مریم نباتنزی بچے پیدا کرنے کی لت میں مبتلا ہے‘ یوگنڈا کے ضلع مکونو کے گاﺅں کساﺅمیں رہتی ہے‘ بارہ سال کی عمر میں شادی ہوئی‘ 39سال کی ہو چکی ہے‘ 27 برسوں میں15 مرتبہ حاملہ ہوئی اور 44 بچے پیدا کیے‘ چار بار جڑواں بچے پیدا ہوئے‘ پانچ مرتبہ تین تین بچوں کو جنم دیا اور پانچ ہی مرتبہ چار چار بچے پیدا کیے‘
مریم کے سب سے بڑے بچے ایوان کبوکاکی عمر 23سال ہے‘ یہ 45 واں بچہ بھی پیدا کرنا چاہتی ہے لیکن ڈاکٹروں اور عدالت نے اس پر مزید بچے پیدا کرنے کی پابندی لگا دی یوں یہ دنیا کی پہلی خاتون بن گئی جسے باقاعدہ عدالت کے ذریعے بچہ پیدا کرنے سے روک دیا گیا۔ مریم اس فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہے‘ یہ کہہ رہی ہے ”میرے والد کے 45 بچے تھے‘ میں بھی 45 واں بچہ پیدا کر کے اپنے والد کے برابر ہونا چاہتی ہوں“ مگر عدالت نے ڈاکٹروں کو اس کی بچہ دانی نکالنے کا حکم دے دیا ہے اور یہ اس وقت ڈاکٹروں سے چھپتی پھر رہی ہے۔حکومت اور مریم دونوں میں کون جیتتا ہے یہ فیصلہ وقت کرے گا تاہم 44 بچوں کی اس ماں کی وجہ سے یوگنڈا کو بحران حل کرنے کا ایک نیا طریقہ سمجھ آ گیا اور وہ طریقہ ہے عدالت کا کٹہرا چناں چہ اب اگر کوئی شخص ملک میں ذاتی حیثیت میں بھی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تو ریاست اسے عدالت کے ذریعے روک دے گی‘ یہ ایک شان دار طریقہ ہے‘ ہم بھی یہ طریقہ پاکستان میں آزما سکتے ہیں‘مثلاً ہماری حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں 14 ماہ میں 1400 حماقتیں کر چکی ہے‘ پوری ریاست مل کرحکومت کو ان حماقتوں سے نہیں روک سکی لہٰذا ہمیں اب عدالت سے درخواست کر دینی چاہیے اور عدالت کو حکومت کی مزید حماقتوں پر پابندی لگا دینی چاہیے تاکہ عوام سکھ کے چند سانس لے سکیں‘
عدالت کے علاوہ ہمارے پاس اب کوئی آپشن نہیں بچا‘کیوں نہیں بچا ہم اس طرف آئیں گے لیکن آپ پہلے حکومت کی حماقتیں ملاحظہ کیجیے‘ عمران خان کی حماقتوں کا آغاز2014ءمیں ہوا‘ 2014ءکا دھرنا‘ عمران خان کا ریڈ زون میں پہنچنا اورپارلیمنٹ‘ وزیراعظم ہاﺅس‘ ایوان صدر اور پی ٹی وی پر حملہ‘ سول نافرمانی‘ بل جلانا‘ گیس اور بجلی کے بل ادا نہ کرنا‘ پولیس وین سے لوگوں کو چھڑانا‘ ایس ایس پی پر حملہ اور آئی جی کو دھمکیاں یہ حماقتوں کا خوف ناک آغاز تھا۔ میں اس وقت بار بار عرض کرتا رہا یہ حکومتوں کی تبدیلی کا نیا راستہ دکھا رہے ہیں‘ کل مولانا فضل الرحمن دس بیس لاکھ لوگوں کے ساتھ آئیں گے اور پورا نظام مفلوج کر دیں گے مگر یہ نہیں سمجھے‘عمران خان کی دوسری بڑی حماقت پارٹی منشور تھا‘
پی ٹی آئی نے منشورمیںایک کروڑ ملازمتیں‘ پچاس لاکھ گھر‘صحت کے بجٹ میں اضافہ‘ بلدیاتی اداروں کی خودمختاری‘ دس ارب درخت‘ نیب کی خودمختاری‘ جنوبی پنجاب کا قیام اور پاکستان کو بزنس دوست ملک بنانے کا اعلان کر دیا۔ فرمایا گیاہم دو ماہ میں پرانے پاکستان کو نیا بنا دیں گے‘ سوئس بینکوں سے دو سو ارب ڈالر لا کر آدھے اس کے منہ پر ماریں گے‘ آدھے اس کے جبڑوں پر جڑ دیں گے‘ یہ بھی کہا گیا ہم یکساں نظام تعلیم‘ کرپشن کا خاتمہ اور دروازے تک انصاف بھی فراہم کریں گے اور بیرون ملک سے ڈالروں کی بارش ہو گی‘ کراچی کے ساحل سے تیل نکلے گا‘ سونے کے پہاڑوں سے سونا آئے گا‘
عالمی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان پر یلغار کر دیں گی‘ حکومت آٹھ ہزار ارب روپے کے ٹیکس جمع کرے گی اور یورپ اور امریکا سے پاکستانی دھڑا دھڑ واپس آئیں گے لیکن پھر کیا ہوا؟ ۔ حکومت کو اپنے فرمودات کی ایک ایک گانٹھ اپنے دانتوں سے کھولنی پڑگئی‘ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا گیا جس نے کبھی ٹریکٹر نہیں چلایا تھا‘ جو آج تک کراچی نہیں گیا اور جس نے ہیلی کاپٹر میں بھی وزیراعلیٰ بننے کے بعد قدم رکھا تھا‘ یہ ایک سال سے وزیراعلیٰ کی ٹریننگ لے رہا ہے اور اس ٹریننگ کے دوران صوبے کا کیا حشر ہو گیا یہ پنجاب‘ پنجابی اور ان کا خدا جانتا ہے‘
دوسرا صوبہ اس شخص کے حوالے کر دیا جو 14 ماہ میں پشاور کی میٹرو مکمل نہیں کر سکا۔ جو کبھی اِدھر سے پل تڑوا دیتا ہے اور کبھی اُدھر سے جنگلا اور جس نے اب میٹرو کے ٹریک پر سائیکل سروس چلانے کا اعلان کر دیا ہے اور جسے ایف سی کے جوان اٹھا اٹھا کر گاڑی میں بٹھاتے ہیں‘ ملک کی ساری معیشت اٹھا کر پہلے بین الاقوامی معیشت دان ڈاکٹر اسد عمر کے حوالے کر دی گئی‘ وہ بیڑہ غرق کر بیٹھے تو پھر اس کے ٹکڑے کر کے چار وزیروں میں تقسیم کر دیے گئے اور یہ چاروں اب روز معیشت کا پیٹ چاک کر کے اندر ٹانکے لگا دیتے ہیں اور معیشت ٹانکوں کے بوجھ سے ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔
آصف علی زرداری نے پانچ برسوں میں 8ہزار ارب روپے اور نواز شریف نے پانچ سالوں میں 16ہزار ارب روپے قرضے لیے تھے جب کہ موجودہ حکومت نے ایک سال میں دس ہزار ارب روپے قرضہ بڑھا دیا‘ وزراءاپنے منہ سے فرمانے لگتے ہیں ڈالر 200 روپے تک چلا جائے گا چناں چہ ڈالر دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگااور پورے ملک کی تجارت اور صنعت بیٹھ گئی‘حکومت کی تیسری بڑی حماقت آئی ایم ایف تھا‘ وزیراعظم نے فرمایا تھا یہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کر لیں گے
چناں چہ یہ چھ ماہ ڈٹے رہے اور جب پیچھے ہٹے تو پوری قوم خودکشی تک پہنچ گئی۔ وزیراعظم نے کشکول توڑنے اور امداد لینے سے بھی انکار کیا تھا لیکن پھر ہم نے ٹوٹا کشکول اٹھا کر جس طرح گلی گلی امداد کی دہائیاں دیں یہ مثال بھی رہتی دنیا تک رہے گی اور پھر حماقتوں کی لائین لگ گئی‘ وزیراعظم نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کشمیر پر ثالث مان کر کشمیر کھو دیا‘ نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا‘ آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر دیا‘ کشمیر انڈین یونین کا حصہ بن گیا اور ہم پاکستان کے اندر یوم یکجہتی کشمیر مناتے رہ گئے‘ حکومت نے یوٹرن کا ریکارڈ بھی قائم کر دیا‘
وزیراعظم نے یوٹرن کو اچھی لیڈر شپ کی نشانی بھی قرار دے دیا‘ آپ سٹاک ایکس چینج بھی دیکھ لیں‘ آپ ریڑھی والے کے پاس کھڑے ہو جائیں یا پھر آپ کسی دفتر کا دورہ کر لیں آپ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ آپ حکومت کی عقل مندی کا معیار دیکھیے مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کا اعلان کیا اور حکومت نے ”یہ اکیلے ہیں‘ ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کبھی ان کا ساتھ نہیں دے گی“ کے نعرے لگا لگا کر پوری اپوزیشن کو مولانا کے پیچھے کھڑا کر دیا‘ یہ لوگ بار بار ”مولانا نہیں آئیں گے“ کے دعوے کر کے آزادی مارچ کو پکا بھی کرتے چلے گئے
لیکن جب مارچ سر پر آگیا تو وزیراعظم نے سات رکنی مذاکراتی ٹیم بنا دی اور اسی شام کام یاب نوجوان پروگرام کی تقریب میں مولانا کو ڈیزل بھی کہہ دیا‘اُدھر مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک نے بھی بھری پریس کانفرنس میں مولانا کو دھمکی دے دی۔ آپ ذرا سنجیدگی ملاحظہ کیجیے وزیراعظم بھارتی نیتا نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت دینے کے لیے فون پر فون کر رہے ہیں لیکن یہ الیکشن کمیشن کے ارکان‘ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور میثاق معیشت کے لیے شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے ملنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ پارلیمنٹ عملاً مفلوج ہو چکی ہے‘ حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے چل رہی ہے‘
سی پیک اتھارٹی اور الیکشن کمیشن کے ارکان کا تعین بھی صدارتی حکم سے ہو رہا ہے۔ پیچھے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی صحت بچی تھی‘ حکومت کی نالائقی اور غیر سنجیدگی نے یہ ایشوز بھی کھول دیے‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں بیمار ہیں‘ ڈاکٹرز بار بار وارننگ دے رہے تھے لیکن آپ وزراءکے بیانات دیکھ لیجیے ‘ یہ طنز پر طنز فرماتے چلے جا رہے تھے‘ یہ صورت حال کتنی خطرناک ہے کسی کو ذرہ برابر پروا نہیں‘ پنجاب سے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی لاشیں سندھ جا چکی ہیں خدانخواستہ اگر پنجاب میں تیسری ٹریجڈی بھی ہو گئی تو کیا نتیجہ نکلے گا؟۔
سندھ‘ بلوچستان اور فاٹا میں ملک دشمن تحریکیں چل رہی ہیں‘ بھارت سلگتی آگ پر پٹرول پھینک رہا ہے‘ صرف پنجاب بچا تھا‘ یہ ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑا رہا تھا اگر خدانخواستہ میاں نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو ملکی تاریخ میں پہلی بار پنجاب میں بھی نعرہ لگ جائے گا‘ حکومت کو پنجاب میں بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا‘ کیا ہم یہ افورڈ کر سکتے ہیں؟یہ حکومت احتساب اور کرپشن فری پاکستان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی۔ آج کرپشن کی حالت یہ ہے حکومت نے ایک آرڈر سے اڑھائی سو ارب روپے کی گیس انفراسٹرکچر سیس ختم کر دی۔ میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا تو وزیراعظم نے صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا‘ ادویات کا سکینڈل سامنے آیا اور وزیراعظم وزیر صحت عامر کیانی کو پارک کرنے پر مجبور ہو گئے‘
پوری اپوزیشن کرپشن کے مقدمات میں اندر ہے‘ نیب اب تک ایک روپے کی ریکوری نہیں کر سکا جب کہ دوسری طرف جہانگیر ترین‘ علیم خان اور پرویز خٹک نیب کی انکوائریوں‘ ریفرنسز اور مقدموں کے باوجود وزیراعظم ہاﺅس میں بیٹھے ہیں۔ پولیو پروگرام کے فوکل پرسن بابر عطاءنے کیا کیا گل کھلائے اور عون چودھری وفاق کے بعد پنجاب سے بھی فارغ ہو گئے‘ کیوں؟ اور کیا یہ سچ نہیں وزیراعظم کے پاس کوئی بھی جاتا ہے اور کوئی بھی حکم لے کر آ جاتا ہے اور ابھی اس حکم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوتی اوریہ حکم پھر اسی وزیراعظم کے حکم سے منسوخ ہو جاتا ہے اور بس آزادی مارچ کی کمی تھی‘ یہ بھی اب پوری ہوتی نظر آ رہی ہے‘ پورا ملک مزید جام ہو جائے گا۔یہ ملک میں ہو کیا رہا ہے؟
حکومت اور سسٹم کہاں ہے؟۔ حکومتی حماقتیں مریم نبا تنزی کی طرح روز بچوں پر بچے دیتی جا رہی ہیں لیکن کوئی حکومت کا ہاتھ پکڑنے‘ اس کا راستہ روکنے کے لیے تیار نہیں چناں چہ پھر عدالت کے سوا کیا آپشن بچ جاتا ہے‘ یہ حکومت سپریم کورٹ کے ایکٹوازم کا نتیجہ ہے‘ اسے اب سپریم کورٹ کے سوا کوئی نہیں روک سکتا‘ سپریم کورٹ کو ایک بار پھر ایکٹو ہونا پڑ جائے گا‘ اب یہ ہی حکم جاری کر سکتی ہے‘ یہ ہی حکومت کو بتا سکتی ہے”آپ کی 44 حماقتیں پوری ہو چکی ہیں‘ آپ اب مزید کوئی حماقت نہیں کر سکتے“ ہم اگر اب بھی نہ جاگے‘ اگر سپریم کورٹ ایکٹو نہ ہوئی تو مجھے خطرہ ہے یہ کھیل پھر کسی حمود الرحمن کمیشن پر ختم ہو گا‘ ہمارے پاس آنسوﺅں‘ آہوں اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔