یہ میری عملی زندگی کے ابتدائی دن تھے‘ میں لاہور میں ایک بزرگ دانشور کے پاس حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا ”میں کام یاب انسان بننا چاہتا ہوں‘ مجھے کیا کرنا چاہیے“ وہ مسکرائے اور میٹھی آواز میں بولے ”پھر کام یاب لوگوں کی صحبت اختیار کرو“ بزرگ دانشور کا کہناتھا ”انسان ہمیشہ صحبت سے متاثر ہوتا ہے‘ آپ دولت مند لوگوں میں بیٹھتے ہیں تو آپ بھی دولت مند ہو جاتے ہیں‘ آپ دانشوروں میں بیٹھتے ہیں تو دانشور‘ عالم اور فاضل ہو جاتے ہیں اور آپ کام یاب لوگوں کی کمپنی میں بیٹھتے ہیں تو آپ بھی آہستہ آہستہ کام یاب ہونے لگتے ہیں“ ۔
بزرگ دانشور کا کہنا تھا ”انسان کا طرز عمل اگر اس کے برعکس ہو تواس پر بری صحبت بھی ضرور اثر کرتی ہے مثلاً وہ کام یاب لوگ جو اپنا زیادہ وقت ناکام لوگوں میں گزارتے ہیں‘ وہ دانشور جن کا زیادہ وقت جاہلوں میں گزرتا ہے اور وہ بچے جو غیر صحت مندانہ عادات کے شکار بچوں میں وقت گزارتے ہیں وہ بھی بہت جلد ان لوگوں جیسے ہو جاتے ہیں“ بزرگ دانشور کا کہنا تھا ”تم اگر کام یاب ہونا چاہتے ہو تو اپنا زیادہ وقت کام یاب لوگوں کے درمیان گزارنا شروع کر دو‘ ان کی کام یابی کا اثر آہستہ آہستہ تمہارے اوپر بھی ظاہر ہونے لگے گا“۔مجھے اس وقت ان کی بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی لیکن میں نے اس کے باوجود وہ بات پلے باندھ لی اور میں نے کام یاب لوگوں کے بارے میں تحقیق شروع کر دی‘ میں نے دنیا کے کام یاب ترین لوگوں کی ”بائیو گرافیز“ بھی پڑھنا شروع کر دیں‘ میں نے بے شمار کام یاب لوگوں سے ملاقات بھی کی اور میں کام یاب لوگوں کی کام یابی کے راز بھی جمع کرتا رہا لیکن میں اس سفر کے دوران سب سے زیادہ متاثر کراچی کے ایک بزنس مین سے ہوا‘ میرے ایک دوست نے میری ان سے ملاقات کرائی‘ یہ ایک سیلف میڈ (اللہ میڈ) بزنس مین ہیں‘ یہ انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ انہوں نے ٹیوشن پڑھا پڑھا کر تعلیم مکمل کی‘ ایک پرائیویٹ کمپنی میں منشی کی نوکری کی‘ کمپنی کا مالک ایک وژنری انسان تھا‘ یہ اس سے متاثر ہوئے‘ انہوں نے مالک کی شخصیت کا مطالعہ کیا‘ مالک کی اچھی عادتوں کی فہرست بنائی‘ وہ عادتیں اپنائیں‘ نوکری چھوڑی‘ دس ہزار روپے سے چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور بیس سال میں ارب پتی بن گئے۔
یہ کام یابی اور امارت کا ایک بڑا سٹڈی کیس تھا‘ میں نے ان سے کام یابی کا فارمولا پوچھاتو میرے اس سوال نے نئے زاویوں کا ایک نیا دروازہ کھول دیا‘ ان صاحب کا کہنا تھا ”میں پینتیس برس پہلے ایک سیٹھ کے پاس منشی تھا‘ ایک دن سیٹھ اپنی بڑی اور مہنگی کار سے اترا‘ سیٹھ کے ذاتی خادم اس کی طرف دوڑپڑے‘ کسی نے اس کا دروازہ کھولا‘ کسی نے اس کا بریف کیس نکالا اور کسی نے اس کا چشمہ‘ اس کی گھڑی اور اس کی فائلیں اٹھا لیں‘ میں شیشے کے اندر سے یہ منظر دیکھ رہا تھا‘میں نے اس وقت سوچا اس سیٹھ اور مجھ میں کیا فرق ہے؟ ۔
میرے دماغ میں روشنی کا ایک کوندا سا لہرایا اور مجھے محسوس ہوا مجھ میں اور اس میں صرف چند عادتوں کا فرق ہے‘ میری ساری عادتیں غریبوں جیسی ہیں جب کہ سیٹھ نے امیروں کی عادتیں اپنا رکھی ہیں‘ میں فوراً اپنی میز پر جھکا‘ میں نے کاغذ اور پنسل اٹھائی اور میں نے غریبوں اور امیروں کی عادتوں کی فہرست بنانا شروع کر دی‘ مجھے محسوس ہوا غریب لوگ سست ہوتے ہیں‘ یہ اپنا زیادہ تر وقت فضول کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں جب کہ امیر لوگ چست ہوتے ہیں اور یہ اپنا ایک ایک لمحہ تعمیری اور مثبت کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔
غریب لوگ سیکھنایعنی ”لرن“ کرنا چھوڑ دیتے ہیں جب کہ امیر لوگ پوری زندگی نئی سے نئی چیز سیکھتے رہتے ہیں‘ غریب لوگ کمیٹی نکلنے‘ لاٹری لگنے اور چھپڑ پھٹنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جب کہ امیر لوگ اپنا چھپڑ بناتے ہیں‘ اپنی لاٹری ایجاد کرتے ہیں اور لوگوں کو اکٹھا کر کے ان کی کمیٹی بناتے ہیں اورلوگوں کا منافع اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں‘ غریب لوگ رسک لینے‘چیلنج قبول کرنے اور اینی شیٹو لینے سے گھبراتے ہیں جب کہ امیر لوگوں کی پوری زندگی چیلنجز اور رسک کے گرد گھومتی ہے۔
غریب لوگ کم پر راضی ہو جاتے ہیں‘ یہ سر ڈھانپ کر پاؤں ننگے چھوڑ دیتے ہیں جب کہ امیر لوگ کم پر راضی نہیں ہوتے‘ یہ سر بھی ڈھانپتے ہیں اور پاؤں چھپانے کا بندوبست بھی کرتے ہیں‘ غریب آدمی جلد مایوس ہوجاتا ہے‘ یہ چھوٹی سی ناکامی پر دل ہار بیٹھتا ہے جب کہ امیر شخص آخری سانس تک سٹرگل کرتا ہے‘ایک جگہ ناکام ہوتا ہے تو کسی دوسرے شہر‘ کسی دوسرے ملک میں جا کر کام شروع کر دیتا ہے‘ غریب آدمی اکثر اوقات کام چوری سے کام لیتا ہے جب کہ امیر لوگ کام کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ اپنے کام میں کبھی ڈنڈی نہیں مارتے اور غریب لوگ جلدی غصے میں آ جاتے ہیں۔
یہ ہر وقت شکوہ کرتے ہیں‘ ان کے ہونٹوں پر اکثر اوقات کسی نہ کسی کی شکایت ہوتی ہے اور یہ ضدی ہوتے ہیں جب کہ امیر لوگ دھیمے مزاج کے انسان ہوتے ہیں‘ ان کے پاس شکایت اور شکوے کیلئے وقت نہیں ہوتا اور یہ اکثر اوقات ضد اور ہٹ دھرمی سے پرہیز کرتے ہیں‘میں نے اسی وقت اپنی اور اپنے سیٹھ کی عادتوں کی فہرست بنائی اور مجھے معلوم ہوا سیٹھ اور مجھ میں صرف عادتوں کا فرق ہے‘ میں آج اگر امیر لوگوں جیسی عادتیں اپنا لوں تو میں بھی امیر ہو سکتا ہوں چناں چہ میں نے فوراً غریب لوگوں کی عادتیں ترک کیں اور سیٹھ کی عادتیں اپنا لیں لہٰذا دولت میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور میں بیس سال بعد سیٹھ سے کہیں آگے کھڑا تھا“۔
میں بڑی توجہ سے ان کی بات سنتا رہا‘ ان کا کہنا تھا”کام یاب انسان اور ناکام انسان‘ صحت مند شخص اور بیمار شخص‘ اچھے انسان اور برے انسان‘عالم شخص اور جاہل شخص اور صوفی اور بدمعاش میں صرف عادتوں کا فرق ہوتا ہے‘ ناکام انسان کی عادتیں ناکام لوگوں جیسی ہوتی ہیں‘ بیمار شخص نے بیماروں جیسی عادتیں پال رکھی ہوتی ہیں‘ برے انسان کی عادتیں بروں جیسی ہوتی ہیں‘ جاہل جاہلوں کی طرح زندگی گزارتا ہے اور بدمعاش میں بدمعاشوں جیسی عادتیں ہوتی ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں صوفی میں صوفیوں جیسے اوصاف‘ عالموں میں عالموں جیسی عادتیں‘ نیک انسانوں میں اچھے انسانوں کی عادتیں‘ صحت مند لوگوں میں ”ہیلتھی پیپل“ کی عادتیں اور کام یاب لوگوں میں کام یاب لوگوں کی عادتیں ہوتی ہیں۔
یہ صرف عادت ہے جو ہمیں اچھا یا برا‘ کام یاب یا ناکام اور بھکاری یا سیٹھ بناتی ہے اور ہم اگر اپنی عادت بدل لیں تو ہماری کلاس تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی“۔ میں نے انہیں ٹوکا اور ان سے پوچھا ”لیکن میں نے بے شمار غریب لوگ دیکھے ہیں جن میں امیروں جیسی عادتیں ہوتی ہیں اور میں اکثر ایسے امیر لوگ بھی دیکھتا ہوں جن کی ساری عادتیں غریبوں جیسی ہوتی ہیں“ وہ مسکرائے اور پورے یقین سے بولے ”آپ کی بات درست ہے لیکن آپ آج سے ایک نیا مطالعہ شروع کردیں۔
آپ ان غریب لوگوں کو واچ کریں جن میں امیر لوگوں کی عادتیں ہیں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ یہ لوگ زیادہ دیر تک غریب نہیں رہیں گے‘ وہ تمام لوگ جنہیں ہم سیلف میڈ کہتے ہیں‘ یہ بنیادی طورپر وہ لوگ ہوتے ہیں جو غربت میں امیر لوگوں کی عادتیں اپنا لیتے ہیں چناں چہ اللہ ان پر کرم کرتا ہے اور یہ لوگ غربت کی دلدل سے نکل آتے ہیں‘ اس طرح غریبوں کی عادتوں والے امیر لوگ زیادہ دیر تک امیر نہیں رہتے‘ ہم جن لوگوں یا جن خاندانوں کو امارت سے غربت کی طرف سفر کرتے دیکھتے ہیں یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو سفر کے دوران غربت یا ناکامی کی عادتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں چناں چہ دیکھتے ہی دیکھتے کام یابی اور امارت مٹھی کی ریت کی طرح ان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
رہا اتار چڑھاؤ تو یہ زندگی کا حصہ ہے‘ دنیا کے غریب سے غریب ترین شخص کو بھی زندگی میں اپنے حالات تبدیل کرنے کا ایک آدھ موقع ضرورملتا ہے جب کہ امیر سے امیر لوگ بھی زندگی کے کسی حصے میں سانپ اور سیڑھی کے کھیل کا ضرور نشانہ بنتے ہیں لیکن عادتوں کی وجہ سے امیر بہت جلد دوبارہ امیر اور غریب مستقل غریب ہو جاتے ہیں‘یہ تاریخ ہے دنیا کے تمام امیر لوگ زندگی میں ایک آدھ بار شدید نقصان ضرور اٹھاتے ہیں‘ یہ ایک آدھ بار غریب ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی عادتیں‘ ان کی سکلز انہیں دوبارہ واپس ان کے مقام پر لے آتی ہیں
جب کہ غریب اپنی غریب عادتوں کی وجہ سے امیر ہونے کا ہر موقع ضائع کرتے رہتے ہیں لہٰذا فرق صرف عادتوں کا ہے‘آپ صرف عادت بدل دیں آپ کے حالات تبدیل ہو جائیں گے“ مجھے ان کی بات عجیب لگی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے اس فلسفے میں جان محسوس ہونے لگی‘ پتا چلا یہ فلسفہ صرف فلسفہ نہیں‘ یہ جادو ہے‘ یہ کام یابی کا بہت بڑا پریکٹیکل گُر ہے‘ ایسا گُر جو آپ کو اندر اور باہر دونوں سائیڈز سے تبدیل کر سکتا ہے بس کریں اور پھر تبدیلی دیکھیں۔