پتریاٹہ مری سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر چھوٹا سا گاﺅں ہے‘ میاں نواز شریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں یہاں چیئرلفٹس لگائی تھیں‘ یہ چیئر لفٹس انتہائی خوبصورت اور ماڈرن تھیں‘ میں 1993ءمیں پہلی بار پتریاٹہ گیا‘ وہ میری زندگی کا یادگار دن تھا‘ میں پتریاٹہ کے ٹاپ پوائنٹ پر تین گھنٹے بیٹھا رہا‘ چیڑھ کے درختوں کے لمبے سائے دنیا میں بہت بڑی عیاشی ہیں اور میں دیر تک عیاشی کے اس عمل سے گزرتا رہا‘ وہ چیئر لفٹس عجوبہ تھیں اور وہ عجوبہ سیف الرحمن کی کمپنی ریڈ کو نے تخلیق کیا تھا‘
میں اس کے بعد درجنوں مرتبہ پتریاٹہ بھی گیا اور چیئر لفٹس کے ذریعے ٹاپ پوائنٹ پر بھی پہنچا‘ میں اکثر اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جاتا تھا‘ میں نے ان 22 برسوں میں چیئر لفٹس کے معیار کو خوفناک حد تک نیچے آتے دیکھا‘ میں آخری مرتبہ چار سال قبل وہاں گیا تھا‘ لفٹس ٹوٹی ہوئی تھیں‘ گنڈولوں کے اندر گندے فقرے لکھے تھے اور فرش سے باقاعدہ بو آتی تھی‘ ٹاپ پوائنٹ پر بھی گندگی اور کچرے کے ڈھیر لگے تھے‘ واپسی پر لفٹ پھنس گئی اور میں دوسرے مسافروں کے ساتھ دو گھنٹے ہوا میں لٹکا رہا‘ میں نے اس کے بعد توبہ کر لی‘ میں چار سال پتریاٹہ نہیں گیا۔میں ہفتے کے دن مری میں تھا‘ مجھے ٹریفک وارڈن شفیق کا میسج موصول ہوا ”پتریاٹہ چیئر لفٹس دوبارہ کھل گئی ہیں“ میں اپنے گھر میں تھا‘میرے گھر سے پتریاٹہ چیئر لفٹس آٹھ کلومیٹر دور ہیں‘ میں بیس منٹ میں پتریاٹہ پہنچ گیا‘ چیئر لفٹس کے سامنے دو ہزار لوگ کھڑے تھے‘ قطارلمبی تھی‘ میں نے ٹکٹ بوتھ سے ویٹنگ ٹائم پوچھا‘ پتہ چلا میری باری اڑھائی گھٹنے بعد آئے گی‘ میں قطار میں کھڑا ہو گیا‘ میرے دائیں بائیں کھڑے لوگوں نے محبت میں مجھے آگے نکلنے کا راستہ دینا شروع کر دیا‘ میں ان سے معذرت کرتا رہا‘ اپنی باری پر اصرار کرتا رہا لیکن لوگوں نے مجھے زبردستی آگے پہنچا دیا‘ عملے کے لوگ بھی اس دوران وہاں پہنچ گئے‘ وہ مجھے لفٹ تک لے گئے‘ میں شرمندہ ہو رہا تھا لیکن لوگ مجھے واقعی محبت میں راستہ دے رہے تھے‘
چیئر لفٹس دو ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ کھلی تھیں‘ پنجاب حکومت نے اٹھارہ کروڑ روپے سے نئے گنڈولے خریدے‘ ری پیئرنگ کی اور لفٹس عوام کےلئے دوبارہ کھول دیں‘ میں دو گھنٹے پتریاٹہ رہا‘ میں چیئر لفٹ کے ذریعے پہلے سٹیشن پر اترا‘ تھوڑی دیر وہاں رکا اور پھر گنڈولا کے ذریعے ٹاپ پوائنٹ پر پہنچ گیا‘ٹاپ پر برف بھی تھی اور سردی بھی‘ میں آدھ گھنٹہ وہاں رہا‘ میری اس دوران ریزارٹ کے جنرل منیجر محسن صاحب سے بھی ملاقات ہوئی اور چیئر لفٹس کے عملے اور مقامی لوگوں سے بھی‘ یہ تمام لوگ خوش تھے‘
ان کا کہنا تھا‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پتریاٹہ پر توجہ دے کر نیکی کا کام کیا‘ ملک میں تفریح کے مواقع بہت کم ہیں‘ لوگ ترسے ہوئے ہیں‘ لوگوں کو جہاں روشنی کی کرن دکھائی دیتی ہے یہ پروانوں کی طرح وہاں لپک پڑتے ہیں‘ پچھلے سال پتریاٹہ چیئر لفٹس پر پانچ لاکھ لوگ سوار ہوئے اور پنجاب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ نے ان سے 20 کروڑ روپے کمائے ‘ یہ تعداد اور یہ منافع پاکستان جیسے غریب ملک کےلئے معمولی نہیں‘ یہ لوگوں کی ضرورت اور توجہ کا ثبوت ہے‘ ہفتے کے دن بھی 2231 ٹکٹ فروخت ہوئے‘ اگر بچوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد تین ہزار ہو جائے گی‘
آپ جنوری اور فروری کے دوران مری آنے والے سیاحوں کا ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ حیران رہ جائیں گے‘ مری شہر میں تین ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے لیکن اس برف باری کے سیزن میں پچاس پچاس ہزار گاڑیاں شہر میں داخل ہوتی رہیں یہاں تک کہ ہوٹلوں میں جگہ اور ریستورانوں میں کھانا ختم ہو گیا۔میں ہر جمعہ کو مری چلا جاتا ہوں‘ میں تین دن وہاں رہتا ہوں‘ مجھے ہر ویک اینڈ پر شہر کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں‘ یہ ٹرینڈ صحت مند ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے‘
عوام تفریح کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں‘ پنجاب حکومت کو اس ٹرینڈ کو ذہن میں رکھ کر مری کےلئے چند اقدامات کرنا ہوں گے‘میری درخواست ہے حکومت مری کےلئے الگ اتھارٹی بنا دے‘ اس اتھارٹی کو مکمل اختیارات دے اور کامران لاشاری جیسے کسی متحرک اور وژنری شخص کو اتھارٹی کا چیئرمین بنا دے‘ یہ مری جیسے ہل سٹیشن پر بہت بڑا احسان ہوگا‘ مری کی سڑکیں چھوٹی ہیں چنانچہ یہاں روز آنے اور جانے والی ٹریفک پھنس جاتی ہے‘ حکومت کو چاہیے یہ مری میں داخلے اور باہر نکلنے کے راستے الگ الگ کر دے‘ اس سے ٹریفک جام کا مسئلہ ختم ہو جائے گا‘
حکومت مری کے تمام ہوٹلوں کو اے‘ بی اور سی کیٹیگری میں تقسیم کردے‘ کمروں کے ریٹس طے کرے ‘ مری ہوٹلز کے نام سے ویب سائیٹ بنائے اور یہ تمام ہوٹلز مری کی ویب سائٹ پر چڑھا دے‘ لوگ انٹرنیٹ پر کمرے بھی بک کرائیں اور یہ مری میں سیاحوں کے لوڈ کا اندازہ بھی کر لیں‘ مری میں بجلی‘ پانی اور گیس کا شدید بحران ہے‘ برف باری میں بجلی بند ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ بحران المیے میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ حکومت اگر مری کےلئے الگ پاور ہاﺅس بنا دے‘
یہ بجلی کی لائنوں کی ری پیئرنگ کر دے اور اگر تاریں انڈر گراﺅنڈ ہو جائیں تو یہ مسئلہ بھی بڑی حد تک ختم ہو جائے گا‘ حکومت کو کوہالہ سے پانی کی نئی لائین بھی لانی چاہیے اور یہ لوگوں سے پانی کا بل بھی وصول کرے یوں پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا‘ حکومت نے مری میں ”ویسٹ مینجمنٹ“ شروع کی لیکن یہ سروس صرف چند کلو میٹر تک محدود ہے‘ حکومت کو اس کا دائرہ کار بھی بڑھانا چاہیے اور اس کی کارکردگی پر بھی نظر رکھنی چاہیے ‘یہ لوگ بارش اور برفباری میں غائب ہو جاتے ہیں اور شہر میں کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں‘ آپ مری میں جب جھیکا گلی پہنچتے ہیں ‘
سڑک تنگ ہو جاتی ہے‘ بازار بھی بہت گندہ ہے‘ حکومت اگر اسے گرا کر اس کی جگہ نیا بازار بنا دے اور یہ تمام دکانیں دوبارہ پرانے مالکان کو الاٹ کر دی جائیں تو بھی مری کی ٹھیک ٹھاک فیس لفٹنگ ہو جائے گی‘حکومت کو پتریاٹہ پر زیادہ توجہ دینی چاہیے‘ پتریاٹہ کا بازار بہت تنگ‘ گندا اور تجاوزات سے آلودہ ہے‘ سارا دن ٹریفک پھنسی رہتی ہے‘ میاں شہباز شریف اگر ذرا سی توجہ دیں تو یہ بازار چند ماہ میں ”اپ لفٹ“ ہو جائے گا‘ میاں صاحب نتھیا گلی کو کاپی کر سکتے ہیں‘ عمران خان نے گلیات بالخصوص نتھیا گلی کی خوبصورت ”اپ لفٹنگ“ کی‘ نتھیا گلی یورپین سٹینڈرڈ کے قریب پہنچ چکا ہے‘
پنجاب حکومت خیبر پختونخواہ سے تکنیکی مدد لے کر پتریاٹہ کو بھی نتھیا گلی بنا سکتی ہے‘چیئر لفٹس کے سامنے پارکنگ کامسئلہ گھمبیر ہو چکا ہے‘ ویک اینڈز پر یہاں تین تین ہزار گاڑیاں آتی ہیں جن کی وجہ سے پورا علاقہ چوک ہو جاتا ہے‘ حکومت اس کا تدارک بھی کرے‘ مری کے اسسٹنٹ کمشنر عارف اللہ اعوان بہت سمجھ دار انسان ہیں‘ یہ نوجوان یہ مسئلہ اکیلے حل کر سکتے ہیں‘ وزیر اعلیٰ حکم دیں یہ نوجوان چند دنوں میں پتریاٹہ کی پارکنگ سیدھی کر دے گا‘ ٹکٹ بوتھ کے سامنے بھی لمبی قطاریں لگی رہتی ہیں‘ حکومت ان قطاروں کےلئے تین اقدامات کر سکتی ہے‘ آپ فاسٹ ٹریک بنا دیں‘
جو سیاح جلد لفٹ پر جانا چاہتے ہیں وہ ڈبل قیمت ادا کر کے فاسٹ ٹریک کی سہولت حاصل کر لیں‘ سیاحوں کو انٹرنیٹ پر بکنگ‘ ایڈوانس بکنگ اور شہر کے مختلف سینٹروں‘ ہوٹلوں اور دکانوں سے بھی ٹکٹ کی خریداری کی سہولت دے دی جائے اور حکومت جی پی او‘ پی سی بھوربن اور مری ایکسپریس وے کے ٹول پلازہ پر بھی ٹکٹ رکھوا دے‘ سیاح یہاں سے ٹکٹ خرید لیں اور سیدھا چیئرلفٹس پر پہنچ جائیں‘ حکومت رش کے دنوں میں ٹکٹ کو صبح‘ دوپہر اور شام تین کیٹیگریز میں تقسیم کر دے‘ سیاح صبح کے ٹکٹ صبح‘ دوپہر کے دوپہر اور شام کے ٹکٹ شام کے وقت استعمال کریں‘ اس سے بھی رش کنٹرول ہو جائے گا‘
ٹاپ پوائنٹ مری کا بلند اور خوبصورت ترین مقام ہے لیکن اس مقام پر گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں‘ میاں شہباز شریف اس جگہ کا دورہ کریں اور یہاں لکڑی کے خوبصورت ہٹس کا بازار بنوا دیں ‘یہ یہاں اعلیٰ پائے کی کافی شاپ اور ریستوران بھی بنوا دیں ‘ سیاحوں کی سہولیات میں اضافہ ہو جائے گا‘ اسی طرح اگر ویسٹ مینجمنٹ کا دائرہ پتریاٹہ تک وسیع کر دیا جائے تو بھی یہاں کے گند میں کمی آ جائے گی اور آخر میں ہمارا المیہ چیزیں بنانا نہیں چیزوں کو چلانا ہے‘ ہم ہمیشہ چیزوں کو چلانے اور مینٹین کرنے میں مار کھاتے ہیں‘ پتریاٹہ چیئر لفٹس بھی اکثر اوقات ہماری اس خامی کا شکار رہتی ہیں‘ حکومت نے جہاں لفٹس بنانے پر کروڑوں روپے خرچ کر دیئے ہیں
یہ اگر وہاں عملے کی ٹریننگ پر چند لاکھ روپے لگا دے تو سروسز کا معیار بلند ہو جائے گا‘ میری میاں شہبا زشریف سے درخواست ہے‘ آپ عملے کی ٹریننگ کا فوری بندوبست کر یں‘ یہ لوگ ”ان ٹرینڈ“ اور نان پروفیشنل ہیں‘ حکومت نے اگر ان کی ٹریننگ کا انتظام نہ کیا تو یہ لوگ چند ماہ میں ان لفٹس کو دوبارہ بند کرا دیں گے اور سیاح ایک بار پھر ہوا میں معلق ہو جائیں گے یوں یہ تفریح گاہ ایک بار پھر المیہ بن جائے گی۔