مولانا فضل الرحمن کی میاں نواز شریف سے آخری ملاقات 9 اپریل 2019ءکوہوئی تھی‘ میاں صاحب اس وقت ضمانت پر جاتی عمرہ میں تھے‘ مولانا عیادت کے لیے گئے اور ملاقات کے دوران انہیں ایک پرانا جوک سنایا‘ ان کا کہنا تھا ”کشمیریوں کی پرانی عادت ہے یہ بندوق کو دھوپ میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور اگر ان سے پوچھا جائے‘ آپ یہ چلا کیوں نہیں رہے تو یہ جواب دیتے ہیں‘ فکر نہ کریں یہ تپسی تے ٹھس کرسی“ مولانا نے یہ سنا کر میاں نواز شریف سے کہا” آپ بھی بندوق دھوپ میں رکھ کر بیٹھ گئے ہیں‘میرا آپ کو مشورہ ہے آپ یہ اٹھالیں اور لڑیں یا پھر لڑنے کا ارادہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں‘ آپ کی گومگو کی حالت آپ کو نقصان پہنچائے گی“ ۔
میاں نواز شریف نے کیا جواب دیا راوی اس معاملے میں خاموش ہیں تاہم یہ حقیقت ہے میاں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ ن کو دو بیانیے لے کر بیٹھ گئے ہیں‘ پارٹی پیاز اور جوتے دونوں کھا رہی ہے اور یہ کھاتے کھاتے تقریباً زمین پر لیٹ گئی ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اگر پارٹی نے اگلے ایک آدھ ماہ میں صاف اور واضح فیصلے نہ کیے اور اگر عمران خان حکومت کو مارچ 2021ءتک کھینچ کر لے گئے تو ملک میں سینٹ کے الیکشن ہو جائیں گے جن کے بعد حکومت مضبوط ہو جائے گی‘ اس کے راستے میں موجود قانون سازی کی تمام رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی اور پھر یہ ایسے خوف ناک بل اور قانون پاس کرے گی کہ دونوں پارٹیوں کی قبروںپر گھاس کے سوا کچھ نہیں اگ سکے گا‘ میں آج دعوے سے کہہ رہا ہوں عمران خان اگر مارچ کے مہینے تک پہنچ گئے تو اگلے اگست تک پورا شریف خاندان اور زرداری فیملی جیلوں میں ہو گی‘ حکومت لندن میں بیٹھے پناہ گزینوں کو بھی لے آئے گی جس کے بعد ملک میں کچھ اور ہو یا نہ ہو لیکن احتساب ضرور ہوگا اور اس کے لیے خوف ناک قوانین بنائے جائیں گے‘ میاں نواز شریف اس حقیقت سے واقف ہیں چناں چہ یہ آخری موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے لیکن اس کے لیے انہیں گومگو کی کیفیت سے باہر آنا ہوگا اور کیا یہ اس بار یہ فیصلہ کر سکیں گے؟ یہ ون بلین ڈالر کا سوال ہے۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے ماضی کی چند باتیں دہرانا چاہتا ہوں‘ میں ملک کی موجودہ صورت حال کا اصل ذمہ دار میاں نواز شریف کوسمجھتا ہوں‘ یہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ‘ یہ تین بار اقتدار سے نکالے بھی گئے‘ یہ جب 2013ءمیں تیسری بار وزیراعظم بن گئے تھے توپھر انہیں پرانی غلطیاں نہیں دہرانی چاہیے تھیں‘ یہ کیوں خاص طرز فکر کے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرتے رہے اور یہ کیوں اداروں کے ساتھ لڑتے رہے؟ دوسرا یہ سمجھ دار اور تجربہ کار لیڈر ہیں‘ یہ چیزوں کو ”پوائنٹ آف نو ریٹرن“ تک کیوںجانے دیتے رہے؟
یہ محاذ آرائی سے پرہیز کرتے اور چپ چاپ پرفارمنس پر توجہ دیتے‘ کراچی کے حالات ٹھیک ہو گئے تھے‘ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہو گیا تھا‘ دہشت گردی کنٹرول ہو گئی تھی‘ سی پیک شروع ہو چکا تھا اور ملک معاشی لحاظ سے بھی ٹیک آف کر رہا تھا لہٰذا یہ اگر نہ لڑتے تو یہ 2108ءمیں چوتھی مرتبہ بھی وزیراعظم ہوتے لیکن انہوں نے ایک بار پھر کیلے کے اسی چھلکے پر پاﺅں رکھ دیا جس سے یہ دوبار پہلے بھی پھسلے تھے‘ نتیجہ بھی وہی نکلا‘ایک بار پھر سیڑھی کا پہلا قدم‘ اقتدار سے تیسری بار بے دخلی اور مقدمے‘ عدالتیں‘ جیلیں اور پھر لندن‘ اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہوا؟
ملک اناڑیوں کے ہاتھ میں آ گیا اور یہ اس کی چولیں ہلاتے چلے گئے‘ کیا میاں نواز شریف یہ چاہتے تھے؟ اگر یہ چاہتے تھے تو پھر انہیں مبارک ہو‘ ملک تباہی کی طرف دوڑ رہا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ نہیں تھا تو پھر ملک اور ن لیگ نے کیا حاصل کیا؟ میاں نواز شریف 2018ءکے الیکشنز کے بعد بھی کنفیوژ رہے‘ یہ اگر عمران خان کو منتخب وزیراعظم نہیں مانتے تھے تو پھر انہوں نے الیکشن کے نتائج کیوں تسلیم کیے تھے اور یہ پارلیمنٹ میں کیوں بیٹھے تھے؟
یہ مولانا فضل الرحمن کا مشورہ مان لیتے اور اسمبلیوں میں نہ جاتے‘ دوسرا ن لیگ دو بیانیوں کا شکار بھی ہو گئی‘ میاں شہباز شریف رائفل کو عزت دو اور میاں نواز شریف ووٹ کو عزت دو میں تقسیم ہو گئے‘ آدھی پارٹی اُدھر چلی گئی اور آدھی اِدھر آگئی‘ اس تقسیم کا بھی کسی کو کوئی فائدہ نہ ہوا‘ میاں شہباز شریف نے تاہم اپنے بڑے بھائی کو ایک وقتی فائدہ ضرور لے دیا اور وہ تھا علاج کے لیے لندن روانگی‘ عمران خان اور وفاقی کابینہ کے چھ وزراءکو میاں نواز شریف کے جانے کے چند دن بعد ہی اپنی ”غلطی“ کا احساس ہو گیا تھا‘ یہ آج بھی کہتے ہیں ہمیں غلط رپورٹ کیا گیا تھا۔
میاں نواز شریف اتنے بیمار نہیں تھے جتنا ہمیں بتایا گیا تھا‘ یہ لوگ اپنی پرائیویٹ محفلوں میں اسے ڈیل بھی کہتے ہیں‘ یہ اگر ڈیل تھی تو بھی اس کا میاں نواز شریف کو فائدہ نہیں ہوا‘ ان کی پارٹی چپکے سے ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور یہ ہر بِل اور ہر بڑی قانون سازی میں حکومت کی بی ٹیم ثابت ہوتی گئی‘ حکومت کو اتنی سپورٹ اب تک ق لیگ نے نہیں دی جتنی اڑھائی سال میں ن لیگ دیتی رہی لیکن سوال یہ ہے کیا میاں نواز شریف باقی سفر بھی اسی طرح ٹٹول ٹٹول کر کریں گے یا پھر یہ کنفیوژن سے باہر آ کر بڑے اور واضح فیصلے کریں گے؟ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں۔
میں نے چند دن قبل یہ سوال میاں نواز شریف کی ایک انتہائی قریبی شخصیت سے کیا تھا‘ مجھے ان کے جواب نے حیران کر دیا‘ ان کا کہنا تھا” میاں نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں لیکن ہم اس کے باوجود انہیں روز واک کرا کر آفس لے جاتے ہیں‘ یہ ایک گھنٹہ واک کر لیتے ہیں‘ آفس میں بیٹھتے ہیں‘ کافی پیتے ہیں‘ ٹی وی دیکھتے ہیں اور تھوڑی دیر سوشل میڈیا کو دیتے ہیں‘ ان کے ہیلتھ ایڈوائزر ڈاکٹر عدنان کا خیال ہے یہ اب خطرے سے باہر ہیں چناں چہ انہیں مشکل آپریشنز سے نہیں گزارنا چاہیے۔
میاں نواز شریف بھی ان سے اتفاق کر رہے ہیں اور یہ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں مگر ان کی فیملی نہیں مان رہی جب کہ میاں صاحب اصرار کر رہے ہیں‘ یہ اپنی اہلیہ کی طرح تابوت میں بند ہو کر پاکستان نہیں جانا چاہتے‘ یہ ٹانگوں پر چل کر لاہور میں جہاز سے اترنا چاہتے ہیں‘ یہ جیل جانے کے لیے بھی تیار ہیں“ میاں نواز شریف کی قریبی شخصیت نے انکشاف کیا ”مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اے پی سی کا فیصلہ میاں نواز شریف نے کیا تھا‘ مولانا نے ان کی رضا مندی سے دوسری پارٹیوں سے رابطہ کیا تھا۔
عید کے بعد کی تاریخ بھی میاں نواز شریف کی مرضی سے دی گئی تھی‘ یہ حکومت کے تین بلوں انسداد دہشتگردی ترمیمی بل ‘ سلامتی کونسل ایکٹ ترمیمی بل اورباہمی قانونی معاونت پر حکومت کو سپورٹ نہیں دینا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنی پارٹی کو بلوں کی حمایت سے روک دیا تھا لیکن پھر جوائنٹ سیشن سے قبل رات کے وقت مولانا فضل الرحمن نے میاں نواز شریف سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا آپ کی پارٹی صبح حکومتی بل کی حمایت کر رہی ہے۔
یہ خبر میاں نواز شریف کے لیے حیران کن تھی‘ انہوں نے رات تین بجے شاہد خاقان عباسی کو ایس ایم ایس کیا اور انہیں صبح مولانا فضل الرحمن سے ملنے اور ان کی مرضی کے مطابق چلنے کی ہدایت دی لیکن شاہد خاقان عباسی صبح یہ نہ کر سکے اور میاں شہباز شریف کی ہدایت پر حکومتی بل پاس ہو گئے‘ میاں نواز شریف کو یہ بھی معلوم ہو گیا بلوں کی منظوری سے قبل کون کس سے ملتا رہا اور کس نے کس کو حمایت کا یقین دلایا چناں چہ میاں نواز شریف نے پارٹی کے تمام امور اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ جن لوگوں سے ناراض ہیں‘ انہوں نے انہیں سائیڈ لائین کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے لہٰذا چند دنوں میں پارٹی کی پہلی صف میں بیٹھے لوگ آخری صف میں چلے جائیں گے اور پچھلی صفوں میں موجود لوگ سامنے آ جائیں گے‘ میاں نواز شریف نے اپوزیشن لیڈر کی سیٹ بھی کسی صحت مند اور متحرک شخص کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ اس کا فیصلہ مولانا فضل الرحمن سے مشورے سے کریں گے“۔میاں نواز شریف کیا کرتے ہیں یہ فیصلہ چند دن میں ہوجائے گا تاہم ہمیں یہ ماننا ہو گا میاں نواز شریف میک یا بریک اور ناﺅ یا نیور کے پوائنٹ پر آ چکے ہیں۔
یہ اگر اب بھی خاموش رہتے ہیں اور گومگو کی حالت سے باہر نہیں آتے تو پھر یہ سیاست اور پارٹی دونوں سے محروم ہو جائیں گے‘ مارچ میں سینٹ کے الیکشن ہوں گے اور پاکستان تحریک انصاف کو سینٹ میں بھی اکثریت مل جائے گی جس کے بعد حکومت کے بند ہاتھ کھل جائیں گے اور یہ قانون سازی کے انبار لگا دے گی اور یہ نیب کو مزید اختیارات بھی دے دے گی چناں چہ میاں نواز شریف کے پاس زیادہ وقت نہیں لیکن بڑے فیصلے کرنے سے قبل میاں نواز شریف کو ایک اور فیصلہ بھی کرنا ہوگا۔
انہیں ن لیگ کو خاندانی پارٹی کے تاثر سے باہر نکالنا ہو گا اور اپنی ذات کو بھی اقتدار سے بالاتر کرنا ہوگا‘ میرا مشورہ ہے میاں نواز شریف ملک میں واپس آنے سے پہلے اعلان کریں یہ چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نہیں ہوں گے‘ یہ صرف پارٹی کے قائد بن کر باقی زندگی گزاریں گے اور یہ پھر مریم نوازاور حمزہ شہباز شریف کو بھی سیاست سے نکال لیں تاکہ پارٹی صرف میرٹ پر چل سکے‘ اگر میاں نواز شریف یہ کر لیتے ہیں اور یہ اگلے دو مہینوں میں واپس آ جاتے ہیں تو ن لیگ بھی بچ جائے گی اور میاں نواز شریف بھی ورنہ دوسری صورت میں ملک کی سب سے بڑی جماعت اور دلوں کے قائد میاں نواز شریف دونوں سیاست سے فارغ ہو جائیں گے لہٰذا پارٹی کا مقدر اب صرف اور صرف میاں نواز شریف کے فیصلوں پر منحصر ہے‘ آر یا پار‘ یہ اب اس گومگو کو مزید نہیںچلا سکیں گے ۔