میں دوسری بار ملا تو وہ مکمل صحت مند تھے‘ شوگر کنٹرول تھی‘ بلڈ پریشر نارمل تھا‘ دل کی دھڑکنیں اعتدال میں تھیں‘ کولیسٹرول قابو میں تھا‘ آنکھیں صحیح تھیں اور گردے بھی ٹھیک کام کر رہے تھے‘ وہ دوڑ کر سیڑھیاں چڑھ رہے تھے اور گرم جوشی سے ہاتھ رگڑ رگڑ کر باتیں کر رہے تھے‘ میں حیران رہ گیا‘میں حیران کیوں نہ ہوتا‘ میں چھ ماہ پہلے ملا تھا تو وہ امراض کی چلتی پھرتی ڈکشنری تھے‘ وہ پاؤں کی انگلی
سے سر کے بالوں تک بیمار تھے‘ عمر پچاس سال تھی لیکن وہ لگتے 90 سال کے تھے‘ مزاج میں بھی چڑچڑا پن تھا اور طبیعت میں بھی تلون تھا‘ سانسیں بھی اکھڑی اکھڑی تھیں‘ دھڑکنیں بھی بے قابوتھیں‘ وزن بھی زیادہ تھا‘ دماغ میں آندھیاں بھی چلتی تھیں اور وہ چلتے ہوئے لڑکھڑاتے بھی تھے‘ وہ علاج کیلئے لندن جا رہے تھے‘ ان کا خیال تھا وہ شایدزندہ واپس نہ آئیں چنانچہ وہ اپنے تمام دوستوں‘ رشتے داروں اور عزیزوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے‘ میں دیر تک ان کے ساتھ بیٹھا رہا‘ وہ اس دوران اداس لہجے میں مجھ سے معافیاں مانگتے رہے اور میں انہیں تسلیاں دیتا رہا‘ وہ لندن چلے گئے اور میں اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا‘ مجھے چھ ماہ بعد ان کا فون آیا تو میں ان کی کھنکتی آواز سن کر حیران ہو گیا‘ میں اگلے دن ملاقات کیلئے گیا تو میں انہیں صحت مند دیکھ کر مزید حیران ہو گیا‘ وہ اپنی عمر سے 20 سال چھوٹے لگ رہے تھے‘ وہ جوانوں کی طرح متحرک بھی تھے‘ میں نے ان سے اس کایاکلپ کا راز پوچھا‘ وہ اپنی کرسی سے اٹھے‘ اندر گئے اور اندر سے ایک فریم اٹھا لائے‘ یہ ایک تصویر تھی‘ تصویر میں یہ کھڑے تھے اور ان کے ساتھ سفید کوٹ میں ایک ڈاکٹر کھڑا تھا‘ وہ مسکرائے‘ ڈاکٹر کی تصویر پر انگلی رکھی اور جوشیلے انداز میں کہا ”یہ ساری جادوگری اس شخص کی ہے‘ اس نے مجھے ایک ماہ میں جوان کر دیا“ میں نے پوچھا ”سر کیسے؟“ وہ کرسی پر بیٹھ گئے اور بولے ”یہ سرجن ہے‘
اس نے مجھ سے ایک بانڈ پر دستخط کرائے‘یہ مجھے آپریشن تھیٹر میں لے کر گیا اور اس نے میرا آدھا معدہ کاٹ دیا“ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ”مجھے ہوش آیا تو میں بہت ناراض ہوا لیکن ڈاکٹر نے بتایا‘ دنیا کی ساری بیماریوں کا مرکزمعدہ ہے‘ ہمارا معدہ جتنا ایکٹو ہو گا ہم اتنے ہی بیمار ہوں گے‘ ہم موت کے اتنے ہی قریب ہوں گے“ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ”ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا آپ کی شوگر کنٹرول کیوں نہیں ہوتی‘ میں نے جواب دیا‘ شاید میں کھانے میں احتیاط نہیں کرتا‘
وہ جوش سے بولا‘ ہاں سو فیصد‘ ہم ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں تو ہمارے جسم میں ضرورت سے زیادہ شوگر بن جاتی ہے‘ یہ شوگر ہمارا سارا نظام تباہ کر دیتی ہے‘ ڈاکٹر نے پھر پوچھا‘آپ کاکولیسٹرول‘ آپ کا بلڈ پریشر اور آپ کا یورک ایسڈ کیوں بڑھتا تھا‘ میں نے جواب دیا‘ ظاہر ہے کھانے کی وجہ سے‘ ڈاکٹر نے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور بولا یس‘ میں آپ کو یہی بتانا چاہتا ہوں‘ آپ زیادہ کھائیں گے تو آپ زیادہ بیمار ہوں گے‘ آپ کم کھائیں گے تو آپ کم بیمار ہوں گے‘
میں نے آپ کا معدہ آدھا کر دیا ہے‘ آپ کی خوراک اب آدھی رہ جائے گی جس کے بعد آپ کی بیماریاں بھی آدھی ہو جائیں گی“۔میں خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا‘ انہوں نے فریم میز پر رکھا اور بولے‘ میں نے ڈاکٹر سے کہا‘میں اپنی بیماریاں آدھی نہیں کرنا چاہتا‘ میں مکمل صحت مند ہونا چاہتا ہوں‘ آپ مجھے مکمل صحت کا راز بتائیں‘ ڈاکٹر نے قہقہہ لگایا اور بولا‘ہماری آدھی بیماریاں کھانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور آدھی ٹینشن اور سستی کی بدولت‘ ہم اگر صحت کو 100 نمبر دیں تو 50 نمبر معدے کے ہوں گے اور 25 ذہنی سکون اور 25 ایکسرسائز کے‘ آپ کھانا کنٹرول کر لیں آپ پچاس فیصد صحت مند ہو جائیں گے‘
آپ ٹینشن فری ہو جائیں‘ آپ 75 فیصد صحت مند ہو جائیں گے اور آپ اگر ایکسرسائز کو اپنی روٹین بنا لیں تو آپ صحت کے سو نمبر حاصل کر لیں گے‘ میں نے آپ کا معدہ آدھا کر دیا‘ آپ اب آدھی خوراک لیں گے یوں آپ پچاس فیصد صحت یاب ہو جائیں گے‘ آپ اگر اس کے بعد ٹینشن کم کر لیں اور روزانہ ایکسرسائز کریں تو آپ چھ ماہ میں مکمل صحت مند ہوں گے‘ ڈاکٹر خاموش ہوگیا‘ میں نے ڈاکٹر سے پوچھا‘کیا آپ کا معدہ بھی آدھا ہے‘ ڈاکٹر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا‘نہیں‘
میرا معدہ پورا ہے لیکن میں اپنا آدھا معدہ استعمال کرتا ہوں‘ میں بھوک سے نصف کھانا کھاتا ہوں اور دن میں پانچ بار کھاتا ہوں‘ میں نے پوچھا‘کیا مطلب؟ ڈاکٹر بولا‘انسان سب سے کم کھانا سہ پہر کے وقت کھاتا ہے‘ میں جتنی خوراک سہ پہر کے وقت کھاتا ہوں میں اتنی ہی مقدار ناشتے‘ لنچ اور ڈنر میں لیتا ہوں‘ میں صبح ساڑھے سات بجے ناشتہ کرتا ہوں‘ گیارہ بجے سنیکس لیتا ہوں‘ دو بجے لنچ کرتا ہوں‘ چار بجے کافی یا چائے کے ساتھ بسکٹ کھاتا ہوں اور میں ساڑھے چھ بجے ہلکا ڈنر کر لیتا ہوں‘
میں انڈیا میں کام کرتا رہا ہوں اور میرے والد کلکتہ کے رہنے والے تھے چنانچہ میں آپ کو مشورہ دوں گا آپ ہر وہ چیز ترک کر دیں جو ”چ“ سے شروع ہوتی ہے مثلاً چائے‘ چاول‘ چینی‘ چپاتی اور چنے‘ چیئر‘ چارپائی اور چڑچڑاپن اور چچڑ جیسے دوست اور رشتے دار آپ ہمیشہ صحت مند رہو گے‘آپ بھوک رکھ کر کھانا کھائیے‘ دوسرا یہ بات پلے باندھ لیجئے انسان کو خدا کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے سہارے‘ کسی دوسرے شخص کی ضرورت نہیں ہوتی‘ اللہ آپ کے ساتھ ہے تو آپ کو کوئی غم نہیں اور اگر اللہ آپ کے ساتھ نہیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص آپ کو نہیں بچا سکتا‘
اللہ پر اپنے یقین کو مضبوط کرتے چلے جائیں آپ ٹینشن‘ اینگزائٹی اور ڈپریشن سے آزاد ہوتے چلے جائیں گے اور دن میں آٹھ آٹھ گھنٹوں کے تین وقفوں میں آدھ آدھ گھنٹہ ایکسرسائز کو اپنا معمول بنا لیں‘ آپ پرفیکٹ زندگی گزاریں گے‘ میں یہی کرتا ہوں‘ کم کھانا کھاتا ہوں‘ خدا پر یقین رکھتا ہوں اور روزانہ ایکسرسائز کرتا ہوں چنانچہ صحت مند ہوں“۔وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”پھر کیا ہوا؟“ بولے ”ڈاکٹر نے ٹھیک کہا تھا‘ میری خوراک آدھی ہوئی تو میری بیماریوں کی شدت بھی نصف ہو گئی‘ میں نے اللہ پر یقین کو مضبوط کر لیا‘ میری ٹینشن بھی ختم ہو گئی اور میں اب روزانہ ایکسرسائز بھی کرتا ہوں چنانچہ میں تمہارے سامنے ہوں“ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور پوچھا ”اور آپ کا کاروبار کون دیکھتا ہے“
وہ ہنس کر بولے ”اوپر اللہ اور نیچے میرے ملازمین“ میں نے عرض کیا ”لیکن سر ہمارے ملک میں ملازمین سب سے بڑا ڈیزاسٹر ہوتے ہیں‘ میں نے ہر اس خاندان اور کاروبار کو تباہ ہوتے دیکھا جس نے ملازمین پر انحصار کیا“ انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے ”اورکیا وہ لوگ بچ جاتے ہیں جو ملازمین پر انحصار نہیں کرتے“ میں نے چند لمحے سوچا اور پھر قہقہہ لگا کر جواب دیا ”آپ کی بات درست ہے یہ بھی جلد یا بدیر فارغ ہو جاتے ہیں“ وہ ہنسے اور بولے ”گویا ایشو صرف وقت ہے‘
دوسروں پر اعتبار کرنے والے جلدی فارغ ہو جاتے ہیں اور دوسروں پر انحصار نہ کرنے والے دیر سے فارغ ہوتے ہیں لیکن فارغ دونوں ہو جاتے ہیں‘ میرا چھوٹا بھائی کاروبار پر بہت توجہ دیتا ہے‘ یہ صبح سے رات تک دفتر میں کام کرتا ہے‘یہ کام کی اس زیادتی کی وجہ سے بیمار ہو چکا ہے‘ ہم دونوں فارغ ہو جائیں گے لیکن اس میں اور مجھ میں ایک فرق ہو گا‘ یہ شاید آخری عمر ہسپتال میں گزارے اور میں شاید دنیا سے چلتے پھرتے رخصت ہوں چنانچہ فائدے میں کون رہا‘ میں یا وہ“
وہ خاموش ہوئے اور میری طرف دیکھنے لگے‘ میں چپ رہا‘ وہ بولے ”اور ایک اور چیز یاد رکھو دنیا کا جو بھی شخص پورے یقین کے ساتھ اپنی جان‘ مال اور اولاد اللہ کے حوالے کر دیتا ہے اللہ کبھی اس کا یقین نہیں ٹوٹنے دیتا‘ اللہ کبھی اس کو نقصان نہیں ہونے دیتا‘ ہم اگر اللہ کے دوست ہیں اور اللہ ہمارا دوست ہے تو پھر ہمیں نقصان کیسے ہو سکتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو‘ اپناسب کچھ اللہ کی نگرانی میں دے دو تم کبھی خسارے میں نہیں رہو گے“ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ”اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو متحرک بنایا ہے‘ ہمارے جسم کے اندر ہو یا ہمارے جسم کے باہر زندگی ہر وقت رواں دواں رہتی ہے‘
کارخانہ قدرت میں جو چیز رک جائے وہ فنا ہو جاتی ہے‘ آپ اپنے جسم کے جس عضو کو حرکت نہیں دو گے‘ آپ جس کو روزانہ چیلنج نہیں کرو گے وہ عضو ختم ہو جائے گا‘ وہ بیمار ہو جائے گا‘ آپ اپنے پورے جسم کو روزانہ ایکسرسائز کے چیلنج سے گزارو‘ آپ اپنے تمام اعضاء کو متحرک رکھو‘ یہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک آپ کی سانس میں سانس اور دل میں دھڑکن موجود رہے گی‘ انسان کا جسم بہت وفادار ہوتا ہے‘ آپ اس کی وفا ٹیسٹ کرو‘ یہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا“۔ میں اٹھا‘ ان کا ہاتھ چوما‘ ڈاکٹر کی تصویر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے گھر سے باہر آ گیا۔