میرے ایک بہت پرانے دوست ہیں‘ یہ روز میرے ساتھ واک کرتے ہیں اور مجھ سے روز پوچھتے ہیں کیا میں بھی ارطغرل سیریز دیکھنا شروع کر دوں؟ میں روز جواب دیتا ہوں ”ہرگز ہرگز نہیں‘ بھائی مجید یہ غلطی نہ کیجیے گا“ میں اپنے بچوں‘عزیز رشتے داروں اور دوستوں کو بھی روک رہا ہوں‘ یہ سب پوچھتے ہیں ”کیوں؟“ تو میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے‘ یہ سیریز صرف ڈرامہ نہیں‘ یہ ایک نشہ ہے‘ یہ ایڈکشن ہے‘ آپ نے اگر ایک بار یہ شروع کر دیا تو پھر آپ ہیروئین کے نشئی کی طرح اسے چھوڑ نہیں سکیں گے‘ آپ کسی بھی کام کے نہیں رہیں گے۔
ارطغرل پانچ سو قسطوں پر مشتمل سیریز ہے اور ہر قسط چالیس بیالیس منٹ کی ہے لہٰذا آپ خود اندازہ کیجیے‘ کیا آپ اس کے بعد کوئی دوسرا کام کر سکیں گے؟میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں دریلیش ارطغرل کی کہانی میں صرف دو فیصد حقیقت اور 98 فیصد فکشن ہے لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا یہ دل‘ دماغ اور روح تینوں پر اثر کرتی ہے‘ ارطغرل سیریز کہانی‘ کرداروں‘ مکالموں‘ سیٹس‘ میوزک‘ کاسٹیومز‘ لائٹنگ اور پروڈکشن ہر لحاظ سے لاجواب ہے‘ یہ دیکھنے والے کو ایک لمحے کے لیے بھی دائیں بائیں نہیں ہونے دیتی‘ یہ آپ کے دل کی دھڑکن‘ پھیپھڑوں کی سانس اور ذہن کی سوچ بن جاتی ہے‘ یہ خون کی طرح آہستہ آہستہ آپ کی نسوں میں سرکتی رہتی ہے۔میں ارطغرل کی اصل کہانی سے واقف تھا‘ میں جانتا تھا پوری ترک تاریخ میں ارطغرل کے بارے میں صرف سات صفحات دستیاب ہیں اور وہ بھی حضرت محی الدین ابن عربی‘ کرسچین ٹیمپلرز اور بازنطینی آرکائیوز میں بکھرے ہوئے ہیں‘ ترک حکومت کے پاس ارطغرل کے نام کا صرف ایک سکہ ہے اور وہ بھی اورخان کے دور میں جاری ہوا تھا اور بس۔ ڈرامہ سیریز میں دکھائے گئے ارطغرل کے تینوں بیٹے قراجہ حصار کے مضافات میں قائی قبیلے کے ٹینٹوں میں پیدا ہوئے اور اہلیہ حلیمہ سلطان عثمان غازی کی پیدائش کے بعد انتقال کر گئی جب کہ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی‘ ارطغرل کے تینوں بیٹے صغوط میں پیدا ہوئے تھے‘ یہ لوگ پہلے بیٹے گوندوزکی پیدائش سے قبل صغوط شفٹ ہو چکے تھے۔
حلیمہ سلطان نے عثمان غازی کو 67 سال کی عمر میں جنم دیا تھا‘ یہ اس وقت تک ”مینو پاز“ ہو چکی تھی لہٰذا عثمان غازی کی پیدائش معجزہ بھی تھی اور حضرت ابن عربی کی دعا کا نتیجہ بھی‘ ارطغرل کے ساتھی بامسی‘ آرتک بے‘ ترگت الپ‘ عبدالرحمن الپ اور سامسا الپ تاریخی کردار ہیں‘ ترکی میں ان کے مزارات بھی موجود ہیں لیکن حقیقت میں یہ کبھی ارطغرل سے نہیں ملے‘ان کے ادوار ہی مختلف تھے‘ ڈرامہ سیریز میں سعد الدین کوپیک (امیر سعادت) کا کردار بہت اہم اور طاقت ور ہے۔
یہ درست ہے سعد الدین کوپیک علاؤ الدین سلجوق اور غیاث الدین سلجوق کے دور میں اہم شخصیت تھا‘ اس نے سلجوق سلطنت کی تباہی میں بھی منفی کردار ادا کیا تھا‘ وہ انتہا درجے کا سازشی‘ حریص‘ چالاک اور منفی شخص بھی تھا‘ شیطان بھی اس سے پناہ مانگتا تھا لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ شاعر‘ مصور اور اعلیٰ پائے کا آرکی ٹیکٹ تھا‘ اس نے سلطان علاؤالدین کا ذاتی محل تعمیر کیا تھا تاہم یہ درست ہے غیاث الدین سلجوق کے زمانے میں اس کا سر اتار دیا گیا تھا لیکن یہ کام ارطغرل نے نہیں کیا تھا۔
سعدالدین کو سلطان کے حکم پر قتل کر کے اس کا سر محل کی دیوار سے لٹکا دیا گیا تھا‘ ڈرامہ سریز میں یہ کردار ترک اداکار مورات گیری پااوغلونے ادا کیا اور کمال کر دیا‘ ولن کا یہ کردار اس قدر مضبوط تھا کہ جب ارطغرل نے سعدالدین کوپیک کا سر اتارا تو پورے ترکی میں جشن منایا گیا تھا‘ لوگوں نے سڑکوں پر آ کر ڈھول پیٹے اور پٹاخے چلائے تھے‘ سعد الدین کوپیک کی قبر قونیا میں ہے اور اس کا بڑا برا حال ہے‘ شہر کے نشئی اس میں بول وبراز کرتے ہیں۔
ڈرامے میں حلیمہ سلطان کو جوانی میں مرتے ہوئے دکھایا گیا جب کہ یہ بڑھاپے میں فوت ہوئی تھی اور اسے صغوط میں دفن کیا گیا تھا‘ آج بھی اس کی قبر صغوط میں ارطغرل کے مزار کے قریب ہے‘ بیجو نویان بھی اصل کردار تھا‘ یہ ایشیا کوچک میں منگولوں کا گورنر تھا‘ چنگیز خان کے بیٹے اوغدائی نے اسے گورنر مقرر کیا تھا‘ یہ کوس داگ کی جنگ میں بھی شریک ہوا تھا لیکن اس کا ارطغرل کے ساتھ کبھی ٹاکرا نہیں ہوا‘ اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ بغداد‘ شام اور ایران کی مہمات میں گزرا تھا۔
ڈرامہ سیریز میں ارطغرل کو عالم اسلام کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا‘ یہ بات بھی تاریخی لحاظ سے غلط ہے کیوں کہ ارطغرل کا تاریخ میں دو سو جوانوں کے ساتھ علاؤالدین سلجوق کی اچانک مدد‘ سلطان سے صغوط کی وادی حاصل کرنے اور ابن عربی کی دعا کے علاوہ کوئی اہم کارنامہ نہیں تھا‘ سلطنت عثمانیہ آہستہ آہستہ معرض وجود میں آئی تھی اور اصل کمالات سلطان محمد فاتح‘ سلطان سلیم اول اور سلطان سلیمان نے دکھائے تھے‘ یہ لوگ تھے جنہوں نے صغوط کی چھوٹی سی وادی اور تین ہزار لشکریوں کی ریاست کو دنیا کی عظیم خلافت بنا دیا تاہم یہ بھی سچ ہے خلافت عثمانیہ اگر درخت تھی تو اس کا بنیادی بیج ارطغرل تھا‘ وہ نہ ہوتا تو شاید خلافت عثمانیہ بھی نہ ہوتی۔
دریلیش ارطغرل فکشن ہونے کے باوجود کمال ہے‘ یہ امریکا میں دیکھی جانے والی پہلی ترک سریز ہے‘ اس نے 150 ملکوں میں ریکارڈ قائم کیا‘قسط نمبر ایک سو دو 17 جنوری 2018ء کو ریلیز ہوئی‘ اس کی ریٹنگ 17تھی اور یہ ترکی میں کسی بھی ڈرامے کی بلند ترین ریٹنگ تھی‘ دریلیش ارطغرل حکومت کی سرپرستی میں بنائی گئی‘ اس کے پیچھے پروفیسروں کی پوری ٹیم تھی‘ ٹیم نے ابن عربی کا مطالعہ بھی کیا‘ ترک تہذیب اور ثقافت بھی دیکھی اور اسلام کی دھندلی ہوتی تصویر کا مشاہدہ بھی کیا اور پھر ایک ایسا فریم بنایا جس کے اندر رہ کر یہ ڈرامہ سیریز بنائی گئی اور پھر کمال ہو گیا۔
ترک صدر طیب اردگان تک اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ یہ اپنی اہلیہ اور صاحبزادی کے ساتھ سیٹ پر پہنچ گئے اور آدھا دن وہاں گزارا‘ اس ڈرامہ سیریز نے ترکی کی سیاحت میں بھی تین گنا اضافہ کیا اور سیاح ان علاقوں کے وزٹ بھی کرنے لگے جہاں کبھی کوئی شخص نہیں جاتا تھا‘ میں صغوط میں 2014ء میں گیا تھا‘ میں نے بورسا سے صغوط کے لیے ٹیکسی لی تھی‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی ٹیکسی ڈرائیور اور صغوط کے زیادہ تر لوگ بھی ارطغرل سے ناواقف تھے۔
ہم نے بڑی مشکل سے اس کا مزار تلاش کیا‘مزار کی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی لیکن آج صغوط باقاعدہ سیاحتی مقام بن چکا ہے‘ سیکڑوں لوگ روز وہاں جاتے ہیں اور سر پر ارطغرل کیپ پہن کر ہاتھ میں تلوار لے کر تصویریں بنواتے ہیں‘ حلیمہ سلطان بھی اب تک کروڑوں نوجوانوں کی والدہ بن چکی ہیں جب کہ میں جب وہاں گیا تھا تو قبر پر کبوتروں کی بینٹھوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘ یہ ہے کیمرے اور سوشل میڈیا کی پاور‘ ایک ایسا کردار جس کا ذکر ترک تاریخ میں بھی سات صفحوں سے زیادہ نہیں‘ وہ کیمرے اور سوشل میڈیا سے ہوتا ہوا تاریخ کا عظیم مجاہد بن گیا اور لوگوں نے اس پر یقین بھی کر لیا۔
آپ میڈیا کا اثر دیکھیے آج ارطغرل کا کردار ادا کرنے والا اداکار اینجن التان باہر نکلتا ہے تو لوگ آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومنا شروع کر دیتے ہیں اور جب حلیمہ سلطان کا کردار نبھانے والی اداکارہ اسرا بلگچ اور ارطغرل کی ماں حیمہ انا کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ حلیہ دارجان کی بکنی اور کھلے گلے کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوتی ہیں تو لوگ شدید احتجاج کرتے ہیں‘ یہ ان تصویروں کو اسرا بلگچ اور حلیہ دارجان کی تصویریں ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔
اسی طرح سلیمان شاہ کا کردارسردار گوکھان‘ سلیمان شاہ کے بھائی کا کردارہیکن وینلی‘ سعد الدین کوپیک کا کردار مورات گیری پااوغلواور نویان کا کردار برس باج نے ادا کیا تھا‘ لوگ آج انہیں ان کے اصل نام کی بجائے ان کے کرداروں سے جانتے ہیں‘سردار گوکھان عام زندگی میں بھی سلیمان شاہ اورمورات گیری پااوغلو اپنی گلی میں بھی سعد الدین کوپیک بن چکے ہیں‘آپ کیمرے کی پاور دیکھیں نویان کا کردار ادا کرنے والے برس باج اور سعدالدین کا کردار ادا کرنے والے مورات گیری پااوغلوجب گلیوں یا بازاروں میں نکلتے ہیں تو لوگ غصے میں ان کے ساتھ لڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ دکان دار انہیں سودا نہیں دیتے۔
یہ ہے میڈیا یعنی اصل نقل ہو گیا اور نقل اصل ہو گئی‘ آپ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے کیا اس ڈرامہ سیریز نے اس کے اداکاروں کا کیریئر ختم نہیں کر دیا‘ کیا یہ اب باقی زندگی ارطغرل کی چھاپ سے باہر آ سکیں گے‘ میرا خیال ہے نہیں‘یہ لوگ بھی اب محبوب عالم کی طرح چودھری حشمت بن چکے ہیں‘ یہ اب مرنے تک دریلیش ارطغرل سے باہر نہیں آ سکیں گے۔ارطغرل کے تمام ولن بہت مضبوط اور اداکاری کی معراج چھوتے نظر آتے ہیں‘ سیریز کے لیے استنبول کے مضافات میں پانچ ہزار لوگ آباد کیے گئے۔
خیمے بھی لگائے گئے اور قازقستان سے 25 ٹرینڈ گھوڑے اور تلوار باز بھی منگوائے گئے‘ اداکاروں کو چھ ماہ ٹریننگ دی گئی اور پھر ایک ایسا شاہکار سامنے آیا جسے مغربی میڈیا اسلامی بم قرار دے رہا ہے اور یہ واقعی اسلام کا ثقافتی‘ روحانی اور تاریخی بم ہے لیکن میری اس کے باوجود درخواست ہے آپ اسے مت دیکھیں‘ کیوں؟ کیوں کہ آپ اسے شروع کرنے کے بعد چھوڑ نہیں سکیں گے‘ آپ کے اندر ایک ارطغرل پیدا ہو جائے گا اور آپ کو باقی زندگی اس کے ساتھ گزارنا پڑے گی۔