احسن اقبال سے میری پہلی ملاقات 1990ء کی دہائی میں ہوئی تھی‘ یہ پنجاب ٹورازم کارپوریشن کے سربراہ تھے اور سیاحت کے فروغ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے تھے‘ وہ ایک سرسری ملاقات تھی لیکن وہ ملاقات مجھے ان کی انرجی‘ کمیونی کیشن اور کتاب بینی کا فین بنا گئی‘ دوسری ملاقات بلکہ ملاقاتوں کا سلسلہ 1997ء میں شروع ہوا‘یہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں پلاننگ کمیشن کے
ڈپٹی چیئرمین بنے اور وژن 2010ء لانچ کر دیا‘ وہ ایک حیران کن منصوبہ تھا‘ پورا پاکستان اس کا مذاق اڑا رہا تھا‘ اخبارات میں کالم لکھے جا رہے تھے اور حکومتی وزراء اپنے ہی منصوبے پر جگتیں ماررہے تھے‘ شیخ رشید اس زمانے میں لیبر اینڈ مین پاورکے وفاقی وزیرتھے‘ وہ ایک دن پریس کانفرنس میں بول پڑے ’’ہمیں اگلے سال کا پتا نہیں اور یہ 2010ء کی پلاننگ کر رہا ہے‘‘ میرا اس زمانے میں احسن اقبال کے ساتھ رابط ہوا‘ ہم نے اکٹھے سفر بھی کیے‘ کھانے بھی کھائے‘ کتابیں بھی شیئر کیں اور لمبی گفتگو بھی کی‘ مجھے ان ملاقاتوں میں محسوس ہوا یہ شخص مستقبل بین ہے‘ یہ سمجھتا ہے ٹائم فصل کی طرح ہوتا ہے‘ ہم اگر آج وقت کی زمین پر کل کی فصل کاشت نہیں کریں گے تو ہم مستقبل میں بھوکے ننگے سوئیں گے چناں چہ ہمیں 1998ء میں 2010ء کی پلاننگ کرنی چاہیے‘ بہرحال وقت گزرتا رہا‘ 12 اکتوبر 1999ء آ گیا‘ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا‘ نواز لیگ سے ق لیگ نکلی اور وہ تمام لوگ جو کبھی نواز شریف پر اپنے بچے قربان کرنے کے دعوے کرتے تھے وہ ان کا ساتھ چھوڑ گئے‘ ق لیگ کو احسن اقبال بھی چاہیے تھا لیکن اس نے صاف انکار کر دیا اور پھر مدت تک اس انکار کی سزا بھگتی‘ احسن اقبال پڑھی لکھی مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے‘ کرائے کے مکان میں رہتا تھا اور اخراجات پورے کرنے کے لیے یونیورسٹی میں پڑھاتا اور کنسلٹینسی کا کام کرتا تھا‘ احسن اقبال نے اس زمانے میں مدینہ یونیورسٹی میں نوکری بھی کی‘
بہرحال قصہ مزید مختصر ن لیگ 2013ء میں تیسری بار اقتدار میں آگئی‘ یہ ایک بار پھر پلاننگ کمیشن کا وزیر بنا اور ایک بار پھر وژن 2025ء لانچ کر دیا‘ وہ دور بھی ن لیگ کے باقی ادوار کی طرح افراتفری کا زمانہ ثابت ہوا‘ عمران خان کا دھرنا شروع ہوا‘ پانامہ سکینڈل آیا اور ملک میں سیاسی مارا ماری شروع ہو گئی‘ عمران خان اس زمانے میں احسن اقبال کو طنزاً پروفیسر اور قائداعظم کہا کرتے تھے‘
2017ء میں چودھری نثار علی خان نے پارٹی چھوڑ دی تو وزارت داخلہ کا قلم دان احسن اقبال کے پاس آ گیا اور یہ علامہ خادم حسین رضوی کی توپوں کا نشانہ بننے لگا‘ بہرحال وہ دور بھی گزر گیا‘ الیکشن کی مہم شروع ہوئی تو6 مئی 2018ء کو احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ ہوگیا‘
قسمت اچھی تھی گولی دل کی بجائے کہنی پر لگ گئی‘اس گولی کا اثر آج بھی احسن اقبال میں موجود ہے‘ اس کا بازو پورا نہیں کھلتا‘ یہ بہرحال پاکستان تحریک انصاف اور سلیکٹر کی پوری کوشش کے باوجود الیکشن جیت گیا اور یہاں سے اس کا نیا دور شروع ہو گیا‘
احسن اقبال کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ کرپٹ نہیں ہو سکتا‘ یہ فطرتاً بہادر اور راز دار بھی ہے‘ آپ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی اس سے کوئی راز نہیں اگلوا سکتے‘ احسن اقبال کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنا تو اس کے خلاف نارووال سپورٹس سٹیڈیم کا کیس بنا دیا گیا اور اسے نیب کے منہ میں دے دیا گیا‘
یہ ڈیڑھ سال یہ کیس بھی بھگتتا رہا اوردو ماہ نیب کی حراست میں بھی رہا‘ بہرحال یہ اس طوفان سے گزر کر ایک بار پھر پلاننگ کا وفاقی وزیر بن گیا ہے اور یہ اس بار بھی ملک کے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔احسن اقبال نے چند دن قبل قوم سے چائے کے ایک دو کپ کم کرنے کی
درخواست کی اور یہ درخواست سوشل میڈیا پر مذاق بن گئی‘ قوم کا ردعمل حیران کن تھا اور یہ ثابت کرتا ہے ملک میں عقل کی بات جرم بن چکی ہے اور ہم صرف جذبات میں زندہ رہنا چاہتے ہیں‘ چائے نہ صرف صحت کے لیے مضر ہے بلکہ ہم سالانہ چائے کی امپورٹ پر دو اڑھائی سو ارب روپے بھی خرچ کر دیتے ہیں
یوں ہم ایک طرف چائے کی امپورٹ پر کثیر سرمایہ ضائع کر رہے ہیں اور دوسری طرف چائے گیارہ بیماریوں کا باعث بھی بن رہی ہے اور ان بیماریوں میں بلڈپریشر‘ نیند کی کمی اور بدہضمی بھی شامل ہے‘ آپ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہو کر ڈاکٹر کے پاس جائیں وہ آپ کو چائے اور سگریٹ کی کمی کا مشورہ دے گا
لہٰذا احسن اقبال نے ایک دو کپ چائے کم کرنے کا مشورہ دے کر کیا جرم کر دیا؟ ہم دراصل من حیث القوم عقل کی بات سننا‘ پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے‘ آپ کو یاد ہو گا سوا تین سال قبل غلام سرور خان نے گیزر کولگژری کہا تھا‘صوبائی سپیکر مشتاق غنی نے دو کی جگہ ایک روٹی اور
علی امین گنڈا پور نے چینی کم استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا تو وہ لوگ بھی مذاق بن گئے تھے اور آج اگر حکومت بجلی کم استعمال کرنے‘ مارکیٹیں نو بجے بند کرنے اور بلاوجہ گاڑی نہ چلانے کا مشورہ دے رہی ہے تو یہ بھی مذاق ہے!
کیا قوموں کو بچت نہیں کرنی چاہیے اور کیا ہم سب کو اپنے وسائل کی چادر میں نہیں رہنا چاہیے؟ پورا جاپان اور چین گرین ٹی پیتا ہے‘ پوری عرب دنیا قہوہ پیتی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے چین کے پاس چائے خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے
لہٰذا ان لوگوں نے لیمن گراس اگائی اور یہ آج تک گرین ٹی پی رہے ہیں‘ اس سے ان کی صحت بھی اچھی ہو گئی اور سرمایہ بھی بچ گیا‘ پوری دنیا میں پش بٹن کی ٹونٹیاں ‘سینسر والی لائیٹس اور انسٹنٹ گیزر لگائے جاتے ہیں اور لوگ سفر کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ‘ ٹیکسیاں‘
سائیکل اور پائوں استعمال کرتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ پانی‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی بچت کرتے ہیں جب کہ ہماری گاڑیاں گیراج کے اندر بھی آن رہتی ہیں اور ڈرائیور اے سی لگا کر اس میں لیٹے رہتے ہیں‘ ہم پوری سردیاں گیزر بھی آن رکھتے ہیں اور کمروں میں دس دس لائیٹس بھی جلاتے ہیں اور ہمارے بازار بھی ساری رات کھلے رہتے ہیں‘ آخر اس فضول خرچی کی قیمت کون چکاتا ہے؟
ملک! ملک کو ہر سال اربوں ڈالر کا پٹرول‘ کوئلہ اور گیس امپورٹ کرنی پڑتی ہے اور ہمارا زیر زمین پانی بھی تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے‘ قوم کو اس فضول خرچی سے کسی نے تو روکنا ہے‘ کسی نے تو قوم کو حقائق بتانے ہیں لیکن ہم کبھی کم روٹیوں کو مذاق بنا لیتے ہیں اور کبھی گیس‘ بجلی‘ پٹرول اور چائے کی بچت کو‘ کیا یہ عقل مندی ہے؟۔
میں وقت کے ساتھ ساتھ کنونس ہوتا جا رہا ہوں ہم بیک وقت ذہین اور نالائق قوم ہیں‘ ہم اگر کرنا چاہیں تو ہم ایٹم بم بھی بنا لیتے ہیں اور تین برسوں میں ایف اے ٹی ایف کی ساری شرائط بھی پوری کر دیتے ہیں اور ہم اگر نہ کرنا چاہیں تو ہم 75 برس بعد بھی بنیادی ایشوز پر قوم میں اتفاق رائے پیدانہیں کر سکتے
چناں چہ ہم بیک وقت انتہائی نالائق اور انتہائی ذہین ہیں‘ آپ دیکھ لیں ہم قلیل وسائل میں کتنی شان دار زندگی گزار رہے ہیں اور ہم انفرادی سطح پر کتنے کام یاب ہیں؟ میرا دعویٰ ہے ہم میں سے ہر شخص اپنے والدین کے مقابلے میں بہتر زندگی گزار رہا ہے‘
ہمارے فقیر بھی اپنے والدین سے زیادہ سہولتوں کو انجوائے کر رہے ہیں‘ ہم مزید بھی آگے بڑھ سکتے ہیں بس ہم نے کچھ اہم فیصلے کرنے ہیں اور ان فیصلوں میں توانائی میں خودکفالت بھی شامل ہے‘ ہمیں روزانہ 4 لاکھ 35 ہزار بیرل پٹرول چاہیے جب کہ ہم صرف 70 ہزار بیرل پیدا کرتے ہیں‘
فرق3 لاکھ 65 ہزاربیرل ہے‘ ہماری گیس کی ضرورت 4100 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جب کہ پیدا 3496 ہو رہی ہے‘ ایل پی جی کی ضرورت 4600 ملین ٹن ہے اور پیدا 2083 ملین ٹن ہو رہی ہے اور کوئلے کی ضرورت ایک کروڑ ٹن سالانہ ہے جب کہ ہم ایک چوتھائی پیدا کر رہے ہیں‘
ہمارے پاس ان چاروں ضرورتوں کے قدرتی وسائل موجود ہیں لہٰذا ہمیں فوری طور پر ان کی پیداوار اپنی ضرورت کے برابر کرنی ہو گی اور اس کے لیے ہمیں خواہ کچھ بھی کرنا پڑے ہمیں کرنا چاہیے‘ دوسرا ہمیں ان چاروں ضرورتوں کی راشننگ بھی کرنا ہوگی‘
ہم ضرورت کی حد سے زیادہ کسی کو بجلی دیں اور نہ پٹرول‘ گیس‘ کوئلہ اور پانی تاکہ لوگوں میں بچت کا رجحان پیدا ہو سکے‘ تیسرا ہم لوگوں کو بجٹ بنا کر دیں‘ حکومت لوگوں کو گائیڈ کرے آپ تیس ہزار روپے میں کیسے گزارہ کر سکتے ہیں اور آپ اپنی آمدنی میں کیسے اضافہ کر سکتے ہیں
اور یہ کام احسن اقبال جیسا شخص ہی کر سکتا ہے‘ آپ اسے قوم کو سمجھانے کی ذمہ داری دیں اور یہ ہمیں سمجھائے اگر ساری رات مارکیٹیں کھلی رہیں گی یا شادی بیاہ اور تقریبات پر اصراف ہو گا تو اس کا عام آدمی کی جیب اور صحت پر کیا فرق پڑے گا اور قوم کو اس کی کیا کیا اور کہاں کہاں قیمت ادا کرنی پڑے گی؟
یہ قوم کو بتائے آپ کے پاس دو آپشن ہیں آپ ساری رات مارکیٹیں کھول کر دو ماہ میں سری لنکا بن جائیں یا پھر بجلی‘ پٹرول‘ گیس‘ چائے‘ کوکنگ آئل اور آٹا کم کر کے خوش حال زندگی گزار لیں‘ قوم کو بہرحال اس وقت رہنمائی اور اتفاق دونوں کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف احسن اقبال کر سکتا ہے چناں چہ آپ اسے ’’اتفاق رائے‘‘ کا وزیر بنا دیں‘ ملک کو اس وقت اس وزارت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔