میرے ایک بزرگ دوست فائیو سٹار ہسپتال کے مالک ہیں‘ ہسپتال میں تمام جدید سہولتیں‘ ڈاکٹرز اور نرسیں موجود ہیں لیکن یہ جب بھی بیمار ہوتے ہیں یہ اپنا علاج سرکاری ڈاکٹر سے کراتے ہیں یا پھر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں‘ یہ ادویات بھی باہر سے منگواتے ہیں‘ یہ اپنے لئے ٹوتھ پیسٹ‘ صابن‘ شیمپو‘ ادویات اور ناشتے کا سامان بھی باہر سے لاتے ہیں‘ یہ ریستورانوں میں کھانا بھی نہیں کھاتے‘ میں نے ان سے جب بھی وجہ پوچھی‘ یہ مسکرا کر
بولے‘ آپ بھی کوشش کریں آپ کسی ڈاکٹر کے ہتھے نہ چڑھیں‘ آپ ملک کے کسی پرائیویٹ کلینک یا ہسپتال چلے جائیں یہ آپ کا نام‘ پتہ اور فون نمبر لے لیںگے‘ آپ کو ایک ریفرنس نمبر الاٹ کریں گے اور آپ کو اپنا مستقل ممبر بنا لیں گے‘ کیوں؟ آپ نے کبھی وجہ جاننے کی کوشش کی‘وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ وہ بولے آپ یہ بھی چھوڑ دیجئے‘ آپ نے کبھی سوچا آپ جب ایک بار کسی کلینک‘ ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہیں تو آپ پھر بار بار اس کے پاس جاتے ہیں‘ کیوں؟ وجہ صاف ظاہر ہے‘ یہ ڈاکٹرمسیحا اور ہسپتال شفاءخانے نہیں ہیں‘ یہ دکاندار اور شاپنگ سنٹر ہیں‘ آپ ایک بار ان کے پاس چلے جائیں تو پھر آپ مسلسل آتے جاتے رہتے ہیں مثلاً آپ کے دانت میں درد ہوا‘ آپ ڈینٹیسٹ کے پاس چلے جائیں‘علاج کے چند دن بعد آپ کی داڑھوں اور مسوڑھوں میں بھی درد شروع ہو جائے گا‘ آپ ان کا علاج کرائیں گے آپ کے منہ سے بو آنا شروع ہو جائے گی‘ آپ ماﺅتھ واش اور ٹوتھ پیسٹ بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ پیسٹ اور یہ ماﺅتھ واش آپ کا گلا اور معدہ خراب کر دیں گے اور آپ معدے اور گلے کےلئے ہسپتال جائیں گے ‘ آپ کو بلڈ پریشر اور دل کا مسئلہ ہو جائے گا یوں آپ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے چکر لگاتے چلے جائیں گے‘ وہ رکے اور بولے‘ میں ہمیشہ اپنے دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں آپ ڈاکٹر کے پاس صرف ایمرجنسی میں جائیں‘ آپ چھوٹی موٹی تکلیف میں آرام کریں‘
واک کریں‘ کھانا کم کھائیں اور کسی حکیم سے کوئی ایک آدھ جڑی بوٹی لے لیں مگر کسی ڈاکٹر کے پاس نہ جائیں اور اگر مجبوری ہو تو کسی نوجوان ڈاکٹر کے ہتھے نہ چڑھیں اور اگر یہ بھی ناممکن ہو تو آپ اس سے یہ ضرور پوچھ لیں ڈاکٹر صاحب! آپ نے ایم بی بی ایس کہاں سے کیا تھا اور اگر وہ ڈاکٹر کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج کا ڈگری ہولڈر نکل آئے تو آپ فوراً اٹھ کر بھاگ جائیں کیونکہ اگر ڈاکٹر نے علاج شروع کر دیا تو آپ اٹھنے کے قابل رہیں گے اور نہ ہی بھاگنے کے‘ وہ خاموش ہوئے اور پھر دکھی آواز میں کہا‘ ڈاکٹر عاصم حسین کراچی کے ایک بڑے ہسپتال کے مالک ہیں لیکن یہ کمر درد کے علاج کےلئے بھی لندن جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ جانتے ہیں یہ میڈیکل کے شعبے کے ساتھ کیا کیا کرتے رہے ہیں اور یہ ملک اب طبی لحاظ سے دنیا کا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے چنانچہ یہ بھی ملک میں علاج کا رسک نہیں لیتے۔
میرا خیال ہے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو بھی اس خطرناک صورتحال کا اندازہ ہو چکا ہے لہٰذا یہ ٹھیک وقت پر ٹھیک میدان میں کودے ہیں ‘ یہ اگر پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا ڈھکن بند کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ملک کے بہت بڑے محسن ثابت ہوں گے‘ پرائیوٹ میڈیکل کالجز نے ملک میں کیا کیا اور یہ کیا کر رہے ہیں‘ آپ حقائق ملاحظہ کیجئے اور کانوں کو ہاتھ لگائیے‘ پاکستان میں 2008ءتک 61 برسوں میں صرف 26 میڈیکل کالجز بنے‘ ڈاکٹر عاصم حسین 2009ءمیں پی ایم ڈی سی کے وائس پریذیڈنٹ بنے اور انہوں نے تین برسوں میں 97 پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی اجازت دے دی‘
پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو ملک میں26 کی جگہ 123 میڈیکل کالجز تھے‘ یہ کالجز قواعدو ضوابط‘ اساتذہ اور ہسپتالوں کے بغیر بنے‘ مالکان نے منظوری کےلئے 5 کروڑ سے 20 کروڑ روپے تک رشوت دی‘ ڈاکٹر عاصم نے ایک ایک دن میں چھ چھ میڈیکل کالجز کی منظوری دی‘ آپ کمال دیکھئے تین کالجز کی فیکلٹی ایک تھی‘ یہ فیکلٹی پہلے ایک کالج کی عمارت میں تھی‘ انسپکشن ٹیم دوسرے کالج کی پڑتال کےلئے پہنچی تو یہ فیکلٹی وہاں بھی موجود تھی اور یہ لوگ جب تیسرے کالج پہنچے تو یہ پروفیسر وہاں بھی موجود تھے اور ٹیم نے تینوں کالجوں کی منظوری دے دی‘
ڈاکٹر عاصم کی اس مہربانی کے پانچ خوفناک نتائج نکلے‘ملک میں میڈیکل کی تعلیم کاروبار بن گئی‘ ہم نے کبھی سوچا امریکا‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور گلف ہر سال پاکستان سے سینکڑوں ڈاکٹر کیوں امپورٹ کرتا ہے؟ یہ لوگ اپنے ملکوں میں سو دو سو میڈیکل کالجز بنائیں اور اپنی ضرورت پوری کر لیں‘ یہ نئے میڈیکل کالج بنانے کی بجائے پاکستان سے ڈاکٹر کیوں منگواتے ہیں؟ کیونکہ میڈیکل ایک حساس شعبہ ہے‘ آپ کو اس کےلئے اعلیٰ دماغ بھی چاہیے ہوتے ہیں‘ بڑی لائبریریاں‘ لیبارٹریاں‘ بڑے ہسپتال اور سینئر فیکلٹی بھی‘
یہ تمام چیزیں اکٹھی کرنا مشکل ہوتا ہے چنانچہ یورپ‘ امریکا اور آسٹریلیا پانچ سو سال کی طبی تاریخ کے باوجود آج تک اپنی ضرورت کے مطابق میڈیکل کالجز نہیں بنا سکے‘ یہ آج بھی ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی کا شکار ہیں جبکہ ڈاکٹر عاصم نے تین سال میں ملک کو سو نئے میڈیکل کالجز دے کر پوری دنیا کے چھکے چھڑا دیئے‘ دوسرا‘پی ایم ڈی سی(پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل) ملک کا مقدس ترین ادارہ تھا‘ یہ ڈاکٹروں‘ میڈیکل کالجز اور ہسپتالوں کا قبلہ تھا‘ نئے میڈیکل کالجز کی وجہ سے کونسل میں پرائیویٹ ممبرز کی تعداد بڑھ گئی اور حکومتی ارکان کم ہو گئے چنانچہ اس قبلے پر مفاد پرست درندوں کا قبضہ ہو گیا ‘
ریاست اور حکومت کا اس پر ہولڈ ختم ہوگیااور یہ درندے من مانی کرنے لگے‘ سوم‘ پرائیویٹ میڈیکل کالجز شروع میں طالب علموں سے 9 لاکھ روپے سالانہ وصول کرنے لگے‘ بعد ازاںکالجوں میں تارکین وطن کی نشستیں پیدا کی گئیں اور ان کےلئے سالانہ 18 ہزار ڈالر فیس طے کر دی گئی اور پھر کالجوں نے مالک‘ پرنسپل اور بورڈ آف گورنرز کو سیٹیں الاٹ کر دیں اور یہ لوگ ڈونیشن کے نام پر یہ سیٹیں 20 سے 50 لاکھ روپے میں فروخت کرنے لگے یوں طب جیسا شعبہ ٹھیکیداری بن کر رہ گیااور ایف ایس سی میں سیکنڈ کلاس طالب علم بھی ڈاکٹر بننے لگے اور چہارم‘ یہ درندے انٹری ٹیسٹ کے سسٹم میں بھی گھس گئے‘
یہ لوگ اپنے طالب علموں کو انٹری ٹیسٹ میں پاس کرواتے ‘ انہیں اپنے کالجوں میں داخلہ دلواتے اور انہیں پانچ سال بعد ڈاکٹر کی ڈگری دے کر روانہ کر دیتے‘ چیف جسٹس پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے پرانے رزلٹ منگوا کر دیکھ لیں‘ یہ حیران رہ جائیں گے پاکستان کے قدیم ترین میڈیکل کالجز کے نتائج اسی سے نوے فیصد ہوتے ہیں جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز سو فیصد رزلٹ دے رہے ہیں گویا جس نوجوان نے بھی پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو بیس تیس لاکھ روپے دے دیئے اسے ڈاکٹر کی ڈگری ضرور ملے گی
اور پانچ‘ آپ کالجز کی عمارتیں‘ سہولتیں اور فیکلٹی چیک کر لیں‘ آپ کو اکثر کالج گھروں اور پلازوں میں ملیں گے‘ فیکلٹی ریٹائرڈ ڈاکٹروں اور پروفیسروں پر مشتمل ہوگی اور یہ لوگ بھی اکثر کالج تشریف نہیں لاتے‘ میڈیکل کالج کےلئے مکمل اور بڑا ہسپتال ضروری ہوتا ہے لیکن آدھے سے زائد پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے پاس ہسپتال کی سہولت موجود نہیں اور باقی آدھے کالجز کے ہسپتالوں پر تالے پڑے ہیں‘ سٹاف نہیں ہے یا پھر تمام ڈیپارٹمنٹس موجود نہیں ہیں چنانچہ طالب علموں کے ہاتھ میں میڈیکل کی فرسٹ کلاس ڈگری موجود ہے لیکن علم اور تجربہ نہیں ‘
ڈاکٹروں کےلئے ہاﺅس جاب ضروری ہوتی ہے لیکن یہ میڈیکل کالجز اس سہولت سے بھی فارغ ہیں‘ یہ لوڈ بھی سرکاری ہسپتالوں پر شفٹ ہو رہا ہے‘ طالب علموں کا تعلق بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے لہٰذا یہ سفارشیں کرا کر خود کو سرکاری ہسپتالوں میں ایڈجسٹ کرا لیتے ہیں‘ مجھے ایک بار سروسز ہسپتال لاہور جانے کا اتفاق ہوا‘ بچوں کے وارڈ میں 60 بیڈ تھے اور وہاں 60 ہی ہاﺅس جاب ڈاکٹر تھے گویا ایک بیڈ پر ایک ڈاکٹر تجربہ حاصل کر رہا تھا چنانچہ آپ اندازہ کیجئے یہ ڈاکٹر ہاﺅس جاب کے بعد مریض بچوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہوں گے۔
چیف جسٹس پرائیویٹ میڈیکل کالجز پر ہاتھ ڈال کر پوری قوم کی دعائیں لے رہے ہیں‘ میری چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ گورنمنٹ کے میڈیکل کالجز کے پرنسپلز اور ملک کے دس بڑے ہسپتالوں کے ”ایم ایس“ پر مشتمل بورڈ بنادیں‘ یہ بورڈ تمام پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا دورہ کرے‘ جس کالج میں سہولتیں موجود نہ ہوں اسے فوری طور پر سِیل کر دے اور طالب علموں کو فیسیں واپس کرا دے‘ یہ بورڈ تمام پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے ڈگری ہولڈرز کا ٹیسٹ اور انٹرویو لے‘ جو ڈاکٹر معیار پر پورا نہ اترے اس کی ڈگری منسوخ کر کے اس کی تصویر اخبار میں شائع کرادے‘
پی ایم ڈی سی میں سرکاری میڈیکل کالجز کی نمائندگی ستر اور پرائیویٹ کالجز کی تیس فیصد کر دی جائے ‘ عدالت ڈاکٹر عاصم حسین سمیت پی ایم ڈی سی کے ان تمام ارکان جنہوں نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی اجازت دی تھی انہیں پابند کر دے یہ اپنا علاج پاکستان اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے ڈاکٹروں سے کرائیں گے تاکہ یہ لوگ اپنا کیا ہوا بھگت سکیں اور سپریم کورٹ ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی تشکیل پر پابندی لگا دے‘ میڈیکل کالج صرف اور صرف حکومت بنا سکے اور اس کےلئے بھی امریکی‘ برطانوی اور آسٹریلین ضابطہ اخلاق کی پابندی کی جائے‘ ملک میں کسی قصائی کو ڈاکٹر کہلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ خدا کی پناہ ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیںاور ہم کس ملک کو ملک کہہ رہے ہیں۔