جبل نیبو بحر مُردار سے زیادہ دور نہیں تھی‘ نیبو بلند مقام تھا‘ تین اطراف گہری کھائیاں تھیں‘ پارکنگ کے سامنے گہرائی میں درختوں کا جھنڈ تھا‘ یہ جھنڈ عیون موسیٰ کہلاتا ہے‘ وہاں ایک غار میں پانی کے بارہ چھوٹے چھوٹے چشمے ہیں‘ عربی میں چشمے کو عین کہتے ہیں‘ عیون عین کی جمع ہے‘ مقامی لوگوں کا خیال ہے حضرت موسیٰ ؑ نے جس چٹان پر اپنا عصا مار کر بارہ چشمے جاری فرمائے تھے وہ مقام یہ ہے چنانچہ یہ اس جگہ کو عیون
موسیٰ کہتے ہیں‘ جبل نیبو پارکنگ سے فاصلے پر تھی‘ ہم ٹکٹ لے کر چوٹی پر پہنچ گئے‘ وہاں پر دو جگہیں اہم ہیں‘ ایک وہ مقام جہاں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس دکھائی اور دوسری وہ جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کی مشترکہ عبادت گاہ ہے‘ مقام موسیٰ پہاڑی کے کنارے پر تھا‘ وہاں لوہے کا سیاہ رنگ کا ایک طویل ستون نصب ہے‘ ستون سے اژدھا لٹک رہا ہے‘ یہ حضرت موسیٰ ؑکے عصا کا ماڈل ہے‘حضرت موسیٰ ؑ یہودیوں کے ساتھ صحرانوردی کے بعد جب جبل نیبو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر انہیں فلسطین دکھایاتھا‘عصا موسیٰ ؑ کے ساتھ لوہے کی چھ سیڑھیاں ہیں‘ سیڑھیوں کے ساتھ فصیل ہے اور فصیل کے نیچے گہرائی میں تاحد نظر وسیع وادی ہے‘
وادی کے آخر میں فلسطین دکھائی دے رہا تھا‘ حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم کو فلسطین نہیں پہنچا سکے ‘ آپ ؑ کا انتقال ہو گیا‘ آپ ؑ کو وادی میں کسی جگہ دفن کر دیا گیا‘ وہ جگہ کہاں ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘ آپ ؑ کے بعد آپ ؑ کے بھانجے حضرت یوشعؑ بن نون کو نبوت ملی اور وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر سات سال بعد فلسطین پہنچے‘
یہودیوں نے جبل نیبو پر مقام موسیٰ پر ٹیمپل بنا دیا‘ یہ ٹیمپل بعد ازاں رومیوں اور عیسائیوں کے استعمال میں بھی رہا اور یہاں مسلمانوں نے بھی مسجد بنادی‘ جیل نیبو پر تینوں مذاہب کا اثر موجود تھا‘
آثار قدیمہ کا چھوٹا سا عجائب گھر بھی تھا جس میں علاقے سے نکلنے والی قدیم اشیائ‘ زیورات اور برتن رکھے تھے‘ ہمنے عصا موسیٰ ؑکے پاس کھڑے ہو کر فلسطین کی طرف منہ کیا‘ دعا کی اور آگے روانہ ہو گئے۔ہماری اگلی منزل حضرت یحییٰ ؑ کی عبادت گاہ تھی‘ جبل نیبو سے آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر وہ مقام تھا جہاںحضرت یحییٰ ؑ نے حضرت عیسیٰ ؑکو بپتسمہ دیا تھا‘ یہ عبادت گاہ دریائے اردن کے کنارے پر واقع ہے‘ حضرت یحییٰ ؑ حضرت ذکریا ؑ کے صاحبزادے تھے اور حضرت ذکریا ؑ حضرت مریم ؑ کے سگے خالو تھے یوں حضرت یحییٰ ؑ حضرت عیسیٰ ؑ کے کزن تھے‘ یہ دریائے اردن کے کنارے رہتے تھے‘
حضرت عیسیٰ ؑ ان کے پاس تشریف لائے اور آپ ؑ نے دریائے اردن کے پانی سے انہیں غسل دیا‘ یہ غسل بپتسمہ کہلاتا ہے‘حضرت عیسیٰ ؑکے بپتسمہ کے بعد دریائے اردن کا پانی ہولی واٹر (مقدس پانی) اور بپتسمہ عیسائیت کا بنیادی رکن بن گیا‘ عیسائیوں کےلئے دریائے اردن کا پانی آب زم زم کی حیثیت رکھتا ہے‘ یہ لوگ یہاں سے پانی بوتلوں میں بھر کر لے جاتے ہیں‘ اس میں عام پانی ملاتے ہیں اور یہ پانی چرچ میں رکھ دیتے ہیں‘ لوگ اس پانی میں انگلیاں ڈبو کر ماتھے اور منہ پر رگڑتے ہیں‘
حضرت یحییٰ ؑ کی شہادت کا واقعہ بہت افسوس ناک تھا‘ دمشق کا بادشاہ ہیرودس اپنی سوتیلی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘ حضرت یحییٰ ؑ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا لیکن بادشاہ نے اس کے باوجود شادی کر لی‘ لڑکی نے حق مہر میں حضرت یحییٰ ؑکا سر مانگ لیا‘ بادشاہ نے حکم دیا اور اردن کے گورنر نے آپؑ کو شہید کر کے سردمشق بھجوا دیا‘ آپ ؑ کے بدن کو اردن کے گاﺅں مکاور میں دفن کر دیا گیا یوں آپ کے دنیا میں دو مزارات ہیں‘ مکاور اردن میں آپ کا جسم مدفون ہے اور دمشق کی جامع امیہ میں آپ کا سر مبارک‘
حضرت یحییٰ ؑکا سر مبارک مسجد کی تعمیر کے دوران غار سے دریافت ہوا تھا‘ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے سر اسی جگہ دفن کیا اوراوپر مزار بنا دیا‘یہ مزار جامع امیہ کے مرکزی ہال کے اندر ہے‘ مجھے اس پر حاضر ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوچکی ہے‘ عیسائی حضرت یحییٰ ؑ کو بپتسمہ کی مناسبت سے جان دی بیپٹسٹ کہتے ہیں‘ یہ جگہ اسرائیل کی سرحد پر واقع ہے چنانچہ وہاں ٹھیک ٹھاک سیکورٹی تھی‘ حکومت تمام سیاحوں کو سرکاری گاڑی اورپولیس کی نگرانی میں وہاں لے کر جاتی ہے‘
کوئی شخص پیدل وہاں نہیں جا سکتا‘ حضرت یحییٰ ؑ کی عبادت گاہ اور بپتسمہ کی جگہ جنگل کے درمیان تھی اور خشک تھی‘غالباً دریا اپنا رخ موڑ چکا ہے‘ ہم بپتسمہ کی جگہ سے ہوتے ہوئے دریائے اردن کے کنارے پہنچ گئے‘ دریائے اردن کو دریا کہنا دریا کی توہین ہو گی‘ یہ فقط چند میٹر چوڑا نالہ تھا‘ نالے کی ایک سائیڈ پر اردن کا جھنڈا لگا تھا اور دوسری طرف اسرائیل کا پرچم لہرا رہا تھا‘ دونوں ملکوں کے درمیان پانچ چھ میٹر سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا‘ ایک طرف سیڑھیوں پر ہم لوگ بیٹھے تھے اور دوسری طرف اسرائیل کے لوگ‘درمیان میں دریائے اردن کا گدلا پانی تھا‘ مذہب انسانوں‘ دریاﺅں اور زمین کو کس طرح تقسیم کرتا ہے وہ جگہ اس حقیقت کی عبرت ناک مثال تھی‘ ہماری پشت پر حضرت عیسیٰ ؑکا قدیم چرچ تھا‘ یہ چرچ کبھی پوری دنیا کے عیسائیوں کےلئے مقدس ہوتا تھا لیکن یہ اب صرف اردن کے عیسائیوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے‘ ہم دل میں ایک پھانس لے کر وہاں سے اٹھ آئے۔
ہماری اگلی منزل السلط کا علاقہ تھا‘ اس علاقے میں تین انبیاءکرام حضرت شعیبؑ‘ حضرت ایوب ؑ اور حضرت یوشعؑ بن نون کے مزارات ہیں‘ہم پہلے حضرت شعیب ؑ کے مزار پر حاضر ہوئے‘ یہ مزار ایک سرسبز اور شاداب وادی میں واقع ہے‘ یہ علاقہ وادی شعیب کہلاتا ہے‘ حضرت شعیب ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے سسر بھی تھے‘ حضرت موسیٰ ؑ مصر سے ہجرت کر کے وادی شعیب تشریف لائے‘ حضرت شعیب ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ کو پیش کش کی ”آپ اگر 8سال میری بھیڑ بکریاں چرائیں تو میںاپنی ایک صاحبزادی کا عقد آپ سے کر دوں گا“ حضرت موسیٰ ؑ مان گئے چنانچہ حضرت شعیب ؑ نے اپنی صاحبزادی صفورا آپؑ کے عقد میں دے دی‘
صفورا کے نام پر آج کل پرفیوم کی ایک بہت بڑی چین چل رہی ہے‘ حضرت موسیٰ ؑ وادی شعیب میں 8سال(بعض روایات کے مطابق10سال) رہے‘ میں اس واقعے کے ساڑھے تین ہزار سال بعد حضرت شعیبؑ کے اس گھر کے سامنے کھڑا تھا جہاں حضرت موسیٰ ؑنے زندگی کے شاندار برس گزارے تھے‘میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ‘ میں نے آنکھیں صاف کیں اور اندر داخل ہو گیا‘ حضرت شعیب ؑ کی قبر عام قبروں کے مقابلے میں کئی گنا بڑی تھی‘ متولی نے بتایا‘ علاقے کے لوگ انبیاءاور صحابہؓ کی قبریں احتراماً بڑی بناتے تھے‘
میں نے سلام پیش کیا‘ دعا کی اور باہر آ گیا‘ مزار کے احاطے میں ایک قدیم کنواں بھی تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ وہ کنواں ہے جس پر حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادیوں کے جانوروں کو پانی پلایا تھا مگر مجھے یہ بات تاریخی لحاظ سے درست نہ لگی کیونکہ وہ کنواں حضرت شعیب ؑ کے گھر سے دور تھا تاہم یہ عین ممکن ہے حضرت شعیب ؑ بعد ازاں اس کنویں کے قریب آباد ہو گئے ہوں اور آپؑ کا انتقال کنویں کے قریب ہوا ہو بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔ وادی شعیب کی ہواﺅں میں تازگی تھی‘یہ تازگی یقینا حضرت شعیب ؑ کی فطرت کا اعجاز تھا‘ہم نے دعا کی اور ہم اس کے بعد حضرت ایوبؑ کے مقام کی طرف روانہ ہوگئے‘ حضرت ایوبؑ کا صبر محاورے کی حیثیت رکھتا ہے‘ مجھے ترکی کے شہر ریحان لی کا وہ غار بھی دیکھنے کا اتفاق ہو چکا ہے جہاں حضرت ایوبؑ نے بیماری کے اٹھارہ سال گزارے تھے‘ آپ شاید اس کے بعد اردن شفٹ ہو گئے تھے‘ السلط کے علاقے میں حضرت ایوبؑ کے گھر کے آثار پائے جاتے ہیں‘ لوگ دعویٰ کرتے ہیں آپؑ کا مقام تدفین بھی یہیں ہے لیکن یہ بات تاریخی لحاظ سے غلط ہے کیونکہ حضرت ایوبؑ کا مزار عمان کے شہر صلالہ کے مضافات میں موجود ہے
چنانچہ شاید آپ زندگی کے آخری حصے میں صلالہ چلے گئے ہوں گے تاہم اردنی حکومت نے مقام ایوبؑ کے گرد خوبصورت مسجد بنا دی ہے‘ مسجد کے صحن میں تین ہزار سال پرانا وہ درخت ابھی تک موجود ہے آپؑ جس کے سائے میں تشریف فرما ہوتے تھے‘ یہ درخت سوکھ چکا ہے تاہم یہ ابھی تک زمین میں گڑھا ہوا ہے‘ ہم نے دعا کی اور ہم حضرت یوشعؑ بن نون کے مزار کی طرف روانہ ہوگئے‘ آپ اگر قرآن مجید میں حضرت خضر ؑ کے ساتھ حضرت موسیٰ ؑ کے سفر کی روداد پڑھیں تو آپ کو حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ ایک ساتھی ملیں گے‘
یہ وہی ساتھی ہیں جو مچھلی لے کر آپ ؑ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘ وہ ساتھی حضرت یوشع ؑ تھے‘ آپ ؑ نے حضرت موسیٰ ؑکے بعد بنی اسرائیل کی قیادت کی‘ جنگ لڑی اور بنی اسرائیل کو دوبارہ ارض مقدس میں داخل کر دیا‘ آپؑ کا مزار اسرائیل کے بارڈر پر ہے‘ ہم مغرب کے بعد وہاں پہنچے تو سامنے اسرائیلی شہر جیرکوکی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں‘ آپؑ کی قبر مبارک مسجد کے اندرغار میں ہے‘ آپ غار میں رہتے تھے‘ غار ہی میں انتقال ہوا اور غار ہی میں دفن ہوئے‘ آپؑ کی قبر مبارک کا سائز بھی بہت بڑا تھا‘
مسجد کے امام فلسطینی تھے‘ انہوں نے بہت خوبصورت قرا¿ت کی اور آخر میں ہم سب کےلئے دعا فرمائی‘ دعا ان کے دل سے نکل رہی تھی‘ ہم نے حضرت یوشعؑ کو سلام پیش کیا اور باہر آ گئے‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین انبیاءکرام کے مزارات کی زیارت کا موقع دیا‘ ہم اس اعزاز پر دل سے نازاں تھے‘رات ہو چکی تھی‘ ہم السلط سے عمان کی طرف روانہ ہو گئے‘ ہم نے اگلے دن پیٹرا جانا تھا‘ دنیاکے سات بڑے عجوبوں میں شامل عجوبہ پیٹرا۔