تویونی جیسا خوب صورت جزیرہ شاید دنیا میں کوئی دوسرا نہیں‘ مسافر 2015ء میں اس جزیرے میں داخل ہواتو یہ مبہوت ہو کر رہ گیا اور اس کے منہ سے نکلا‘ دنیا میں اگر جنت ہوتی تو وہ یقینا اس کے دائیں بائیں ہوتی‘ تاحد نظر شفاف سمندر اور سمندر کے درمیان سرسبز جزیرہ اور جزیرے میں صندل کا جنگل اور جنگل کے درمیان گرتی آب شار‘ مسافر بے خودی میں جنگل میں اتر گیا‘
دائیں بائیں شفاف پانی کے جھرنے تھے‘ جھرنوں پر پھولوں کی بیلیں جھکی تھیں اور فضا میں صندل کی خوشبو تیر رہی تھی‘ کسی نے جنگل میں لکڑی کا بینچ بنا دیا تھا‘ مسافر بینچ پر لیٹا اور چند لمحوں میں گہری نیند میں چلا گیا‘ یہ صدیوں کی بھوکی اور تھکی ہوئی نیند تھی اور یہ جاتے جاتے صدیاں ساتھ لے گئی‘ مسافر اٹھا تو پورے جسم میں سرور کی کیفیت تھی‘ جنگل کی وہ نیند مسافر کی زندگی کا اثاثہ تھی‘ دوسرا اثاثہ تویونی کی مسجد ہے‘ تویونی فجی کا جزیرہ ہے۔ ’’ڈیٹ لائین‘‘ اس جزیرے سے سٹارٹ ہوتی ہے‘ سورج ہر روز جزیرے میں آنکھ کھولتا ہے‘ مسلمانوں کے چند گھر ہیں‘ یہ تبلیغی جماعت سے منسلک ہیں اور انہوں نے جزیرے میں لکڑی کی چھوٹی سی مسجد بنا رکھی ہے‘ ہال میں داخل ہونے کے لیے لکڑی کی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں‘ مسافر ظہر کے وقت مسجد میں پہنچا‘ جماعت کھڑی ہو چکی تھی‘ دو نمازی اور ایک امام صاحب تھے‘ مسافر بھی دوڑ کر ان میں شامل ہو گیا‘ امام صاحب نے سلام پھیرا تو تیسرے مقتدی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے‘ یہ کرہ ارض کی وہ مسجد ہے جس میں روز سب سے پہلے اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کی آواز گونجتی ہے‘ یہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا پہلا اعلان ہوتا ہے اور یہ اعلان سورج کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں پھیلتا چلا جاتا ہے‘ مسافر نماز کے بعد امام صاحب کے ساتھ بیٹھ گیا‘ وہ اندر سے انناس لے آئے اور مسافر مسجد کی
چوبی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ان کے ساتھ انناس کھانے لگا‘ امام صاحب کا بیٹا اندر سے روٹی کے چند ٹکڑے بھی لے آیا‘ روٹی کے سوکھے ٹکڑے‘ تازہ انناس‘ کرہ ارض کی پہلی جغرافیائی مسجد کی سیڑھیاں اور پیسفک اوشن کی پوتر ہوا مسافر کے دماغ میں پینٹنگ سی بن کر اتر گئی‘ امام صاحب بتانے لگے‘ تویونی ’’ڈیٹ لائین‘‘ پر ہے‘ دن کا آغاز ہم سے ہوتا ہے‘ ہماری مسجد میں پوری دنیا میں سب سے
پہلے فجر کی اذان اور نماز ہوتی ہے اور میں پوری دنیا میں اللہ کے حضور پہلا سجدہ کرانے والا امام ہوں‘ مسافر نے امام صاحب کا ہاتھ چوما اور ان سے پوچھا ’’اسلام میں کتنی نمازیں ہیں‘‘ وہ حیرت سے مسافر کی طرف دیکھنے لگے اور بولے ’’ظاہر ہے پانچ‘‘ مسافر نے مسکرا کر عرض کیا ’’آپ یقینا جانتے ہوں گے دنیا میں ایک ہی وقت میںفجر‘ ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشاء پانچ نمازیں پڑھی جاتی ہیں
اور یہ اسلام کی حقانیت کا دل چسپ پہلو ہے‘‘ امام صاحب حیرت سے مسافر کی طرف دیکھنے لگے‘ مسافر نے عرض کیا ’’زمین بیضوی ہے‘ یہ 360 ڈگریوں میں تقسیم ہے‘ ہم اگر 360 ڈگریوں کو 24 گھنٹوں میں تقسیم کریں تو 15 ڈگریاں نکلیں گی گویا ایک گھنٹے میں زمین 15 ڈگریاں آگے سرکتی ہے‘ فرض کریں ہم اگر اس وقت دن کے پہلے گھنٹے میں بیٹھے ہیں اور ہم تویونی میں فجر کی نماز ادا کر رہے ہیں
تو یقینا 12 گھنٹے کے فاصلے پر رات ہو گی لہٰذا وہاں عشاء کی نماز ہو رہی ہو گی‘ ہم اگر اس سے دو گھنٹے پیچھے آ جائیں تو وہاں مغرب کا وقت ہو گا‘ ہم اگر اس سے دو تین گھنٹے پیچھے آ جائیں تو ان ملکوں میں عصر کا وقت ہو گا اور ہم اگر ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید پیچھے ہوجائیں تو ان ملکوں میں ظہر کی جماعت ہو رہی ہو گی‘ یہ صورت حال 12 گھنٹے سے آگے کی دنیا میں ریورس ہو جاتی ہے‘
ہم جوں ہی 14 گھنٹے کا سفر کریں گے تو وہاں مغرب‘ 16 گھنٹے کے فاصلے پر عصر‘ سترہ اٹھارہ گھنٹے کے فاصلے پر ظہر اور ہم گھوم کر 24گھنٹے کے بعد یہاں تویونی میں پہنچ جائیں گے تو اس وقت یہاں فجر ہو رہی ہو گی‘‘ امام صاحب حیرت سے مسافر کی طرف دیکھتے رہے‘ مسافر نے ان سے عرض کیا ’’آپ اگر کسی دن گلوب سامنے رکھ کر پندرہ پندرہ ڈگری بعد آنے والے ملکوں کی اذانیں سنیں‘
آپ کو پورے کرہ ارض سے اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کی آوازیں آ رہی ہوں گی‘ دنیا کے مختلف ملکوں میں وقت مختلف ہوں گے لیکن اذان کی آواز ایک ہو گی اور یہ اللہ اور اسلام کی حقانیت کا بہت بڑا مظہر ہے‘ دنیا میں ہمارے علاوہ کسی مذہب کو یہ اعزاز حاصل نہیں‘‘ امام صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ انہوں نے روٹی کا ٹکڑا توڑا‘ اس میں انناس کا پیس رکھا اور رول کر کے مسافر کے ہاتھ میں پکڑا دیا‘
ہمارے سامنے دور دور تک پیسفک اوشن پھیلا تھا اور آسمان جھک کر اسے چوم رہا تھا۔امام صاحب تھوڑی دیر سوچ کر بولے ’’حضرت ہم مسلمان اس کے باوجود پوری دنیا میں ذلیل کیوں ہو رہے ہیں؟‘‘ مسافر نے ہاتھ آگے بڑھا کر ان کا ہاتھ کھینچا‘ اس پر بوسا دیا اور عرض کیا ’’جناب میں حضرت نہیں ہوں‘ حضرت آپ ہیں‘ آپ کو اللہ تعالیٰ روز کرہ ارض پر پہلے سجدے کی توفیق دیتا ہے‘
ہم لوگ دنیا دار اور ہوس کے پجاری ہیں‘ ہمارے گلے میں لالچ اور ذلت کے طوق لٹک رہے ہیں اور ہم گھسٹ گھسٹ کر کنفیوژ زندگی گزارتے ہیں‘ آپ لوگ اللہ کے مقرب بندے ہیں لیکن جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے مجھے اس کا جواب بڑے بڑے علماء نہ دے سکے لیکن ایک یہودی پروفیسر نے چٹکی بجا کر میرا یہ مسئلہ حل کر دیا‘وہ مجھے پیرس کے اسلامک
سنٹر کی چھت پر ملا تھا‘ اسلام پر ریسرچ کر رہا تھا‘ عربی النسل تھا‘ وہ سیکڑوں مرتبہ قرآن مجیدپڑھ چکا تھا‘ مجھے اس نے مسلمانوں کے زوال اور یہودیوں کے عروج کی وجہ بتا دی‘ اس نے مجھ سے پوچھ لیا تھا نبی اکرمؐ پر کون سی آیت سب سے پہلے اتری تھی؟ میں نے عرض کیا’’ اقرأ باسم ربک الذی خلق‘‘ اس نے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے عرض کیا’’ پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘
اس نے کہا‘ تم مسلمانوں کے زوال اور ہمارے عروج کی وجہ اللہ کے اس پہلے فرمان میں پوشیدہ ہے‘ اللہ نے تمہارے رسولؐ کے ذریعے تمہیں حکم دیا تھا پڑھو‘ اللہ کے نام پرپڑھو‘ قلم پکڑو‘ تحقیق کرو‘ علم کا انبار لگا دو لیکن تم نے قلم کے بجائے تلوار پکڑ لی‘ اللہ اگر تمہارے ہاتھ میں تلوار چاہتا تو وہ فرماتا لڑو‘ اللہ کے نام پر جب کہ اس نے پڑھو کہا تھا لیکن تم لڑنے میں مصروف ہو گئے
اور آج تک لڑ رہے ہو جب کہ ہم پڑھ رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے قلم بہرحال تلوار اور توپ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے کیوں کہ تلوار اور توپ بنانے اور فتح یاب ہونے کا طریقہ بھی قلم بتاتا ہے اور تمہارے پاس قلم نہیں ‘‘ مسافر رک گیا‘ امام صاحب نے روٹی کا ایک اور ٹکڑا آگے بڑھا دیا‘ مسافر نے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ بھی قبول کر لیااور اس کے بعد عرض کیا ’’لیکن یہودی پروفیسر کی اگلی بات اس سے
بھی زیادہ دل چسپ تھی‘ اس کا کہنا تھا‘ ہم یہودیوں کا ایک فرقہ مسلمانوں کو اپنا محسن سمجھتا ہے‘ یہ مسجدوں کے قریب کھڑے ہو کر ہر نماز کے دوران زور سے آمین کہتا ہے‘ یہ فرقہ سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسرائیل اور عروج مسلمانوں کی دعائوں سے دیا اور مسلمان جب تک ہمارے لیے دعا کرتے رہیں گے دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی‘ پروفیسر نے پھر ہنس کر پوچھا‘
تم لوگ نماز میں کون سا درود پڑھتے ہو‘ میں نے جواب دیا‘ درود ابراہیمی‘ اس نے پوچھا اوراس درود ابراہیمی میں آل ابراہیم کون ہے؟ وہ رکا اور ہنس کر بولا‘ پورا عالم اسلام ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے ابراہیم ؑ اورآل ابراہیم ؑ جیسی رحمتوں اور برکتوں کی دعا کرتا ہے اور وہ آل ابراہیم ہم لوگ ہیں‘ ہم لوگ خالصتاً حضرت ابراہیم ؑ کی آل ہیں ‘کیوں؟ کیوں کہ دنیا کا کوئی شخص کلمہ پڑھ کر یہودی نہیں ہو سکتا‘
یہ بائی برتھ ماں کی طرف سے یہودی ہوتا ہے لہٰذا ہم سب حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہیں جب کہ سارے مسلمان آل محمدؐ نہیں ہیں‘ آپ لوگ صرف نبی اکرمؐ پر ایمان لائے ہیں‘ آپ ان کے نسب سے نہیں ہیں اور ہم ڈی این اے سے آل ابراہیم ہیں لہٰذا اللہ نے آپ کی دعائیں سن لیں اور ہمارے درجات بلند ہو گئے‘ پروفیسر نے اس کے بعد فلک شگاف قہقہہ لگایا‘‘ مسافر خاموش ہو گیا۔امام صاحب حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے
اور میں سورج کو دیکھنے لگا‘ وہ صندل اور ناریل کے درختوں کے درمیان آہستہ آہستہ سمندر پر جھک رہا تھا‘ امام صاحب نے پوچھا ’’کیا آپ نے اپنے علماء کرام سے یہ مسئلہ ڈسکس کیا‘‘ مسافر نے ہنس کر جواب دیا ’’توبہ کریں‘ میں نے مرنا ہے‘ میں تو آپ سے بھی ڈر ڈر کر عرض کر رہا ہوں‘‘ امام صاحب نے بھی قہقہہ لگایا اور ان کا قہقہہ صندل کی ہوا اور انناس کی خوشبو میں اتر گیا‘کلک کلک کی آواز آئی اور تویونی‘ لکڑی کی مسجد‘ چوبی سیڑھیاں اور کرہ ارض پر اس دن کی ظہر کی پہلی نماز تصویر بن کر حافظے کے البم میں چپک گئی ۔