آئس لینڈمیں سیاحت کے دو سیزن ہیں‘ گرمیاں اور سردیاں‘ لوگ گرمیوں میں سبزے‘ ندیوں‘ نالوں‘ دریاﺅں اور آتش فشانوں کےلئے آئس لینڈ آتے ہیں اور یہ سردیوں میں ناردرن لائیٹس اور منجمد جھیلیں اور آبشاریں دیکھنے آتے ہیں‘ ناردرن لائیٹس قدرت کا عجیب معجزہ ہیں‘ شمالی اور جنوبی دونوں قطبوں پر سردیوں کی راتوں میں سبز رنگ کی طلسماتی روشنیاں نظر آتی ہیں‘ یہ روشنیاں سورج اور چاند‘ قطبوں کی برف اور فضا میں موجود ذرات
کے کمبی نیشن سے پیدا ہوتی ہیں‘ یہ لائیٹس ہزاروں سال راز رہیں‘ لوگ انہیں جادو سمجھتے رہے لیکن پھر سائنس اصل راز تک پہنچ گئی‘ یہ روشنیاں لائف ٹائم تجربہ ہیں‘ آپ انہیں ناروے ‘ سویڈن‘ فن لینڈاور آئس لینڈ سے دیکھ سکتے ہیں‘ لاکھوں لوگ ہر سال ”ناردرن لائیٹس“ دیکھنے کےلئے آئس لینڈ آتے ہیں‘ سیاحوں کےلئے دوسری کشش سیاہ ریت کے ساحل‘ برف کے درمیان سے ابلتے گرم پانی کے چشمے‘ ٹوٹتے بنتے گلیشیئر‘ برف کے غار‘ منجمد جھیلیں اور ٹھٹھرتی آبشاریں ہیں‘ آئس لینڈ کے ساحلوں پر وہیل مچھلیاں بھی ہیں‘ یہ ملک وہیل مچھلیوں کی ”زیارت“ سے ہر سال کروڑوں ڈالر کماتا ہے اور آخر میں بلیو لگون آتی ہے‘بلیولگون کیا ہے‘ یہ میں آپ کو آگے چل کر بتاﺅں گا‘ میں سردست آپ کو اپنے ہم سفروں کے بارے میں بتاتا چلوں‘ مجھے ناروے سے جہانزیب‘ پرتگال سے مخدوم عباس اور غرناطہ سے سہیل مقصود نے جوائن کیا‘ جہانزیب اور مخدوم عباس میرے پرانے جبکہ سہیل مقصود نئے دوست ہیں‘ ہم چاروں نے آئس لینڈ ڈسکور کرنے کا فیصلہ کیا اور ہم دنیا کے اس انوکھے ملک میں جا گھسے۔رک یاوک آئس لینڈ کا دارالحکومت ہے‘ یہ ایک کھلا اور دائیں بائیں پھیلا ہوا شہر ہے‘ آبادی صرف ایک لاکھ 23 ہزار ہے‘ لوگ اچھے‘ مہربان اور دھیمے ہیں‘ گاڑیاں زیادہ ہونے کے باوجود ٹریفک جام نہیں ہوتی‘ شہر کا پرانا حصہ یورپ کے بڑے شہروں سے ملتا جلتا ہے‘ آپ کو لوگ گلیوں میں چلتے پھرتے اور شاپنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ آئس لینڈ میں چھ پاکستانی خاندان ہیں‘ کل پاکستانی چالیس اور پچاس کے
درمیان ہیں‘ لاہور کا شیخ خاندان سب سے پرانا ہے‘ یہ تین بھائی اوردوبہنیں ہیں‘ بچوں کی تعداد ملا کر یہ لوگ 27 بن جاتے ہیں‘ یہ 1990ءکی دہائی میں یہاں آئے اور پھر مستقل یہاں آباد ہو گئے‘ شیخ عامرالزمان ڈاﺅن ٹاﺅن میں شالیمار کے نام سے ریستوران چلاتے ہیں‘ بڑے بھائی شیخ ناصر باریش اور تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ ہر 14 اگست کو سفید شلوار اور سبز کرتہ پہن کر گلیوں میں پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں‘ یہ ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں‘ شیخ ناصر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا ”آئس لینڈ میں سب کچھ ہے بس مسجد کی کمی ہے‘ ہم لوگ دفتر میں نماز پڑھتے ہیں‘
کاش کوئی مخیر پاکستانی یا کوئی پاکستانی ادارہ آئس لینڈ میں مسجد بنوا دے“میں نے ان سے وعدہ کر لیا میں ملک ریاض سمیت پاکستان کے تمام اہل خیر سے درخواست کروں گا‘ میری تبلیغی جماعت سے بھی اپیل ہے آپ آئس لینڈ میں مسجد بنوا دیں‘ لوگ آپ کو دعا دیں گے‘ آئس لینڈ کی کرنسی کراﺅن ہے‘ یہ مالیت میں پاکستانی روپے کے برابر ہے‘ کھانا‘ پینا‘ رہائش‘ لباس اور ریستوران مہنگے ہیں تاہم ملک میں کم سے کم تنخواہ پانچ ساڑھے پانچ لاکھ کراﺅن ہے‘ ٹیکس کاٹ کر یہ رقم تین ساڑھے تین لاکھ بن جاتی ہے‘
تعلیم‘ صحت اور گھر کا کرایہ حکومت دیتی ہے چنانچہ لوگ بہت خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں‘ ساحل اور ڈاﺅن ٹاﺅن میں سینکڑوں ریستوران ہیں‘ یہ ریستوران سیاحوں سے بھرے رہتے ہیں‘ شاپنگ مال اور دکانیں بھی ہیں‘ شہر برفباری کے دوران بھی کھلا رہتا ہے‘ آئس لینڈ کے زیادہ تر سیاحتی مقامات رک یاوک کے مضافات میں ہیں‘ ہم پہلی رات ناردرن لائیٹس دیکھنے کےلئے مضافات میں گئے‘ مطلع کلیئر تھا‘ آسمان پر چاند چمک رہا تھا‘ تاحد نظر برف ہی برف تھی‘ ہم برف کے درمیان کھڑے ہو گئے اور افق پر نظریں گاڑھ دیں‘
ناردرن لائیٹس عموماً شہر سے دور اندھیرے میں نظر آتی ہیں‘ شہر کی روشنیاں اسے ماند کر دیتی ہیں‘ سکینڈے نیویا میں ناردرن لائیٹس کی موبائل ایپلی کیشن بھی موجود ہے‘ لوگوں نے یہ ایپ موبائل فون میں ڈاﺅن لوڈ کر رکھی ہے‘ ناردرن لائیٹس کب اور کہاں نظر آئیں گی‘ یہ ایپ لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر مطلع کر دیتی ہے‘ اس دن لائیٹس نظر آنے کی پیشن گوئی تھی چنانچہ ہم برف میں کھڑے ہو گئے‘ افق پر روشنیاں آ اور جا رہی تھیں‘ اچانک جہانزیب نے اونچی آواز میں نعرہ لگایا ”وہ رہیں“ اور ہم نے ان کی انگلی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا‘ افق کے ایک کونے میں واقعی ناردرن لائیٹس موجود تھیں‘
زمین سے سبزرنگ کی روشنیاں اٹھ رہی تھیں‘ آسمان کی طرف لپک رہی تھیں اور دائیں بائیں رقص کر رہی تھیں‘ لائیٹس چند سکینڈ آسمان پر آئیں لیکن وہ ہماری زندگی کےلئے یاد گار لمحہ تھا‘ ناصر شیخ صاحب قہوے کا تھرماس ساتھ لائے تھے‘ ہم پنڈلیوں تک برف میں کھڑے تھے‘ تاحد نظر برف کی سفیدی بچھی تھی‘ دائیں طرف دسویں کا چاند چمک رہا تھا اور بالکل سامنے ناک کی سیدھ ناردرن لائیٹس رقص کر رہی تھیں‘ میرے دل سے شکر الحمد للہ اور سبحان اللہ نکلا‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا‘ قہوے کا گھونٹ بھرا اور سوچا‘ بے شک ہم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائیں گے۔
ہم اگلے دن گیزر پہنچ گئے‘ یہ جگہ بھی رک یاوک کے مضافات میں ہے‘ آئس لینڈ میں گیزر کی وہی اہمیت ہے جو پیرس میں آئفل ٹاور کو حاصل ہے‘ یہ جگہ آتش فشانی ہے‘ زمین میں مختلف سائز کے گڑھے ہیں‘ گڑھوں میں پانی بھراہے اور اس پانی سے دھواں اٹھتا رہتا ہے‘ آپ گیزر جائیں تو آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زمین کے مختلف حصوں میں آگ لگی ہے‘ آپ زمین سے نکلتے دھوئیں کے درمیان چلتے چلتے بڑے گیزر کے پاس پہنچ جاتے ہیں‘ یہ مرکزی گڑھا ہے‘ گڑھے میں پانی بھرا تھا‘ گیزر کے اندر گیسیں جمع ہوتی رہتی ہیں‘
یہ گیسیں سات منٹ بعد دھماکے سے باہر نکلتی ہیں‘ زمین سے پانی کا ساٹھ ستر فٹ اونچا فوارہ نکلتا ہے‘ ہوا میں تحلیل ہوتا ہے اور لوگ تالیاں بجاتے ہیں‘ گیزر کے اندر کتنا گہرا پانی ہے کوئی نہیں جانتا‘ شاید اندر طویل غار ہیں‘ ان غاروں سے گیسیں نکلتی ہیں‘ یہ گیزر کے دہانے پر جمع ہوتی ہیں اور پھر یہ دھماکے سے پھٹ جاتی ہیں‘یہ جگہ ہر لحاظ سے دیکھنے کے قابل ہے‘ گیزر سے 9کلو میٹر کے فاصلے پر آئس لینڈ کی آئیکونک آبشار گل فوس ہے‘ رک یاوک کی سینکڑوں ندیاں اور نالے مل کر اس آبشار کو جنم دیتے ہیں‘
یہ پانی گل فوس کے مقام پر پہنچ کر طوفانی آواز کے ساتھ کھائی میں جا گرتا ہے‘ حکومت نے آبشار دیکھنے کےلئے چھ سات ویو پوائنٹ بنا رکھے ہیں‘ سیاح رسہ پکڑ کر آبشار کے انتہائی قریب بھی جا سکتے ہیں اور بلندی پر کھڑے ہو کر اس مقام کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں جہاں سے یہ آبشار پوری طاقت سے نیچے گرتی ہے‘ میں نے اور سہیل مقصود نے ”ڈے ٹور“ لے رکھا تھا‘ ٹور کی بس ہمیں آئس لینڈ کے سب سے بڑے پرائیویٹ گرین ہاﺅس میں بھی لے گئی‘ یہ گرین ہاﺅس 1946ءمیں بنا‘ موجودہ مالک ایک میاں بیوی کنوتش اور ہیلینا ہیں‘
یہ 1995ءسے گرین ہاﺅس چلا رہے ہیں‘ یہ لوگ یہاں ٹماٹر اگاتے ہیں‘ گرین ہاﺅس کاشتکاری کا جدید ترین طریقہ ہے‘ ایک دو ایکڑ پر گلاس ہاﺅس بنایا جاتا ہے‘ ٹبوں اور ٹرے میں مٹی ڈال کر پودے لگائے جاتے ہیں‘ بیلیں نکلتی ہیں‘ پھل لگتا ہے اور پھل اتار لیا جاتا ہے‘ گرین ہاﺅس کا درجہ حرارت 28 سینٹی گریڈ تھا جبکہ باہر برف پڑ رہی تھی‘ گرین ہاﺅس سے ہر سال 370ٹن ٹماٹر حاصل کئے جاتے ہیں‘ حکومت گرین ہاﺅس کے اندر کیلا اگانے کا تجربہ بھی کر رہی ہے‘ یہ لوگ کیلے کے ڈیڑھ سو درخت اگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘
میں درجنوں گرین ہاﺅس دیکھ چکا ہوں لیکن برستی برف کے درمیان ٹماٹروں کا گرین ہاﺅس یہ اس نوعیت کا میرا پہلا تجربہ تھا‘ہماری ٹوریسٹ بس کا گائیڈ فریڈرک بیرکون تھا‘ یہ امریکی ایمبیسی میں کام کر چکا تھا‘ 1986ءمیں رک یاوک میں امریکی صدر رونلڈ ریگن اور سوویت یونین کے صدر گوربا چوف(یہ اس وقت یہ صدر نہیں تھے‘ یہ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے) کے درمیان تاریخی ملاقات ہوئی ‘ فریڈرک اس ملاقات میں ترجمان کی حیثیت سے موجود تھا‘
اس نے مجھے ان تاریخی لمحات کی تصویریں دکھائیں‘ اس کا کہنا تھا گوربا چوف نے 1986ءمیں امریکی صدر کو پیش کش کر دی تھی ہم دو گھنٹے میں دیوار برلن گرانے کےلئے تیار ہیں‘ ریگن نے برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچرسے بات کی لیکن برطانیہ تیار نہ ہوا‘ برطانیہ دیوار برلن قائم رکھنا چاہتا تھا‘ میں نے وجہ پوچھی‘ اس نے جواب دیا‘ برطانیہ کا خیال تھا جرمنی اکٹھا ہو کر برطانیہ کےلئے معاشی اور دفاعی نقصان کا باعث بنے گا چنانچہ برطانیہ کی ضد کی وجہ سے دیوار برلن 1986ءکے بجائے 1989ءمیں گری۔
ہم نے اگلے دن گرونڈا فی آرورجانا تھا‘ یہ رک یاوک سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا‘ یہ چھوٹا سا قصبہ ہے‘ کل آبادی آٹھ سو لوگوں پر مشتمل ہے لیکن یہ لوگ بھی سردیوں میں سکڑ کر تین چار سو رہ جاتے ہیں‘ یہ شہر مچھلی کے کارخانے‘ سمندری لہروں سے تراشے ہوئے پہاڑوں اور دو آبشاروں کی وجہ سے پورے آئس لینڈ میں مشہور ہے‘ یہ شہرفیوڈ پر بنا ہوا ہے‘ فیوڈ سمندر کے اندر سے نکلنے والے خشکی کے ٹکڑوں کو کہتے ہیں‘ یہ عموماً تین اطراف سے سمندر میں گھرے ہوتے ہیں‘ صرف ایک چھوٹی سی نوک خشکی سے جڑی ہوتی ہے‘ ہم اگلی صبح گرونڈاکےلئے روانہ ہو گئے۔