نعیم قمر میرے پرانے دوست ہیں‘ اسلام آباد میں رہتے ہیں‘ گھر بناتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں‘ میں نے آج تک کسی پاکستانی میں نعیم قمر سے زیادہ حس جمال نہیں دیکھی‘ گارے‘ سیمنٹ‘ لکڑی اور لوہے میں جان ڈال دیتے ہیں‘ چالیس پچاس کروڑ روپے کا گھر بناتے ہیں لیکن یہ سٹارٹ ہونے سے پہلے ہی بک جاتا ہے‘ سمجھ دار بھی ہیں‘ زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں اور زیادہ تر ایشوز پر اپنی جینوئن رائے بھی رکھتے ہیں‘ یہ غیر سیاسی ہیں۔
سیاست پر عموماً بات نہیں کرتے لیکن کل ان سے ملاقات ہوئی تو نعیم صاحب نے دو ایسی سیاسی باتیں کیں جن پر میں دیر تک واہ واہ بھی کرتا رہا اور یہ سطریں بھی لکھنے پر مجبور ہو گیا‘ ان کی پہلی بات سیاسی جماعتوں کے بارے میں تھی‘ ان کا کہنا تھا ملک میں صرف دو جمہوری پارٹیاں ہیں‘ جماعت اسلامی اور فوج‘ میں نے فوراً ٹوک کر کہا‘ فوج پارٹی نہیں ادارہ ہے‘ یہ ہنس کر بولے ”اوکے ادارہ“ یہ اس کے بعد بولے‘ جماعت اسلامی میں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں اور کوئی بھی شخص تھرو پراپر چینل الیکٹ ہو کر اس کا امیر بن سکتا ہے‘ یہ پارٹی مولانا مودودی نے بنائی تھی لیکن ان کے خاندان کا کوئی فرد اس کا سربراہ نہیں بنا‘ میاں طفیل محمد‘ قاضی احسن احمد‘ منور حسن اور سراج الحق جیسے لوگ اس کے امیر بنے اور یہ تمام لوگ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے‘ ان میں کوئی شخص حکمران کلاس یا اپر کلاس سے تعلق نہیں رکھتا تھاچناں چہ آپ اگر جماعت اسلامی کے کارکن ہیں تو آپ ترقی کرتے کرتے پارٹی کے امیر بن سکتے ہیں‘کسی دوسری سیاسی جماعت میں کسی شخص کو یہ سہولت حاصل نہیں‘ باقی پارٹیوں میں بادشاہ کی طرح بالآخر شاہی خاندان کا کوئی سپوت ہی گدی نشین ہو گا اور ورکر بے چارے امین فہیم‘رضا ربانی یوسف رضا گیلانی یا صفدر عباسی بن کر قائد کے پیچھے کھڑے ہوں گے یا پھر شاہد خاقان عباسی‘ احسن اقبال‘ خواجہ محمد آصف‘ خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناءاللہ ہو کر ختم ہو جائیں گے اور بس۔
جماعت اسلامی کے بعد فوج ملک کا واحد جمہوری ادارہ ہے‘ اس میں بھی کسی غریب شخص کا بیٹا آرمی چیف بن سکتا ہے اور نیچے سے اوپر پہنچنے تک اسے کوئی نہیں روک سکے گا‘ آپ جنرل ٹکا خان سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک تمام آرمی چیفس کا بیک گراﺅنڈ دیکھ لیں یہ سب عام گھروں سے تعلق رکھتے تھے اور ترقی کر کے اوپر تک پہنچے‘ آپ اس کے علاوہ ملک کا کوئی ادارہ بتایے جس میں کوئی شخص داخل ہو اور اسے یہ یقین ہو وہ اس ادارے کا سربراہ بن سکتا ہے۔
آپ کو کوئی ادارہ نہیں ملے گا لہٰذا آپ خود بتایے کیا فوج جمہوری ادارہ نہیں“ میں ہنس پڑا‘ ان کی دوسری بات اس سے بھی زیادہ دل چسپ تھی‘ ان کا کہنا تھا”میاں نواز شریف اگر 2017ءمیں اپنی پارٹی میاں شہباز شریف کے حوالے کر دیتے تو آج ملک اور ن لیگ دونوں کی صورت حال مختلف ہوتی‘ شہباز شریف تمام سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کر کے معاملات بھی سیٹل کر چکے ہوتے اور ملک بھی آج کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہوتا“۔میں نے ان سے مکمل اتفاق کیا۔
نواز شریف نے مئی 2016ءمیں دل کے آپریشن سے پہلے پارٹی اور وزارت عظمیٰ دونوں میاں شہباز شریف کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن میاں شہباز شریف نہیں مانے تھے‘ 31مئی کو آپریشن کے بعد دونوں بھائی دوبارہ کمرے میں اکیلے بیٹھے اور فیصلہ ہو گیا میاں نواز شریف سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے اور شہباز شریف ٹیک اوور کر لیں گے‘ عرفان صدیقی کو تقریر تیار کرنے کے لیے بلایاگیا‘ صدیقی صاحب ہسپتال کے کمرے میں بڑے میاں صاحب کے ساتھ اکیلے بیٹھے اور فیصلہ واپس ہو گیا۔
اپریل 2017ءمیں پانامہ کے فیصلے کے بعد بھی یہ موقع آیا تھا‘ یہ اگر سیاست سے ریٹائر ہو جاتے اور پارٹی میاں شہباز شریف کے حوالے کر دیتے تو ن لیگ 2018ءکا الیکشن بھی جیت جاتی اور پارٹی بھی بچ جاتی لیکن میاں نواز شریف ایجی ٹیشن کی طرف نکل گئے اور اس کا وہی نتیجہ نکلا جو نکلنا تھا‘ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہوگی پاکستان مسلم لیگ ن میں دو بیانیے ہیں‘ پہلا بیانیہ ”ووٹ کو عزت دو“ اور دوسرا ”مل کر چلیں“ ہے‘ میاں شہباز شریف شروع سے مل کر چلنے کے قائل ہیں لیکن یہ اس بیانیے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کو دھوکا دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
یہ اس وفاداری کا مسلسل تاوان ادا کر رہے ہیں‘ میاں نواز شریف کے پاس تیسرا موقع 19نومبر2019ءکو لندن جانے کے بعد آیا تھا‘ یہ آپریشن بھی میاں شہباز شریف نے کیا تھا‘ مذاکرات بھی انہوں نے کیے تھے اور میاں صاحب کے ضامن بھی یہ تھے‘ میاں صاحب کے بعد مریم نواز بھی ملک سے باہر جا رہی تھیں لیکن عمران خان مریم نواز کے معاملے میں ڈٹ گئے اور یہاں سے نئی کہانی شروع ہو گئی‘ حکومت اگر مریم نواز کو بھی جانے دیتی تو بڑے میاں صاحب کا خاندان خاموشی اختیار کر لیتا اور آج حالات مختلف ہوتے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ موقع حکومت نے ضائع کر دیا۔
حکومت نے یہ کیوں کیا؟ اس کی وجہ خوف تھا‘ حکومت کا خیال تھا مریم نواز کے بعد میاں شہباز شریف کا راستہ کھل جائے گا‘یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور کم از کم پنجاب ضرور واپس لے لیں گے چناں چہ حکومت نے جان بوجھ کر مریم نواز کو ملک میں رکھا اور میاں نواز شریف کو مجبور کر دیا یہ ”ووٹ کو عزت دیں“ کے ساتھ دوبارہ میدان میں آ جائیں‘ حکومت نے میاں شہباز شریف کا راستہ روکنے کے لیے مریم نواز کو ہیرو بننے کا پورا موقع بھی دیا۔
ملک میں ان کے انٹرویوز بھی چل رہے ہیں اور تقریریں بھی لائیو دکھائی جا رہی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ ہیرو بنیں گی تو میاں شہباز شریف کا راستہ رکے گا اور عمران خان یہ کارڈ شان دار طریقے سے کھیل رہے ہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ن لیگ سیاسی لحاظ سے مار کھا رہی ہے‘ پی ڈی ایم کی تحریک کا فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی اٹھارہی ہے‘ یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے ساتھ انگیج ہو چکی ہے اور سینیٹ کے الیکشنز میں بھی شریک ہو گی اور استعفے بھی نہیں دے گی لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں ن لیگ سیاسی لحاظ سے پھنس گئی ہے۔
اب سوال یہ ہے پارٹی کو اس صورت حال سے کون نکال سکتا ہے؟ وہ شخص میاں شہباز شریف ہے‘ محمد علی درانی کی شکل میں ایک نیا پتا سامنے آیا ہے‘ پیر صاحب پگاڑا کی سیاست کا محور کون ہے؟ محمد علی درانی کون ہیں اور یہ کس کے بندے ہیں؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ جیل میں میاں شہباز شریف کی فیملی کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں ملتی جب کہ محمد علی درانی مرسڈیز میں جیل گئے اور سیدھا میاں شہباز شریف تک پہنچ گئے‘ کیسے؟
وجوہات پوری دنیا جانتی ہے تاہم یہ موو اچھی ہے‘ لندن میں شریف فیملی کے ایک فرد کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں اور یہ بریک تھرو ان مذاکرات کا نتیجہ ہے‘ میاں نواز شریف بھی اب مذاکرات کے لیے تیار ہیں بس ان کے دو مطالبات ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ لیول پلے انگ فیلڈ دے دے‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سیاست کا موقع دے دیاجائے‘ یہ اپنا فیصلہ خود کر لیں‘ ریاست نیوٹرل رہے اور دوسرااگر سیاسی جماعتیں الیکشن پر راضی ہو جاتی ہیں تو اگلا الیکشن غیر جانب دار ہو اورکوئی اس میں مداخلت نہ کرے۔
میرے ناقص علم‘ تجربے اور تجزیے کے مطابق ملک بری طرح سیاسی گرداب میں پھنس گیا ہے‘ ہم معاشی‘ سماجی اور سفارتی تینوں محاذوں پر مار کھا رہے ہیںاور ملک کو اب اس گرداب سے نکالنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے‘ گرینڈ ڈائیلاگ اور پیر صاحب پگاڑا نے یہ ذمہ داری اٹھا لی ہے‘ یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اکٹھا بٹھانے کے لیے تیار ہیں‘یہ کوشش اگر کام یاب ہو گئی تو میاں شہباز شریف باہر آئیں گے اور یہ اس بار مکمل مختلف انسان ہوں گے۔
یہ کھل کر سیاسی ڈائیلاگ اور میثاق معیشت کا اعلان کریں گے‘ یہ حکومت کی طرف بھی ہاتھ بڑھا ئیں گے اور حکومت نے اگر یہ ہاتھ تھام لیا اور فریقین کسی سمجھوتے پر پہنچ گئے تو ملک ٹریک پر واپس آ جائے گا لیکن اگر عمران خان نے یہ ہاتھ جھٹک دیا تو پھر یہ اکیلے رہ جائیں گے‘ ان کی تمام سپورٹیں نکل جائیں گی جس کے بعد ان کا حکومت میں رہنا مشکل ہو جائے گا اور دوسرا اگر میاں نواز شریف نہ مانے‘ انہوں نے اگر میاں شہباز شریف کو گرینڈ ڈائیلاگ کی اجازت نہ دی تو پھر میاں شہباز شریف سیاست چھوڑ دیں گے۔
یہ ریٹائرمنٹ لے لیں گے اور باقی زندگی چپ چاپ گزار دیں گے‘ مریم نواز پارٹی چلائیں گی۔ میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں ہمیں میاں شہباز شریف ماڈل پر جانا ہو گا اور وہ ماڈل یہ ہے دروازے کھولیں‘ ڈائیلاگ کریں اور ملک کے تمام ایشوز مستقل طور پر حل کر دیں‘ ہم اگر اس ماڈل پر چلے جاتے ہیں تو ہم بڑے نقصان سے بچ جائیں گے اور ہم اگر آج یہ نہیں کرتے تو پھر ہمیں بڑے نقصان کے بعد بھی اسی ماڈل پر آنا پڑے گا‘ ہمیں بہرحال ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔