہ کا گھوڑا دے دیا گیا‘ وہ گھوڑا لے کر میدان کی طرف جانے لگا تو اس کے ساتھی نے اس سے کہا‘ گرو مجھے لگتا ہے ہم نے غلط ڈیل کر لی ہے‘ گھوڑا کیسے اُڑ سکے گا؟ قیدی نے قہقہہ لگا کر کہا‘
میری آدھ گھنٹے میں گردن کاٹی جا رہی تھی‘ میں نے اس ڈیل سے اپنی جان بھی بچا لی اور بادشاہ سے تین سال بھی لے لیے‘ ان تینوں برسوں میں اب تین کام ہو سکتے ہیں‘ عین ممکن ہے ان تین برسوں میں بادشاہ مر جائے‘ ہو سکتا ہے میں مر جائوں اور یہ بھی ہو سکتا گھوڑا اُڑنا سیکھ لے‘‘
میں نے واقعہ سنانے کے بعد مرزا صاحب سے کہا‘ آپ کو جب بھی ٹینشن ہو آپ گھوڑے کی تصویر دیکھا کریں اور ٹائم لیا کریں‘ ہو سکتا ہے اس ٹائم کے دوران آپ کو ٹیشن دینے والا فوت ہو جائے‘ ہو سکتا ہے آپ ہی فوت ہو جائیں اور یہ بھی عین ممکن ہے وقت کے ساتھ ٹینشن ہی ختم ہو جائے
لہٰذا آپ اس قیدی کی طرح آج نہ مریں‘ ٹائم اور گھوڑا لیں اور اسے اڑنا سکھانا شروع کر دیں اور دوسری تصویر قبر کی ہے‘ ٹینشن میں اسے دیکھیں اور اپنے آپ کو بتائیں دنیا میں صرف قبروں کو کوئی ٹینشن نہیں ہوتی‘ صرف مُردے کسی پریشانی کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکتے‘
میں ابھی زندہ ہوں‘ مجھے پریشانیاں بھی آئیں گی اور میں ان کا حل بھی تلاش کر لوں گا‘ آپ یقین کریں آپ کی پریشانی دو منٹ میں ختم ہو جائے گی لہٰذا شکر کریں اور گھوڑے اور قبر کی تصویر دیکھتے رہا کریں‘ آپ بہت اچھی زندگی گزاریں گے‘‘۔