آپ گوگل میپ پر سواکن آئی لینڈ ٹائپ کریں تو آپ کے سامنے بحیرہ احمر کا نقشہ کھل جائے گا‘ آپ کو دائیں جانب سعودی عرب نظر آئے گا اور بائیں جانب سوڈان‘ سواکن سوڈان کی ملکیت ہے اور یہ بحیرہ احمر پر واقع ہے‘ یہ ساحلی شہر پچھلے سال سوڈان کے صدر عمر البشیر کے زوال کی وجہ بن گیا‘ عمر البشیر سعودی عرب کے تعاون سے تین بار صدر منتخب ہوئے اور 30سال اقتدار کا مزہ لوٹا‘ یہ دنیا کے واحد صدر تھے جنہیں برسر اقتدار ہوتے ہوئے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) نے عالمی مجرم قرار دیا تھا لیکن یہ اس کے باوجود مزید دس سال حکومت کرتے رہے۔
کیوں؟ کیوں کہ دنیا میں جب کسی حکمران کے دوست تگڑے ہوتے ہیں تو پھر آئی سی سی جیسے ادارے بھی بے بس ہو جاتے ہیں مگر پھرعمرالبشیرنے بھی وہی غلطی کر دی جس کی طرف اب عمران خان دوڑ رہے ہیں‘ سوڈانی صدر نے ترک صدر طیب اردگان کو دعوت دی اور سواکن جزیرہ ترکی کے حوالے کرنے کا عندیہ دے دیا‘ یہ فیصلہ عمر البشیر اور سوڈان کی سنگین سفارتی غلطی ثابت ہوا‘یہ سعودی عرب کے لیے کسی قیمت پر قابل قبول نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ سواکن اگر ترکی کو مل جاتا تو ترکی ریڈ سی میں آ کر بیٹھ جاتا‘ سعودی عرب کے دو بڑے شہر البھا اور جدہ انگریزی حرف وی کا نشان بناتے ہوئے سواکن کی دوسری طرف واقع ہیں اور سعودی عرب ان کے سامنے ترکی کو برداشت نہیں کر سکتا تھا چناں چہ عمر البشیر سعودی حمایت سے محروم ہو ئے اور یوں یہ 11 اپریل 2019ء کو اقتدار سے فارغ ہو گئے‘یہ سزا صرف یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ سوڈان کی نئی حکومت نے 11 فروری 2020ء کو انہیں آئی سی سی کے حوالے کرنے کا اعلان بھی کر دیا‘ یہ اب بین الاقوامی مجرم ہیں اور ان کے خلاف دی ہیگ میں مقدمہ چلے گا۔سفارت کاری کرسٹل کے برتنوں کی طرح ایک حساس اور نازک کام ہے اور یہ کام تاریخ سے نابلد لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتا چناں چہ اچھے سفارت کار اور شان دار سفارت کاری کے لیے تاریخ کا علم جسم میں خون کی طرح اہم ہوتا ہے‘آپ اسے صرف جذبات سے نہیں چلا سکتے مثلاً آپ پاکستان کی تازہ ترین صورت حال کو دیکھ لیجیے۔
ہم اس وقت چار دوستوں کے نرغے میں ہیں‘ ایران ہمارا ہمسایہ بھی ہے اور ہماری آبادی کا20فیصد اہل تشیع پر بھی مشتمل ہے‘ یہ پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بھی تھا‘ ترک ہمارے خون میں شامل ہیں‘ یہ ہزار سال برصغیر میں آتے اور جاتے رہے‘ اردو تک ترک لفظ ہے اور ترکی دنیا کے ان تین ملکوں میں بھی شامل ہے جن میں آج بھی پاکستان کی تھوڑی بہت عزت ہے اور ہم ملائیشیا اور مہاتیر محمد سے بھی بہت متاثر ہیں تاہم سعودی عرب ہمارا اہم ترین دوست ہے‘ یہ ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور مستقل مددگار بھی۔
سعودی عرب 1947ء سے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرتاآ رہا ہے‘ ہم 2018ء میں دیوالیہ ہونے کے قریب تھے‘ سعودی عرب دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اس وقت ہمیں تین ارب ڈالر قرض بھی دیا تھا اورساڑھے نو ارب ڈالر کا ادھار پٹرول دینے کا وعدہ بھی کیا تھا‘ سعودی عرب میں 25لاکھ پاکستانی بھی کام کرتے ہیں اور یہ لوگ ہر ماہ ہمیں سب سے زیادہ ”فارن ایکس چینج“ بھجواتے ہیں لہٰذا سعودی عرب صرف ہمارا دوست نہیں بلکہ یہ ہماری مجبوری بھی ہے لیکن اب ایشو یہ ہے ہماری یہ ”مجبوری“ دوسرے تینوں دوستوں سے ناراض ہے‘ ترکی نے سعودی عرب پر چارسو سال حکومت کی تھی۔
سعودیوں نے 1918ء میں ترکوں کے خلاف جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی تھی چناں چہ ترکوں اور عربوں کے درمیان عداوت پائی جاتی ہے‘ طیب اردگان تیزی سے خلافت کی طرف دوڑ رہے ہیں اور سعودی عرب ان کے عزائم کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے‘ ایران اور سعودی تنازع 14سو سال پرانا ہے‘ اس تنازعے نے جنگ قادسیہ کے فوراً بعد جنم لے لیا تھا اور یہ شاید قیامت تک چلتا رہے گا‘ ملائیشیا کے مہاتیر محمد او آئی سی کی جگہ ایک نیا مسلم اکنامک فورم بنانا چاہتے تھے۔
ملائیشیا نے اس سلسلے میں پانچ کانفرنسیں بھی کرائیں لیکن عرب ملکوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ فورم کام یاب نہ ہو سکا‘ سعودی عرب کے لیے یہ کوشش بھی قابل قبول نہیں تھی‘ پاکستان ان چاروں کے درمیان پھنس گیا‘ ہمیں چاہیے تھا ہم مخالفت اور عداوت کے اس ماحول میں اپنا مفاد دیکھتے‘ ہم سعودی عرب میں موجود اپنے 25لاکھ ورکرز پر توجہ دیتے اور سعودی عرب سے ملنے والے ادھار تیل اور تین ارب ڈالرز کو نظر میں رکھتے لیکن ہم نے اوپر نیچے سفارتی حماقتیں شروع کر دیں۔
ہم مدد سعودی عرب سے لیتے رہے لیکن ترانے ہم ان کے دشمنوں کے گاتے رہے لہٰذا پھر وہ دن آتے دیر نہ لگی جب پرانے تعلقات خطرے کا شکار ہو گئے‘ ادھار کا تیل بھی تقریباً بند ہو گیااور ہم ایک بلین ڈالرز واپس کرنے پر بھی مجبور ہو گئے اور باقی رقم بھی ہمیں بہت جلدواپس کرنا پڑ جائے گی۔ہم اب آتے ہیں ”کیسے اور کیوں؟“ کی طرف‘ یہ سلسلہ شاہ محمود قریشی کے ایک بیان سے شروع ہوا تھا‘ آپ کویاد ہو گا عمران خان نے اکتوبر2019ء میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
یہ 13 اکتوبر کو ایران اور 15اکتوبر کو سعودی عرب گئے تھے‘ صلح کی یہ پیش کش ہم نے سعودی عرب کو کی تھی اورہمیں جواب میں کہا گیا تھا ”آپ کوشش کر لیں لیکن یہ ایشو 14 سو سال پرانا ہے‘ یہ آسانی سے حل نہیں ہو گا“ صلح کی اس کوشش کے دوران شاہ محمود قریشی نے روانی میں کہہ دیا‘ہم سعودی عرب کی خواہش پر صلح کی کوششیں کر رہے ہیں‘ سعودی عرب مائینڈ کر گیا اور اس نے ہم سے پوچھ لیا ”ہم نے آپ سے صلح کی درخواست کب کی تھی؟“ہمارے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ہم نے سعودی عرب کو حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی پیش کش بھی کر دی تھی‘ یہ پیش کش حیران کن تھی کیوں کہ پاکستان اور یمن کے درمیان کسی قسم کے تعلقات ہیں اور نہ ہم حوثیوں اور نہ حوثی ہمیں جانتے ہیں لہٰذا ہم یمنی حوثیوں کو میز پر کیسے لا سکتے تھے؟ پتا چلا راجہ عباس نام کے ایک مذہبی رہنما پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے میں آتے تھے‘ یہ پیش کش انہوں نے وزیراعظم کو کی تھی اورہم نے گیند اس بنیاد پر آگے پہنچا دی‘ وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی سعودی عرب میں ”ایرانی بھیڑیا“ کے نام سے مشہور ہیں‘ یہ وزیراعظم کے ساتھ سعودی عرب جاتے تھے۔
شاہی خاندان اس پر بھی خوش نہیں تھا‘ ایک خاتون وزیر اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر پر بھی اعتراض کیا جاتا رہا اور رہی سہی کسر ارطغرل ڈرامے نے پوری کر دی‘ ہم نے عین اس وقت یہ ڈرامہ ڈب کر کے پی ٹی وی پر دکھانا شروع کر دیا جب ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات خرابی کی انتہا کوچھو رہے تھے‘ ترکی اور قطربھائی بھائی بن چکے تھے اورسعودی عرب نے قطر سے قطع تعلق کر دیا تھا چناں چہ سعودی میڈیا نے ارطغرل کی اردو ڈبنگ کو پاکستان میں ترک کلچر متعارف کرانے کی سازش قرار دے دیا۔
ہم اگر آج پچھلے دو سال کی سفارتی حماقتوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا ہو گا ہم سعودی عرب کے ساتھ ملائیشیا‘ ترکی اور ایران کے اختلافات کی تاریخ سے واقف نہیں تھے‘ ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے مہاتیر محمد کے دن گنے جا چکے ہیں‘یہ کسی بھی وقت چلے جائیں گے‘ ہم یہ بھی نہیں جانتے تھے ایران معاشی دلدل میں دھنس چکا ہے‘ ایرانی عوام اپنے سسٹم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں اور طیب اردگان آنے والے دنوں میں بے شمار سیاسی مشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔
اور ہم نے یہ بھی نہ سوچا سعودی عرب اور اس کے اتحادی یو اے ای میں ہمارے 50 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں اور ہم نے ان کے مخالفوں کی ڈوبتی کشتیوں میں چھلانگ لگا دی اور آخری کسر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو سعودی عرب کو یہ دھمکی دے کر پوری کر دی اگر او آئی سی کے وزراء خارجہ کا اجلاس نہ بلایا گیا تو ہم اپنے دوست ملکوں (ترکی‘ ایران اور ملائیشیا) کا اجلاس پاکستان میں بلا لیں گے اور یہ بیان تابوت کا آخری کیل ثابت ہوا لیکن اب سوال یہ ہے کیا شاہ محمود قریشی نے یہ بیان اپنی مرضی سے دیا؟ نہیں‘ ہرگز نہیں!
قریشی صاحب سانس بھی سوچ کر لیتے ہیں لہٰذا یہ ان کا اپنا بیان نہیں ہو سکتا‘ پھر اس بیان کے پیچھے کون ہے؟ یہ اس وقت ایک بلین ڈالر کا سوال ہے تاہم مسافر یہ بتاتا چلے یہ بیان اس وقت داغا گیا جب آرمی چیف دس دن بعد سعودی عرب کے دورے پر جا رہے ہیں اور یہ دورہ ملک اور کشمیر دونوں کے لیے اہم ہے‘ اس نازک وقت میں یہ بیان کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے اگر پیج ایک ہے تو اب اس پر سارے ایک نہیں ہیں‘ کہیں نہ کہیں‘ کوئی نہ کوئی اب دوسری طرف بھی دیکھ رہا ہے اور یہ کون ہے؟
یہ بات ابھی سامنے نہیں آئی لیکن ایک بات طے ہے وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ کی پے درپے حماقتوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا‘ شاہ محمود قریشی نے 45 دن کا وزیراعظم بننے کے لیے سعودی عرب اور یو اے ای میں موجود 50 لاکھ پاکستانی‘ اپنی وزارت‘ پی ٹی آئی کی حکومت اور ملک چاروں کو داؤ پر لگا دیا اور ملبہ گرنا شروع ہو چکا ہے‘ اب اس کی زد میں کون کون آتاہے یہ اوپر اللہ جانتا ہے اور نیچے شیخ رشید کیوں کہ انہوں نے چار جولائی کو کہہ دیا تھا ”مائنس ون نہیں مائنس تھری ہوگا“۔