میاں نواز شریف کے پاس دو آپشن ہیں‘ استنبول یا دہلی‘ ہم ان آپشنز کو ترکی یا انڈین ماڈل بھی کہہ سکتے ہیں۔ہم پہلے ترکی ماڈل کی طرف آتے ہیں‘ رجب طیب اردگان 1954ء میں استنبول میں قاسم پاشا کے علاقے میں پیدا ہوئے‘ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے‘ سکول سے واپسی پر گلیوں میں شربت بیچتے تھے‘بڑی مشکل سے ایم بی اے کیا‘ مختلف شعبوں میں دھکے کھاتے کھاتے
سیاست میں آئے اور 1994ء میں استنبول کے میئر بن گئے‘ شہر کے اس وقت چار مسئلے تھے‘ پینے کا صاف پانی نہیں تھا‘ یہ مسئلہ 70سال پرانا تھا‘ محلوں میں کچرا اور گند تھا‘ پورے باسفورس میں کچرا تیرتا رہتا تھا‘ ٹریفک کا برا حال تھا‘ گاڑیاں پھنستی تھیں تو سارا سارا دن پھنسی رہتی تھیں اور میونسپل کارپوریشن دو بلین ڈالر کی مقروض تھی‘ طیب اردگان نے تین برسوں میں یہ سارے مسئلے حل کر دیے‘ پانی کی نئی پائپ لائنیں بچھ گئیں‘ کچرا اٹھانے اور اسے ’’ری سائیکل‘‘ کرنے کا سسٹم بن گیا‘ شہر کو 50 پلوں‘ انڈر پاسز اور اوورہیڈز سے جوڑ دیا گیا اور نہ صرف دو بلین ڈالر قرضہ بھی ادا کر دیا گیا بلکہ 4 بلین ڈالر مزید بھی کما لیے گئے‘ یہ اچیومنٹ حیران کن تھی لہٰذا اردگان پورے ملک میں مشہور ہو گئے‘ ترکی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ تگڑی تھی‘ یہ کسی لیڈر کو مضبوط ہونے دیتی تھی اور نہ پھلنے پھولنے دیتی تھی‘ طیب اردگان بھی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں چبھنے لگے‘ اردگان نے 2 دسمبر 1997ء کو ایک نظم پڑھی‘ یہ گرفتار ہوئے‘ میئرشپ سے بھی ہٹا دیے گئے‘ جیل میں بھی بند کر دیے گئے اور یہ سیاست کے لیے بھی نااہل قرار دے دیے گئے‘ چار ماہ جیل میں رہے‘ رہائی ہوئی تو انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کرلیا‘ 14 اگست 2001ء کو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پارٹی) بنائی اور پارٹی کو 2002ء کے الیکشن میں دھکیل دیا‘
یہ خود الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے چناں چہ یہ قائد محترم بن کر دفتر میں بیٹھ گئے اور عبداللہ گل کو اپنا شہباز شریف بنا کر الیکشن میں کھڑا کر دیا‘ اے کے پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی‘ عبداللہ گل ترکی کے وزیراعظم بنے‘ پارلیمنٹ میں بل پاس کرایا‘ طیب اردگان کی سزا معاف کرائی‘ اردگان نے 9 مارچ 2003ء کو ضمنی الیکشن لڑا‘ پارلیمنٹ پہنچے اور عبداللہ گل نے چار ماہ بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی ان کے حوالے کر دی اور خود ڈپٹی پرائم منسٹر بن گئے‘ طیب اردگان نے اس کے
بعد پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ آج ترکی جہاں ہے اس کے پیچھے صرف اور صرف اردگان کا وژن اور محنت ہے‘ ان کی حکومت 15 جولائی 2016ء کے ملٹری انقلاب تک کو برداشت کر گئی ‘ ترکی میں 9 جولائی 2018ء کو صدارتی نظام آیا اور یہ صدر بن گئے‘ اردگان اس وقت اسلامی دنیا کے سب سے بڑے لیڈر ہیں اور ترکی دنیا کی 17ویںبڑی معیشت ہے اور اردگان نے یہ سب کچھ صرف ایک فیصلے سے اچیو کیا‘ انہوں نے 2001ء میں عبداللہ گل پر اعتماد کیا‘ انہیں اسمبلی بھجوایا‘ وزیراعظم بنوایا
اور یہ بالآخر سسٹم کے ذریعے سسٹم میں آ گئے‘ یہ بھی اگر 2001ء میں میاں نواز شریف کی طرح پی ڈی ایم بنوا دیتے‘تقریریں کرتے رہتے اور اپنی بندوق دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر بیٹھ جاتے تو یہ اور ترکی دونوں اب تک تاریخ کے اوراق میں گم ہوچکے ہوتے۔یہ ماڈل میاں نواز شریف کو کیسے سوٹ کرتا ہے؟ میں یہ آپ کو اگلی سطروں میں بتائوں گا‘ سردست ہم انڈین ماڈل کا تجزیہ کرتے ہیں‘ آل انڈیا کانگریس جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے پرانی پارٹی تھی‘ یہ 1885ء میں بنی اور اس نے
برطانوی حکمرانوں کو ہندوستان سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ‘ آپ اگر ساٹھ کی دہائی دیکھیں تو آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ تجربہ کار‘ سمجھ دار اور پڑھے لکھے لیڈرز کانگریس میںملیں گے‘ آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کانگریس کا کوئی حریف نہیں تھا‘ اپوزیشن کی ساری جماعتیں مل کر الیکشن لڑتی تھیں لیکن اس کے باوجود حکومت نہیں بنا پاتی تھیں لیکن اندراگاندھی آئی‘ اس نے دو وقفوں میں 15سال حکومت کی اور آخر میں اپنے بیٹوں کو ولی عہد بنانے کے
خبط میں مبتلا ہو گئی‘ چھوٹا بیٹا سنجے گاندھی دہلی میں 1980ء میں فضائی حادثے کا شکار ہو گیا تو یہ دوسرے بیٹے راجیو گاندھی کو آگے لے آئی‘ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیوگاندھی 1984ء میں کانگریس کا سربراہ اور وزیراعظم بن گیا‘یہ 21مئی 1991ء کو خودکش حملے کا شکار ہو گیا‘ پارٹی پرانی تھی‘ یہ جھٹکا بھی برداشت کر گئی اور جیسے تیسے گھسیٹتے گھساتے
سیاسی اتحادوں کے ذریعے 2014ء تک اقتدار میں رہی لیکن پھر نہرو خاندان نے راہول گاندھی کو لیڈر بنانے کی غلطی کی اور ایک چائے والے نے جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی اور پرانی پارٹی کو زمین میں دفن کر دیا‘ آج کانگریس بھارت میں کسی جگہ نظر نہیں آتی۔میاں نواز شریف کو یہ دونوں ماڈل دیکھنا ہوں گے‘ یہ اگر اپنی پارٹی بچانا چاہتے ہیں اوریہ اقتدار میں بھی واپس آنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں میاں شہباز شریف پراعتماد کرنا ہوگا‘ اسٹیبلشمنٹ کے دل میں آج بھی چھوٹے بھائی کے لیے
نرم گوشہ موجود ہے‘ میاں نواز شریف اگر ضد چھوڑ دیں تو پارٹی 2023ء کے الیکشنز میں دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے اور میاں شہباز شریف عبداللہ گل کی طرح قانون سازی کر کے میاں نواز شریف کے لیے واپسی کا راستہ کھول سکتے ہیں لیکن اگر میاں نواز شریف اسی طرح مریم نواز کو لیڈر بنانے کی کوشش کرتے رہے تو پھر ن لیگ اگلے الیکشنز میں کانگریس بن جائے گی
اور اس کی جگہ کوئی ٹی ایل پی آ جائے گی‘مریم نواز طلسماتی شخصیت کی مالک ہیں‘ یہ اپنی سیاسی سپیس بھی حاصل کر چکی ہیں لیکن یہ اس کے باوجود بے نظیر بھٹو نہیں ہیں‘ انہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہوگا‘ یہ شاید 15 برس بعد اچھے اور برے کی تمیز سیکھ سکیں لیکن یہ اس وقت پارٹی کے لیے راہول گاندھی ثابت ہو رہی ہیں۔ میاں صاحب کو جغرافیائی حالات پر بھی نظر رکھنی ہوگی‘ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان 2020ء میں تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے‘ سعودی عرب نے اپنی رقم بھی واپس لینا شروع کر دی تھی‘
طالبان بھی امریکا کے ساتھ گفت وشنید کے لیے تیار نہیں تھے اور امریکا میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ بیٹھا تھا لہٰذا اس وقت میاں نواز شریف کی گنجائش پیدا ہو رہی تھی‘ یہ اگر پاکستان میں رہ جاتے تو آج یہ رائے ونڈ میں بھی بیٹھے ہوتے اور ملک میں قومی حکومت بھی ہوتی لیکن جوبائیڈن کے بعد حالات یک لخت بدل گئے ہیں‘ امریکا کے نئے صدر سعودی شاہی خاندان سے خوش نہیں ہیں چناں
چہ سعودی عرب نے امریکا میں قیادت کی تبدیلی کے بعد ایران‘ قطر اور یو اے ای سے بھی تعلقات بہتر بنا لیے ہیں اور عمران خان اور آرمی چیف بھی سعودی عرب کا چکر لگا آئے ہیں‘ افغانستان میں بھی طالبان نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کر لیے اور یہ وسیع تر قومی مفاد میں اگلی حکومت میں شامل ہونے کے لیے بھی تیار ہیں‘ بھارت کے ساتھ بھی ’’ایجنسی ٹو ایجنسی‘‘ مذاکرات چل رہے ہیں لہٰذا صورت حال عمران خان کے حق میں ہے‘ سعودی شاہی خاندان کو اپنی ذاتی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج چاہیے‘
یہ لوگ اس معاملے میں ذاتی ملازمین اور مصری فوج پر انحصار نہیں کر سکتے چناں چہ آج سعودی عرب کی نظر میں جنرل قمر جاوید باجوہ جنرل پرویز مشرف کی طرح اہم ہو چکے ہیں‘امریکا بھی ان کے بغیر افغانستان سے نہیں نکل سکتا ‘ان حالات میں میاں شہباز شریف واحد آپشن بچے ہیں ‘یہ عمران خان کا ان جغرافیائی اور سیاسی حالات میں مقابلہ کر سکتے ہیں‘ میاں صاحب نے اگر حالات کی نوعیت کو انڈرسٹینڈ نہ کیا اور یہ مریم نواز پر ڈٹے رہے تو پھر معجزے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا‘
میاں صاحب کو یہ سوچنا پڑے گا مریم نواز اپنی تمام تر مقبولیت اور کرشماتی شخصیت کے باوجود سیاسی طور پر کام یاب نہیں ہو سکیں‘ ان کی نابالغ سیاسی ٹیم نے پارٹی کا بھرکس نکال دیا اورآج خواجہ آصف‘ ایاز صادق‘ خواجہ سعد رفیق‘ احسن اقبال‘ رانا ثناء اللہ اور رانا تنویر جیسے تجربہ کار لوگ بھی پریشانی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں‘ ن لیگ پاکستان تحریک انصاف کی
بیڈ گورننس کو داد دے‘ ن لیگ آج وزیراعظم کے غلط فیصلوں کی وجہ سے سلامت ہے‘ اگر عمران خان آج درست فیصلے شروع کر دیں یا یہ شوکت ترین کو ٹک کر دو سال کام کرنے کا موقع دے دیں‘ سعودی عرب سے امداد مل جائے اور پاک فوج افغانستان میں سیاسی تبدیلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سی پیک پر فل سپیڈ میں کام شروع کرا دے تو آپ یقین کریں ٹی ایل پی 2023ء کے الیکشنز میں
ن لیگ کو نگل جائے گی‘ اگلی حکومت پھر عمران خان کی ہو گی اور میاں صاحب کے آدھے ایم این ایز پاکستان تحریک انصاف میں ہوں گے لہٰذا میاں صاحب کے پاس دو آپشن ہیں‘ استنبول ماڈل یا پھر دہلی ماڈل‘ یہ شہباز شریف پر اعتماد کر کے واپس آ جائیں یا پھر پارٹی کو کانگریس بنوا لیں تاہم یہ بھی ماننا ہوگا ایک تیسرا آپشن بھی موجود ہے اور وہ ہیں عمران خان‘
یہ دوڑتے ہوئے گھوڑے کو کسی بھی وقت چابک مار سکتے ہیں‘ یہ اگر اب بھی اپنی نازک پوزیشن کو انڈرسٹینڈ نہیں کرتے اور یہ واقعی وہ غلطی کر بیٹھتے ہیں اپوزیشن تین سال سے جس کی توقع لگا کر بیٹھی ہے تو حالات یکسر بدل جائیں گے لیکن کیا واقعی ایسا ہو جائے گا؟ یہ بلین ڈالر کا سوال ہے اور میاں صاحب کو کم از کم اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔