یہ تجربہ 1938ء میں شروع ہوا‘ دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی ہارورڈ نے ”ہارورڈ سٹڈی آف اڈلٹ ڈویلپمنٹ“ کے نام سے ایک یونٹ بنایا اور اس یونٹ نے ”خوش گوار اور صحت مند زندگی“ کے تین اصولوں کی تلاش شروع کر دی‘ یونٹ نے تحقیق کیلئے 724 لوگوں کا انتخاب کیا اور ان لوگوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا‘ گروپ اے ہارورڈ یونیورسٹی کے خوشحال طالب علم تھے‘ یہ لوگ دوسری جنگ عظیم کے درمیان یونیورسٹی میں داخل
ہوئے‘ یہ جنگ میں شریک ہوئے‘ یورپ کے محاذوں پر لڑائی کی‘ زندہ سلامت امریکا واپس آئے‘ دوبارہ یونیورسٹی میں داخل ہوئے‘ تعلیم مکمل کی اور عملی زندگی میں داخل ہو گئے‘ گروپ بی کا تعلق بوسٹن شہر کے غریب ترین علاقے سے تھا‘ یہ لوگ 1930ء کی دہائی میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے‘ ان کے پاس اپنے گھر تھے‘ بجلی تھی‘ گیس تھی‘ مناسب خوراک تھی اور نہ ہی کپڑے لتے‘ یہ لوگ انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے ”ہارورڈ سٹڈی آف اڈلٹ ڈویلپمنٹ“ نے ان 724 لوگوں کی زندگی کو ٹریک کرنا شروع کر دیا‘ یونٹ کے محققین ہر سال ان لوگوں کے پاس جاتے‘ ان سے سوالات پوچھتے اور ان کے جواب لکھ لیتے‘ گروپ اے اور گروپ بی دونوں کے 724 لوگ ان کے سامنے جوان ہوئے‘ عملی زندگی میں قدم رکھا‘ شادیاں کیں‘ بچے پیدا کئے‘ یہ بیمار ہوئے‘ صحت مند ہوئے‘ یہ نقل مکانی کرتے رہے‘ یہ ایک ملازمت سے دوسری ملازمت اور دوسری ملازمت سے تیسری ملازمت پر چھلانگ لگاتے رہے‘ یہ لوگ زندگی کی ساری سہولتیں حاصل کرتے رہے‘ یہ ساری سہولتیں بعد ازاں ان کے ہاتھ سے نکلتی رہیں‘ یہ مذہب اور نظریات بھی بدلتے رہے‘ ان کے شوق بھی تبدیل ہوتے رہے‘ یہ گرل اور بوائے فرینڈز بھی تبدیل کرتے رہے‘ یہ اپنی بیوی‘ اپنے خاوند سے الگ بھی ہوئے‘ یہ ”ری یونین“ بھی کرتے رہے‘ یہ تنہائی کا شکار بھی ہوئے‘ یہ مختلف قسم کے کلب بھی جوائن کرتے
اور چھوڑتے رہے‘ یہ لوگوں کے ساتھ الجھتے اور لڑتے بھی رہے‘ یہ مخالفین سے صلح بھی کرتے رہے‘ یہ دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست بھی بناتے رہے‘ یہ گھر‘ شہر اور ریاستیں بھی تبدیل کرتے رہے اور خوراک‘ لباس اور سپورٹس میں بھی ان کی ترجیحات بدلتی رہیں‘ گروپ اے اعلیٰ پڑھے لکھے اور خوش حال طبقے سے تعلق رکھتا تھا‘ اس گروپ کے بے شمار لوگوں نے ترقی کی‘ یہ بزنس مین بھی بنے‘ کامیاب سی ای او بھی ہوئے‘ ان میں سے درجنوں لوگ سپورٹس‘ فلم‘ ادب‘ آرٹ اور تعلیم کے شعبوں میں بھی نامور ہوئے‘
ان میں بے شمار لوگ خوش حالی‘ اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ حسب نسب کے باوجود زندگی میں پیچھے رہ گئے‘ چند ایک نے خودکشی بھی کر لی جبکہ گروپ بی کے لوگ غریب‘ پسماندہ‘ جاہل اور بے ہنر تھے‘ ان میں سے بے شمار لوگ زندگی میں بہت آگے گئے‘ ان میں سے ڈاکٹر بھی بنے‘ انجینئر بھی‘ اداکار بھی‘ کھلاڑی بھی‘ بزنس مین بھی اور زمیندار بھی جبکہ اس گروپ میں بے شمار ایسے لوگ بھی شامل تھے جو نشے کی لت میں مبتلا ہو گئے‘ جو جرائم کی دنیا میں چلے گئے‘
جو فراڈ کرتے کرتے جیلوں میں پہنچ گئے اور جو گینگ وار میں مارے گئے‘ یہ لوگ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی رہائش گاہیں‘ شہر اور ملک بدلتے رہے‘ انہوں نے بھی شادیاں کیں‘ بچے پیدا کئے‘ یہ بھی علیحدگی اختیار کرتے رہے‘ یہ بھی اپنا لائف پارٹنر بدلتے رہے اور یہ بھی اپنے پیشے‘ مصروفیات اور شوق تبدیل کرتے رہے‘ سٹڈی گروپ ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا‘ یہ انہیں مانیٹر کرتا رہا‘ یہ مانیٹرنگ مسلسل 75 سال جاری رہی‘ ان 75 برسوں میں سٹڈی گروپ کے تین ڈائریکٹر انتقال کر گئے‘
گروپ کی فنڈنگ بند ہوتی اور جاری ہوتی رہی‘ محقق تبدیل ہوتے رہے اور ڈیٹا جمع کرنے کا میڈیم بھی بدلتا رہا لیکن تحقیق جاری رہی‘ ان 75 برسوں میں گروپ اے اور گروپ بی کے 664 لوگ انتقال کر گئے‘ صرف 60 باقی بچے ہیں‘ یہ 60 لوگ 90 سال کی دہائی میں قدم رکھ چکے ہیں‘گروپ نے ریسرچ میں 724 لوگوں کے دو ہزار بچے بھی شامل کر دیئے‘ محققین ان سے بھی سوالات کرتے رہتے ہیں‘ ان 75 برسوں میں محققین کے پاس لاکھوں کاغذات کا انبار لگ گیا‘
اس انبار میں ان 724 افراد کی میڈیکل رپورٹس بھی شامل تھیں اور ان کا نفسیاتی اور سماجی ڈیٹا بھی اور اس میں پولیس اور عدالتوں کا ریکارڈ بھی موجود تھا‘ یہ اس لحاظ سے دنیا کی طویل ترین تحقیق تھی‘ سٹڈی گروپ کے موجودہ ڈائریکٹر رابرٹ ویلڈنگر ہیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے سائیکائی ٹریسٹ ہیں اور ہارورڈ میڈیکل سکول میں پروفیسر ہیں‘ پروفیسر رابرٹ ویلڈنگر نے 2015ء میں اس طویل ترین تحقیق کے تین بنیادی نتائج دنیا کے سامنے رکھے‘ یہ نتائج اس تحقیق کا نچوڑ ہیں۔
پروفیسر رابرٹ ویلڈنگر کا کہنا تھا‘ ہم نے 75 سال کے تجربے سے اندازہ لگایا آپ اگر صحت مند اور خوش گوار زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ لوگوں سے رابطے میں رہیں‘ہمارے سٹڈی گروپ کے 724 افراد میں سے ہر وہ شخص بیمار بھی رہا اور وہ دنیا سے جلد رخصت بھی ہوگیا جو لوگوں‘ عزیزوں‘ رشتے داروں‘ خاندان اور سماج سے کٹ گیا تھا‘ جو تنہائی پسند ہو گیا تھا‘ جو لوگوں سے بیزار ہو گیا تھا اور جو لوگوں سے میل ملاقات سے پرہیز کرتا تھا‘ رابرٹ ویلڈنگر کے مطابق تنہائی پسند لوگ جلد بوڑھے ہو گئے تھے‘
وہ موذی امراض کا شکار بھی ہوئے‘ ان کی یادداشت‘ بینائی اور سماعت بھی کمزور ہوئی اور یہ مالی بحرانوں میں بھی مبتلا ہوئے جبکہ لوگوں سے رابطے میں رہنے والے کردار‘ فیملی کو وقت دینے والے لوگ‘ نوجوانوں میں بیٹھنے والے حضرات اور آخری وقت تک حلقہ احباب میں رہنے والے کردار جوان بھی رہے‘ صحت مند بھی اور ایکٹو بھی اور یہ تمام لوگ 80 سے 90سال تک زندہ رہے جبکہ تنہائی پسند لوگ بمشکل 60 سال تک پہنچ سکے‘ رابرٹ ویلڈنگر نے دعویٰ کیا صحت مند اور خوش گوار زندگی کا دوسرا اصول ”پسندیدہ پارٹنر ہے“
ہارورڈ سٹڈی گروپ کی طویل ترین ریسرچ نے ثابت کیا وہ لوگ جنہوں نے پسندیدہ لائف پارٹنر اور پسندیدہ دوستوں کا انتخاب کیا اور جو اپنے پسندیدہ پیشے اور پسندیدہ دفاتر میں کام کرتے رہے وہ صحت مند اور خوش گوار زندگی گزارتے رہے جبکہ جن کا لائف پارٹنر‘ دوست اور دفاتر پسندیدہ نہیں تھے وہ بیمار بھی رہے اور وہ دنیا سے جلد رخصت بھی ہو گئے‘ رابرٹ ویلڈنگر کا کہنا تھا ہم نے 724 افراد میں سے ان تمام لوگوں کا گہرائی سے جائزہ لیا جن کی عمریں 80 سال ہو ئیں اور وہ اس عمر میں بھی متحرک اور صحت مند تھے‘
ہمیں پتہ چلا یہ وہ تمام لوگ ہیں جو 50 سال کی عمر تک اپنے لئے پسندیدہ لائف پارٹنر‘ مزاج کے مطابق دوست اور مرضی کا شعبہ تلاش کر چکے تھے جبکہ وہ تمام لوگ جو 80 سال کی عمر تک نہیں پہنچ سکے وہ اکثر شکایت کرتے تھے ہم جب بیمار ہوتے تھے تو ہم بیماری کے ساتھ ساتھ تنہائی اور چڑچڑے پن کا شکار بھی ہو جاتے تھے‘ ہمیں محسوس ہوتا تھا ہمارا آفس‘ ہمارے دوست اور ہمارا لائف پارٹنر ہماری کیئر نہیں کر رہا‘ہمارے لئے یہ احساس بیماری سے زیادہ خطرناک ہوتا تھا چنانچہ ہم کمزور اور بیزار ہوتے چلے گئے‘
یہ لوگ بھی بمشکل 60 سال سے اوپر جا سکے جبکہ ان کے برعکس دوسرے گروپ کا کہنا تھا ہم جب بھی بیمار ہوئے یا ہم جب بھی مسائل کا شکار ہوئے‘ہمارے خاوند‘ ہماری بیوی‘ ہمارے دوستوں اور ہمارے دفتر نے ہمیں جلد اس بحران سے نکال لیا‘ ہم چند دنوں میں دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے‘ ہمیں زندگی اور توانائی دونوں دوبارہ مل گئیں‘ یہ لوگ کہتے ہیں دنیا میں کوالٹی آف ریلیشن سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی۔رابرٹ ویلڈنگر نے دعویٰ کیا ہمارے 724 کرداروں میں سے ہر اس شخص نے زیادہ لمبی اور صحت مند زندگی گزاری جو اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتا تھا‘تحفظ کا احساس ہماری سٹڈی کا تیسرا نتیجہ ہے‘
عدم تحفظ انسان کو بوڑھا بھی بناتا ہے‘ کمزور بھی اور بیمار بھی‘ وہ شخص جس نے زندگی میں محفوظ سرمایہ کاری کی‘ جس کا لائف پارٹنر اس کے ساتھ وفادار تھا‘ جس کے دوست اس کے ساتھ مخلص تھے‘ جس کا شہر‘ جس کا ملک شورشوں سے محفوظ تھا‘ جس کے پاس مضبوط انشورنس پالیسی تھی اور جس نے گاڑیاں اور گھر مضبوط خریدے تھے وہ صحت مند بھی رہا‘ اس نے خوش گوار زندگی بھی گزاری اور اس کی عمر بھی لمبی ہوئی جبکہ عدم تحفظ کے شکار لوگ دنیا سے جلد رخصت ہو گئے‘
پروفیسر رابرٹ کا کہنا تھا وہ لوگ جن کی سرمایہ کاری ڈوب گئی‘ جنہیں اپنے لائف پارٹنر کی وفاداری پر شک تھا‘ جن کی کمپنیاں‘ جن کے کاروبار سیٹل نہیں تھے‘ جنہیں اپنی چھت اور اپنی گاڑی پر یقین نہیں تھا اور جن کے دائیں بائیں ہنگامے‘ شورشیں‘ فسادات اور لڑائی جھگڑے چلتے رہتے تھے‘ وہ دنیا سے جلد چلے گئے‘ پروفیسر رابرٹ کا کہنا تھا 724 کرداروں میں 60 اب تک حیات ہیں‘ یہ 90 سے 100 سال کے درمیان ہیں‘ ان 60 لوگوں میں یہ تینوں خوبیاں ہیں‘
اول‘ یہ آج بھی معاشرے سے رابطے میں رہتے ہیں‘ یہ تنہائی کے بجائے لوگوں میں رہنا پسند کرتے ہیں‘ دوم‘ یہ پسندیدہ لائف پارٹنر‘ پسندیدہ دوستوں‘ پسندیدہ پیشے‘پسندیدہ شہروں اور پسندیدہ کلچر میں رہتے ہیں اور سوم‘ یہ اپنے آپ اور اپنے تعلقات کو سیکیور محسوس کرتے ہیں‘ یہ تحفظ کے احساس سے لبالب ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں دولت کی سیکورٹی ہو‘ رشتوں‘ دوستیوں‘ مذہب‘ ثقافت یا ملک کی سیکورٹی ہو‘ ان کی زندگی ہر سمت سے محفوظ ہے چنانچہ یہ 90 سال بعد بھی صحت مند اور خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ آج بھی اپنے قدموں پر کھڑے ہیں اور یہ اپنے اصلی دانتوں سے کھا رہے ہیں جبکہ ان تینوں نعمتوں سے محروم 660 لوگ قبروں میں پڑے ہیں‘ ان کی ہڈیاں تک گل چکی ہیں۔