”مجھے ایک ایماندار ڈرائیور چاہیے‘ اگر آپ کی نظر میں کوئی ایسا شخص ہو تو آپ اسے میری طرف ریفر کر دیں“ میرے دوست نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”تم در اصل دو لوگ تلاش کر رہے ہو‘ ایک ایماندار اور دوسرا ڈرائیور“ میں نے حیران ہو کر پوچھا ”کیا مطلب“ وہ بولا ”بھائی میرے! ہماری سوسائٹی میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ ایماندار اور ماہر‘ مجھے آج تک جو بھی ایماندار شخص ملا اسے کام نہیں آتا تھا اور جو کام کا ماہر تھا
وہ ایماندار نہیں تھا چنانچہ تم فیصلہ کر لو‘ تمہیں کون سا شخص چاہیے‘ ایماندار یا ڈرائیور“ میں نے ڈرائیور مانگ لیا‘میرے دوست نے بھجوا دیا‘ وہ ڈرائیور واقعی اچھا تھا لیکن وہ پیسے مارتا تھا‘ میں نے اس کی ”بے ایمانی“ سے سمجھوتہ کر لیا‘ میرا نظام چلتا رہا لیکن پھر ایک دن میرے بھائی نے اسے نکال دیا اور اس کی جگہ ایک ایماندار اور پابند صوم وصلوٰة ڈرائیور رکھ لیا‘ وہ بہت بھلا آدمی تھا لیکن وہ راستے بھول جاتا تھا‘ وہ ڈرائیونگ بھی غیر معمولی حد تک آہستہ کرتا تھا‘ وہ ایکسیڈنٹ کا ماہر بھی تھا اور وہ ہر چھوٹے موٹے مزار اور درگاہ پر سلام کرنا بھی فرض سمجھتا تھا‘ میں اسے ڈھونڈتا رہ جاتا تھا‘ آخر میں پتہ چلتا تھا وہ مجھے اور گاڑی کو چھوڑ کر سامنے مزار پر دعا کےلئے چلا گیا تھا‘ میں اسے اکثر اپنی سیٹ پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ کرتا تھا‘ وہ ایک بار بیمار ہوا‘ گھر گیا اور واپس نہیں آیا‘ وہ حقیقتاً اس قدر نیک شخص تھا کہ میں آج بھی اس کی تنخواہ کے برابر رقم اس کے گھر بھجواتا ہوں۔احد خان چیمہ کا ایشو بھی اس واقعے سے ملتا جلتا ہے‘ احمد چیمہ 28 کامن کا ڈی ایم جی آفیسر ہے‘ یہ حافظ آباد کے مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتا تھا‘سی ایس ایس کیا‘ یہ 212 افسروں کے گروپ میں سب سے آگے تھا‘ شیوننگ سکالرشپ حاصل کیا‘ لندن سکول آف اکنامکس سے سوشل اینڈ پبلک پالیسی میں ایم اے کیا‘ یہ اکنامکس اور ماس کمیونی کیشن میں بھی ایم اے ہے اور یہ ایل ایل بی بھی ہے‘ چودھری پرویز الٰہی نے ”پڑھا لکھا پنجاب“ سکیم شروع کی‘ یہ جاٹ افسروں کو اہمیت دیتے تھے‘ انہوں نے احد چیمہ کو2005ءمیں
پراجیکٹ کوآرڈی نیٹر بنا دیا‘ اس نے کمال کر دیا‘ پڑھا لکھا پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا 1122 کی طرح کامیاب ترین پراجیکٹ تھا‘ پراجیکٹ کے دوران پتہ چلا احد چیمہ ان تھک‘ یکسو اور نتیجہ حاصل کرنے والا افسر ہے‘ یہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے اور منصوبے کو وقت سے پہلے مکمل کر دیتا ہے‘ یہ اس کے بعد مختلف چینلز سے ہوتا ہوا میاں شہباز شریف تک پہنچ گیا‘ وزیراعلیٰ نے 2012ءمیں لاہور میٹرو کا منصوبہ شروع کیا‘ یہ 2013ءکے الیکشنوں سے پہلے یہ منصوبہ مکمل کرنا چاہتے تھے‘
شہباز شریف کا خیال تھا یہ کام صرف احد چیمہ کر سکتا ہے‘ اس نے یہ چیلنج قبول کر لیا‘ یہ ایل ڈی اے کا ڈی جی بنا اور 11 ماہ کی ریکارڈ مدت میں لاہور کی میٹرو مکمل کر لی‘ اس منصوبے میں 8 اعشاریہ 2 کلو میٹر کا فلائی اوور بھی شامل تھا‘ یہ 230 دن میں مکمل ہوا اور یہ ایشیا کا دوسرا بڑا فلائی اوور تھا‘ احد چیمہ کا دوسرا حیران کن کارنامہ قائداعظم تھرمل پاور کمپنی تھا‘ یہ کمپنی پنجاب حکومت نے بنائی‘ احمد چیمہ جولائی 2015ءمیں کمپنی کا سی ای او بنا اور اس نے صرف 18 ماہ میں 1200 میگاواٹ کا پاور پلانٹ بنا دیا‘
یہ پلانٹ ملک میں ہائیڈرو کے بعد سستی ترین بجلی پیدا کر رہا ہے‘ وزیراعلیٰ نے اسے تریموں میں مزید بارہ سو میگاواٹ کا منصوبہ دے دیا‘ یہ اس پر بھی کام کر رہا تھا۔یہ درست ہے احد چیمہ ایک جونیئر آفیسر ہے‘ یہ گریڈ اٹھارہ میں رہ کر 20 ویںگریڈ میں کام کرتا رہا‘ یہ انتہائی اہم پوزیشنوں پر بھی رہا اور یہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتہائی قریب بھی ہے‘ یہ اسے بیٹا بھی کہتے ہیں اور یہ اس کی گرفتاری کے بعد دو دن تک سوئے بھی نہیں‘ یہ پنجاب بلکہ وفاق کی مضبوط ترین بیورو کریسی کا اہم ترین فرد بھی ہے‘
یہ چیف سیکرٹری سے زیادہ اختیارات بھی رکھتا تھا اور یہ ایک متکبر شخص بھی تھا لیکن اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے یہ انتہائی محنتی‘ لائق اور ان تھک شخص ہے‘ آپ سول سروس میں جس سے بھی پوچھیں گے وہ احد چیمہ کے کام کی تعریف کرے گا‘ یہ ناممکن منصوبوں کو ریکارڈ مدت میں مکمل کرنے کا ماہر تھا‘ یہ پورے صوبے میں واحد افسر تھا جو مشکل منصوبوں میں ہاتھ ڈال دیتا تھا لیکن کیا یہ ایماندار بھی تھا‘ میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا‘ آشیانہ ہاﺅسنگ سکیم ہو‘
ایل ڈی اے سٹی ہو یا پھر میٹرو بس ہو پنجاب کے بے شمار لوگوں کے پاس احد چیمہ کی کرپشن کی بے شمار کہانیاں ہیں‘ لوگ اسے میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کا فرنٹ مین بھی کہتے ہیں‘ یہ اسے ایک ایسا طوطا بھی سمجھتے ہیں جس میں میاں شہباز شریف کی جان ہے اور یہ بھی شنید ہے یہ وہ واحد شخص ہے جس کے اعتراف پر میاں شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور خواجہ سعد رفیق بھی گرفتار ہو سکتے ہیں اور وہ 13 مضبوط بیورو کریٹس بھی جن کی وجہ سے میاں شہباز شریف کی پرفارمنس ”پنجاب سپیڈ“ بنی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ الزامات ثابت بھی ہو سکیں گے؟
کیا نیب کے پاس واقعی ثبوت بھی موجود ہیں یا پھر یہ ساری کارروائی بھی آخر میں سنی سنائی داستان نکلے گی؟ یہ ابھی طے ہونا باقی ہے چنانچہ ہم سردست اس سوال کو مستقبل پر چھوڑ تے ہیں اور نیب کا احد چیمہ کے ساتھ سلوک اور اس واقعے کے بعد بیورو کریسی کے مورال کی طرف آتے ہیں‘ احد چیمہ کرپٹ ہے یا نہیں یہ فیصلہ ابھی نہیں ہوا‘ نیب عدالت ہے اور نہ ہی کوئی شخص نیب کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد مجرم ثابت ہو جاتا ہے لہٰذا نیب نے 21فروری کو احد چیمہ کی گرفتاری کی جو تصویر ریلیز کی وہ کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں تھی‘
آپ سول بیورو کریسی کے کسی ایسے افسر کی لاک اپ اور رائفل بردار پولیس اہلکار کے ساتھ تصویر کیسے ریلیز کر سکتے ہیں جس کو ریاست نے تمغہ امتیاز سے بھی نواز رکھا ہو اور لوگ جس کے کام کی تعریف بھی کرتے ہوں‘ یہ اگر انصاف ہے تو پھر نیب نے اس انصاف کا مظاہرہ اس توقیر صادق کی گرفتاری پر کیوں نہیں کیا تھا جس پر 82 ارب روپے کی کرپشن کا الزام تھا یا پھر نیب نے بلوچستان کے اس سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی ایسی تصویر کیوں ریلیز نہیں کی تھی جس کے گھر سے 65کروڑ روپے برآمد ہوئے تھے‘
ان دونوں مجرموں کی عزت کیوں محفوظ رہی اور آپ نے احد چیمہ کی تصویر انکوائری اور ریفرنس سے پہلے کیوں ریلیز کر دی؟ آپ نے ایک افسر کا پورا کیریئر کیوں برباد کر دیا؟ کیا نیب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب موجود ہے؟ دوسرا احد چیمہ کی اس تصویر نے بیورو کریسی کا رہا سہا مورال بھی تباہ کر دیا‘ یہ ثابت ہو گیا آپ اگر ملک میں کچھ کریں گے تو آپ کامران لاشاری اور احد چیمہ کی طرح عبرت کی نشانی بن جائیں گے‘ بیورو کریسی کے مورال کی یہ ریخت مستقبل میں ملک کا بہت بڑا نقصان ثابت ہوگی۔
آپ قوم کی خواہشیں دیکھئے! ہمیں اس ملک میں سب کچھ چاہیے‘ ہمیں یورپ کے سٹینڈرڈ کی سڑکیں بھی چاہئیں‘ ہمیں پانی‘ بجلی اور گیس بھی چاہیے‘ ہمیں ہسپتال‘ سکول اور گراﺅنڈز بھی چاہئیں اور ہمیں امن وامان‘ انصاف اور عزت بھی چاہیے لیکن جو بیورو کریٹ اور جو سیاستدان عوام کو یہ سہولتیں دینے کی غلطی کر بیٹھے ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں‘ کیا ہم نے کبھی سوچا؟ ہمارے پاس آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دو ماڈل موجود ہیں۔ مُلک آصف علی زرداری کے وقت کہاں تھا اور یہ آج کہاں ہے؟
آصف علی زرداری نے ابتر معاشی حالات‘ بم دھماکوں اور لوڈ شیڈنگ کے باوجود پانچ سال پورے کئے جبکہ میاں نواز شریف یہ تینوں مسئلے حل کرنے کے باوجود سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں‘ کیوں؟ ہمارے پاس پنجاب‘ سندھ اور کے پی کے تینوں کی مثالیں بھی موجود ہیں‘ ہمیں بہرحال یہ ماننا ہوگا پنجاب میں دس برسوں میں بہت کام ہوا‘ آپ لاہور کو کراچی اور پشاور کے ساتھ کمپیئر کر کے دیکھ لیں‘ آپ تینوں صوبوں کے چھوٹے شہروں اور قصبوں کا تقابل بھی کر لیں‘ آپ حقائق ماننے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے‘
وہ سیاستدان اور وہ بیورو کریٹس جو دس برسوں میں کراچی کا کچرہ صاف نہیں کر سکے‘ جو پانچ برسوں میں پشاور میں جنگلہ بس نہیں بنا سکے وہ آج بھی دفتروں میں بیٹھے ہیں‘ وہ باعزت ہیں لیکن گیارہ ماہ میں لاہور میں میٹرو بنانے اور 18 ماہ میں1200میگاواٹ کا پلانٹ چالو کرنے والا احد چیمہ نیب کے لاک اپ میں بند ہے اور اس کی بیوی ملاقات کےلئے دہائیاں دے رہی ہے‘ میاں شہباز شریف بھی اب نواز شریف کی طرح اپنا جرم پوچھتا پھر رہا ہے‘ ہمیں بہرحال اپنی ان اداﺅں پر غور کرنا ہوگا کیونکہ ہم نے اگر اپنا چلن نہ بدلا‘
ہم اگر اپنی بیورو کریسی میں اسی طرح اندھا دھند بابافرید گنج شکرؒ تلاش کرتے رہے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب تمام سیاستدان پانچ سال پورے کریں گے اور سارے بیورو کریٹس کام کی بجائے عزت کے ساتھ ریٹائرمنٹ کو فوقیت دیں گے‘ یہ چالیس سال نوکری کریں گے‘ افسری کو انجوائے کریں گے‘ سرکار سے پلاٹ لیں گے‘ پنشن لیں گے اور باقی زندگی گالف کھیل کر گزار دیں گے‘ سیاستدان بھی پانچ سال پورے کر کے لندن اور دوبئی میں بیٹھ جائیں گے‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہوگا‘ ہم آخر چاہتے کیا ہیں اور ہمیں حکومت اور بیورو کریسی میں کیسے لوگ چاہئیں!۔