جغور چترال کا پہاڑی محلہ ہے‘ ہمارے شہروں کے محلے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں لیکن چترال کے محلے مختلف پہاڑیوں پر آباد ہیں اور یہ پلوں اور کچی پکی سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں‘ شہر دریائے چترال کے دائیں بائیں آباد ہے‘ دریا ترچمیر کے گلشیئرز سے نکلتا ہے‘ راستے میں ندیاں‘ نالے اور آبشاریں اس میں گرتی رہتی ہیں اور یہ مستی میں گنگناتا ہوا ‘
چٹانوں سے ٹکراتا ہوا افغانستان میں داخل ہو جاتا ہے اور وہاں سے دریائے کابل بن کر پاکستان واپس آ جاتا ہے‘ جغور چترال کا قدیم محلہ ہے وہاں ٹرائوٹ مچھلی کے پرائیویٹ فارم ہیں‘ لوگ آتے ہیں‘ فارم کے مالکان ان کے سامنے جال لگا کر مچھلیاں پکڑتے ہیں‘ کاٹ کر صاف کرتے ہیں اور تل کر پیش کرتے ہیں‘ میں اور حکیم بابر17 ستمبر کو چترال پہنچے‘ ہم نے پچھلے وزٹ کے دوران پی آئی اے چترال کے سٹیشن ہیڈ خالد اعوان کے ساتھ لنچ فکس کیا تھا‘ ان کا دعویٰ تھا میں آپ کو ایک ایسی جگہ لنچ دوں گا جسے آپ پوری زندگی یاد رکھیں گے‘ یہ ایک منفرد آفر تھی لہٰذا ہماری ڈیل ہو گئی‘ ائیرپورٹ کے باہر ان کے ایک دوست منظور صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے‘ یہ جغور کے رہنے والے ہیں اور شائستہ اور مہذب انسان ہیں‘ یہ ہمیں سیدھا ٹرائوٹ فش کے فارم پر لے گئے‘ ہمارے سامنے مختلف سائز کے تالاب تھے‘ ایک میں مچھلی کے بچے تھے‘ دوسرے میں جوان مچھلیاں تھیں‘ تیسرے میں پیرنٹ مچھلیاں تھیں جب کہ چوتھے میں مکمل سکون تھا‘ ٹرائوٹ تازہ پانی کی مچھلی ہے‘ یہ باسی یا گندے پانی میں زندہ نہیں رہتی‘ فارم کے چاروں تالابوں میں ندی کا صاف پانی آ رہا تھا اور ٹرائوٹ مچھلیاں ان میں گولی کی سپیڈ سے دوڑ رہی تھیں‘ یہ دنیا کی واحد مچھلی ہے جو پانی کے بہائو کے مخالف بھی تیر سکتی ہے اور آب شاروں کے اوپر بھی چڑھ جاتی ہے‘ اس کو پکڑنا واقعی جان جوکھم کا کام ہوتا ہے لیکن فارم کے ورکرز ایکسپرٹ تھے‘ یہ جال لے کر گئے اور دس مچھلیاں پکڑ لائے‘ یہ سائز میں چھوٹی تھیں‘ ہمیں بتایا گیا ان چھوٹی سی مچھلیوں کی عمر بھی دو سال ہے‘ بہرحال دس مچھلیوں کا وزن دو کلو تھا‘ ہمارے سامنے انہیں صاف کیا اور تلنا شروع کر دیا گیا‘ فارم کے مالک نے بتایا اس نے 35 سال پہلے یہ فارم بنایا تھا اور وہ مچھلیاں منڈی میں فروخت نہیں کرتا‘ لوگ کھانے کے لیے اس کے پاس آتے ہیں‘ اس نے ہماری کرسیاں درخت کے ساتھ لگا دیں‘ خالد اعوان بھی لنچ پر پہنچ گئے‘ ان کا دعویٰ واقعی درست تھا‘ وہ جگہ اور ٹرائوٹ کا لنچ دونوں لاجواب اور ناقابل فراموش تھے۔
چترال حقیقتاً مختلف دنیا ہے‘ یہ پہاڑوں کے اندر ماڈرن سولائزیشن سے دور ایک منفرد کلچر‘ ایک مختلف تہذیب ہے‘ لوگ افغان‘ تاجک‘ ازبک اور کیلاش قبائل کا مکسچر ہیں‘ ان کی زبان میں روسی زبان کے الفاظ تک موجود ہیں‘ قبل مسیح سے 1326ء تک یہاں کیلاشی لوگ حکمران رہے‘ ان سے افغانوں نے علاقہ چھینا اور اپنی بادشاہت قائم کر دی‘ وہ بادشاہ رئیس کہلاتے تھے‘ 1585ء میں ازبک آئے اور علاقے پر قابض ہو گئے‘ یہ 1969ء چترال کے الحاق تک علاقے کے حکمران رہے‘ چترال کا
بادشاہ مہتر کہلاتا تھا‘ یہ آج بھی موجود ہیں لیکن ان کا ٹائٹل علامتی ہے‘ موجودہ مہترفتح الملک علی ناصر ہیں‘ یہ انتہائی پڑھے لکھے اور نفیس انسان ہیں‘ اسلام آباد میں رہتے ہیں لیکن چترال بھی آتے جاتے ہیں‘ قلعے کے اندر رہتے ہیں‘ پامیر ہوٹل کے نام سے ہوٹل بھی چلاتے ہیں‘ ہم اسی ہوٹل میں رہے‘ ہوٹل کی ایک سائیڈ پر دریا بہتا ہے جب کہ دوسری سائیڈ پر قلعہ اور محل ہے‘ پرانا بازار ختم ہو چکا ہے‘ اس کی جگہ کنکریٹ کی انتہائی واہیات عمارتیں بن چکی ہیں تاہم شاہی مسجد قدیم شکل میں موجود ہے
اور یہ آج بھی سیاحوں کے قدم روک لیتی ہے‘ مسجد میں مہتروں کی قبریں بھی موجود ہیں‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی چترال میں مزارات نہیں ہیں‘ سارا علاقہ دیوبندی ہے یا پھر اسماعیلی‘ لوگ پیرپرست نہیں ہیں‘ یہ بہت دل چسپ نام بھی رکھتے ہیں‘ مثلاً ایک صاحب کوہ ہندوکش ہوٹل میں کام کرتے ہیں‘ ان کا نام ’’قائداعظم‘‘ ہے‘ مہتر کے سیکرٹری کا نام ’’نشان حیدر‘‘ ہے جب کہ حکیم صاحب کو ایک ایسا شخص بھی ملا جس کا نام ڈاکٹر تھا‘ اس کے شناختی کارڈ پر بھی ڈاکٹر لکھا تھا‘ لوگ مزاجاً دھیمے‘
مہذب اور قانون پسند ہیں‘ یہ سارا دن منہ پر ماسک پہن کر پھرتے ہیں‘ آہستہ آواز میں بات کرتے ہیں‘ کرائم نہ ہونے کے برابر ہیں‘ موسیقی کو پسند کرتے ہیں‘ مذہب اعتدال کے ساتھ ہے‘ جے یو آئی اور جماعت اسلامی کا غلبہ ہے لیکن آلات موسیقی بجانے اور گانے پر کوئی پابندی نہیں تاہم خواتین باہر نہیں نکلتیں‘ شہر میں بھکاری نہیں ہیں‘ خواتین دوسروں کے گھروں میں کام نہیں کرتیں‘ خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن وجہ معلوم نہیں‘ لوگ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے بھی نہیں ہیں‘
ریٹس مناسب ہیں‘ دکان دار وزن میں بھی ڈنڈی نہیں مارتے اور ناجائز منافع بھی نہیں لیتے‘ پہاڑ خشک ہیں اور سبزے سے مکمل محروم ہیں‘ بارشیں نہیں ہوتیں لیکن چترال سرسبز اور شاداب بھی ہے اور پوری وادی سرخ انگوروں‘ ناشپاتیوں‘ اخروٹوں اور خوبانیوں سے لدی ہوئی ہے‘ ہم ہرن اور مارخور دیکھنے کے لیے سین شٹ گئے‘ یہ لوگ اپنی زبان میں میدان یا ہموار جگہ کو شٹ کہتے ہیں‘ یہ پہاڑ کے دامن میں چھوٹا سا میدانی علاقہ ہے‘ دریا اس کے ساتھ بہتا ہے‘ روز تین بجے سے لے کر پانچ بجے کے درمیان ہرن اور مارخوروں کے ریوڑ پانی پینے کے لیے پہاڑوں سے اترتے ہیں‘ شکار پر مکمل پابندی ہے‘
خلاف ورزی کرنے والوں کو 8سال قید اور 15 لاکھ روپے جرمانہ ہو جاتا ہے لہٰذا جنگلی جانور بے دھڑک نیچے آ جاتے ہیں‘ ہم بھی وہاں پہنچ گئے‘ ہمارے سامنے ہرنوں کی تین فیملیاں نیچے اتریں اور پانی پی کر پہاڑ پر واپس چڑھنے لگیں‘ سڑک کے کنارے لوگ کھڑے تھے‘ یہ تصویریں بھی بنا رہے تھے اور ہرنوں پر تبصرے بھی کر رہے تھے‘ ہمارے اور ہرنوں کے درمیان دریا تھا‘ میں نے حکیم بابر سے پوچھا ’’سوال یہ ہے ہم ہرن دیکھنے آئے ہیں یا پھر ہرن ہمیں دیکھنے آئے ہیں‘‘ بابر نے اپنی طویل سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور ہرنوں کی طرف دیکھ کر جواب دیا ’’میرا خیال ہے ہرن مجھے دیکھنے کے لیے پہاڑ سے
اترے ہیں‘‘ ہم ہرنوں کی زیارت سے واپس جانے لگے تو ہمیں راستے میں دریا پرلکڑی کا ایک انتہائی خوب صورت پل نظر آیا‘ پل کی دونوں سائیڈوں پر دروازے تھے‘ دوسری طرف دریا کے ساتھ ساتھ لمبا فارم ہائوس تھا‘ مالک خالد اعوان کا جاننے والا تھا‘ نوکر نے پل کے دونوں دروازے کھول دیے اور ہم دریا کے اوپر سے دوسری طرف چلے گئے‘ اندر ایک جنت آباد تھی‘ پہاڑ اور دریا کے
ساتھ ساتھ اخروٹ‘ خوبانی اور ناشپاتی کے درخت تھے‘ انگور کی بیلیں تھیں اور ان کے نیچے مرغیاں اور تیتر پھر رہے تھے‘ رینچ میں گھوڑے اور کتے بھی بندھے ہوئے تھے جب کہ درمیان میں ایک خوب صورت چترالی گھر تھا‘ دیواریں پتھر اور لکڑی کی تھیں‘ برآمدے میں کرسیاں اور صوفے پڑے تھے‘ کھڑکیوں میں رنگ دار شیشے جڑے تھے جب کہ جگہ جگہ سِٹنگ سپیسز اور ٹیرس بنے ہوئے تھے‘ میں نے زندگی میں بے شمار گھر‘ فارم ہائوسز اور پہاڑی حویلیاں دیکھی ہیں لیکن وہ گھر منفرد بھی تھا اور پرکشش بھی اور وہ اہل خانہ کے اعلیٰ ذوق کا لائوڈ اسپیکر بھی‘ یہ فیصل خان کا گھر تھا‘
وہ اسلام آباد اور دوبئی میں رہتے ہیں اور سیزن میں چترال آ جاتے ہیں‘ وہ پاکستان میں ڈی ایچ ایل کے کنٹری ہیڈ بھی رہے‘ میں انہیں نہیں جانتا لیکن ان کے تعارف کے لیے ان کا گھر کافی تھا‘ میں نے حکیم بابر کا گلہ دور کرنے کے لیے تازہ ناشپاتیاں توڑیں اور ہم دیر تک قہقہے لگاتے رہے جب کہ کتے اور گھوڑے ہمیں حیرت سے دیکھتے رہے‘ اس علاقے کا شاہ ریشم تھا۔چترال کے کھانے دل چسپ ہیں لیکن بدقسمتی سے پورے علاقے میں مقامی کھانوں کا ایک بھی ریستوران موجود نہیں‘
میں نے منظور صاحب سے درخواست کی لوگ یہاں کڑاہی گوشت کھانے نہیں آتے‘ آپ مقامی کھانوں کا ریستوران بنائیں تاکہ دنیا کو آپ کی ثقافت کا علم ہو سکے‘ انہوں نے مجھ سے وعدہ کر لیا لیکن کیا یہ پورا بھی ہوتا ہے؟ اللہ بہتر جانتا ہے‘ ہم نے بہرحال ہوٹل کے سٹاف کو تیار کیا اور انہوں نے ہمارے لیے مقامی ڈشز بنا دیں‘ یہ لوگ مصالحوں اور جڑی بوٹیوں میں روٹی کے باریک ٹکڑے ڈالتے ہیں‘ پکا کر اس کا شوربہ بناتے ہیں‘ یہ اسے کڑی کہتے ہیں‘ یہ واقعی خوش ذائقہ ہوتا ہے‘ یہ چاول کی
نمکین کھیر میں بکرے کا گوشت بھی پکاتے ہیں‘یہ شولہ کہلاتا ہے اور یہ بھی دل چسپ ڈش ہوتی ہے‘ چترالی لوگ دو پرتوں کا پراٹھا بھی پکاتے ہیں‘ یہ روٹی پر پنیر یا گاڑھے دودھ کی موٹی پرت بچھاتے ہیں‘ اس کے اوپر ایک اور روٹی رکھ کر اس کا سینڈوچ سا بنا لیتے ہیں اور پھر اسے توے پر پکالیتے ہیں‘ اس پر اخروٹ کا تیل چھڑک دیتے ہیں‘ یہ بھی کمال خوش ذائقہ پکوان ہے‘
یہ اخروٹ کی چائے بھی بناتے ہیں اور یہ بھی لاجواب ہوتی ہے‘ ہم نے دو ہفتے قبل کیلاش میں اخروٹ کی روٹی بھی کھائی تھی‘ یہ نان کے درمیان اخروٹ کا آٹا اور قیمہ بھر کر اسے تنور میں پکاتے ہیں اور قہوے کے ساتھ کھاتے ہیں‘ پنیر اور اخروٹ کا تیل بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں‘ یہ شاید اسی لیے سرخ اور سفید ہوتے ہیں۔ہم نے ہفتے کا دن گول نیشنل پارک میں گزارا‘ یہ پہاڑوں کی
انتہائی بلندی پر تھا‘ سڑک سنگل اور کچی تھی اور اس پر فورویل جیپ کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں جا سکتی تھی‘ دونوں سائیڈوں پر ہزاروں فٹ گہری کھائیاں تھیں‘ ہمیں اوپر پہنچنے میں دو گھنٹے لگے لیکن انتہائی بلندی پر دیودار کے تین چار سو سال پرانے درخت اور صنوبر کا جنگل دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی‘ وہاں سناٹے کا راج تھا‘ ہوا کی سرسراہٹ بھی شور محسوس ہوتی تھی‘ ایک سائیڈ پر ترچمیر کی چوٹی تھی‘ دوسری طرف خشک پہاڑ تھے اور ان پر شام کے وقت چاند نظر آ رہا تھا اور نیچے گہرائی میں دریا کے ساتھ ساتھ چترال بکھرا ہوا تھا اور قدرت کی ایک وسیع پینٹنگ ہمارے سامنے تھی۔