میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم تحفہ سمجھتا ہوں‘ ہم مسلمان اس تحفے پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہو گا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ امریکا کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے ثابت کر دیا گورا گورا ہوتا ہے اور کالا کالا اور گندمی گندمی‘ جنہوں نے ثابت کر دیا دنیا ابھی پوری طرح گلوبل ویلج نہیں بنی‘ اس کی گلیوں میں آج بھی تعصب‘ نفرت اور نسل پرستی کے سانڈ پھر رہے ہیں‘ جنہوں نے ثابت کر دیا آپ اگر مسلمان ہیں تو آپ خواہ کچھ بھی کر لیں‘
آپ گورے صاحب کےلئے کتنی ہی قربانیاں دے دیں‘ آپ ان کے بھائی نہیں بن سکتے‘ یہ آپ کو اپنے برابر نہیں سمجھیں گے‘ جنہوں نے ثابت کر دیا امریکا دنیا میں کسی کا دوست نہیں‘ یہ کام نکلنے کے بعد آپ کی پیٹھ پر لات ضرور مارے گا اور جنہوں نے ثابت کر دیا انسانی حقوق‘ برابری اور انصاف خوبصورت ریپر ہیں اور آپ جب بھی یہ ریپر کھولیں گے آپ کو ان کے اندر گندی مٹی ہی ملے گی‘ آپ کے ہاتھ ضرور گندے ہوں گے۔
آپ اسلامی دنیا کی سادگی ملاحظہ کیجئے‘ ہم سب امریکی معاشرے کی انسان دوستی کی تعریف کر رہے ہیں‘ہم ان امریکی وکلاءکےلئے تالیاں بجاتے ہیں جو مسلمانوں کے استقبال کےلئے امریکی ائیر پورٹس پر پہنچ گئے تھے‘ ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی مذمت کرنے والے امریکیوں کےلئے بھی زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں اور ہم ٹرمپ کی نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف جلوس نکالنے والے شہریوں کےلئے بھی ڈھول پیٹ رہے ہیں لیکن ہم ساتھ ہی ان 46 فیصد امریکیوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے ٹرمپ کی ذہنیت اور فلاسفی کو ووٹ دیئے‘ جنہوں نے انہیں صدر بنایا‘ ہم ان 49 فیصد امریکیوں کو بھی فراموش کر جاتے ہیں جنہوں نے 31 جنوری کو ٹرمپ کے صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کی حمایت کی‘ آپ کو یقین نہ آئے تو رائیٹرز کا تازہ ترین سروے دیکھ لیجئے‘ آپ کو امریکا کے 49 فیصد شہری ٹرمپ کی مسلم مخالف پالیسیوں کی حمایت کرتے نظر آئیں گے‘ یہ درست ہے
امریکا میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں‘ امریکا کے ہزاروں سرکاری ملازمین استعفیٰ دے چکے ہیں‘ امریکا کی قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی ییٹس نے بھی صدر کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا‘ امریکا کی چار ریاستیں صدارتی احکامات کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئیں‘ چار ریاستوں کی عدالتوں نے صدارتی حکم کے خلاف سٹے آرڈر جاری کئے اورامریکی عدلیہ نے صدارتی حکم بھی مسترد کر دیا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے امریکا کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ سے اتفاق کرتی ہے‘ لوگ امریکا کو ویسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں جیسا ڈونلڈ ٹرمپ اسے بنا رہے ہیں‘ آپ چند لمحوں کےلئے غور کیجئے‘ لوگ اگر ٹرمپ کے خیالات سے اتفاق نہ کرتے تو یہ انہیں ووٹ کیوں دیتے‘ یہ انہیں صدر کیوں بناتے؟۔
ہم مسلمان کتنے سادہ ہیں‘ ہم امریکا کے صدارتی احکامات کی واپسی پر خوش ہو رہے ہیں لیکن ہم یہ بھول رہے ہیں امریکا نے جن سات ملکوں کے شہریوں پر پابندی لگائی تھی ان کی بربادی کا صرف ایک ہی ملک ذمہ دار تھا اور وہ ملک تھا امریکا‘ آپ غور کیجئے ایران کو عالمی تنہائی میں کس نے دھکیلا؟ کیا یہ امریکا نہیں تھا جس نے شاہ ایران کے ساتھ ” بھائی بھائی“ کا کھیل کھیلا‘ امریکا نوازی نے شاہ کو ایران میں غیر مقبول بنا دیا اور عوام اس کے خلاف ہو گئے‘ شاہ ملک سے بھاگ کھڑا ہوا لیکن امریکا نے اپنے بھائی کو پناہ دینے سے بھی انکار کر دیا اور اس کی ساری دولت بھی ضبط کر لی‘
وہ بے چارہ کسمپرسی کے عالم میں مصر میں فوت ہو ا‘ کیا یہ امریکا نہیں تھا جس نے 1980ءکی دہائی میں ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں‘ ایران کے غیر ملکی اثاثے ضبط کر لئے تھے اور تیل کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی‘ ایران آج تک ان پابندیوں کے اثرات سے نہیں نکل سکا‘ صدر اوبامہ نے بڑی مشکل سے ایران کے ساتھ تعلقات ٹھیک کئے‘ دونوں ملک ماضی سے آزاد ہورہے تھے لیکن پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہی جھٹکے میں دونوں کو دوبارہ ماضی میں دھکیل دیا اورردعمل میں ایران میں ایک بار پھر ”مرگ بر امریکا“ کے نعرے لگنے لگے‘ عراق کو بھی کس نے تباہ کیا تھا؟
کیمیائی ہتھیاروں کی جھوٹی کہانی کس نے ایجاد کی‘ عراق پر حملہ کس نے کیا‘ پانچ لاکھ عراقی کس کی بمباری کا نشانہ بنے‘ ملک کو کس نے تقسیم کیا‘ داعش کا بانی کون تھا‘ ابوبکر بغدادی کو ڈالر اور اسلحہ کس نے دیا‘ ابوغریب جیل میں کتے کس نے چھوڑے‘ صدام حسین کو پھانسی کس نے لگائی اور عراق میں امریکا نواز حکومت کس نے بنائی؟ کیا وہ امریکا نہیں تھا! عراق کبھی دنیا کے خوش حال ترین ملکوں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا‘ یہ ہزاروں غیر ملکیوں کو نوکریاں فراہم کرتا تھا لیکن پھر یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا؟
اس کی ذمہ داری کس کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے؟ کیا یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ملک کا کیا دھرا نہیں؟ لیبیا بھی دنیا کا خوش حال ترین ملک تھا‘ مملکت میں خوش حالی‘ امن اور آسائش تھی‘ لوگ دروازے کھول کر سوتے تھے‘ جرائم کی شرح صفر تھی اور لوگ چوری‘ ڈکیتی اور قتل کے الفاظ تک بھول چکے تھے ‘ حکومت تمام شہریوں کو الاﺅنس دیتی تھی‘ لیبیا دنیا کا واحد ملک تھا جس کے شہری کسی دوسرے شہری کے پاس ملازمت نہیں کرتے تھے‘ لوگ سرکاری نوکری کرتے تھے‘ کاروبار کرتے تھے یا پھر گھر میں بیٹھتے تھے اور حکومت ان کے تمام اخراجات کی ذمہ دار ہوتی تھی‘
لیبیا کے باشندے گھر سے لے کر دکان تک ہر کام کےلئے دوسرے ملکوں سے لوگ منگواتے تھے‘ لیبیا نے ”مائیکرو ویو“ چلانے کےلئے بھی امریکی ”ماہرین“ ملازم رکھے ہوئے تھے لیکن پھر یہ لیبیا کچرے کا ڈھیر بن گیا‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شام دنیا کا قدیم ترین اور خوبصورت ترین ملک تھا‘ اس کی گلیوں میں تاریخ سانس لیتی تھی‘ اسلامی تاریخ میں دو عظیم سنگ میل ہیں‘ شام اور استنبول‘ شام کےلئے لشکر رسول اللہ ﷺ نے روانہ کیا تھا اور استنبول فتح کرنے والے کےلئے جنت کی بشارت دی تھی‘
یہ شام آج بین الاقوامی المیہ بن چکا ہے‘ 80 فیصد ملک باغیوں کے قبضے میں ہے اور یہ باغی امریکی گولہ بارود کے ذریعے شام کو کھنڈر بناتے جا رہے ہیں‘ شام میں انبیاءکرام‘ صحابہ کرام ؓ ‘ اہل بیعت اور اولیاءکرام کے مزارات تک محفوظ نہیں ہیں‘ اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟ آپ غور کریں گے تو آپ کو سوڈان‘ یمن اور صومالیہ میں بھی امریکی پالیسیوں کی کرچیاں ملیں گی‘ یہ تینوں ملک بھی امریکا کی مہربانیوں کا تاوان ادا کر رہے ہیں اور آپ آخر میں پاکستان اور افغانستان کے حالات کا جائزہ بھی لے لیجئے‘ افغانستان 35 برس سے زخمی پڑا ہے‘ ان زخموں کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا امریکا نے افغانستان میں پراکسی وار نہیں لڑی‘ کیا امریکا نے القاعدہ اور طالبان کو افغانستان میں آباد نہیں کیا اور کیا امریکا ہی نے ماضی کے اپنے اتحادیوں کو 2001ءمیں ڈیزی کٹڑ کا نشانہ نہیں بنایا؟ پیچھے رہ گیا پاکستان ‘ یہ 60 برسوں سے امریکی مہربانیوں کی فصل کاٹ رہا ہے‘ امریکا نے ہمیں 1980ءکی دہائی میں روس کے خلاف استعمال کیا‘ 1990ءکی دہائی میں طالبان کی لانچنگ کےلئے استعمال کیا اور پھر 2001ءمیں طالبان اور القاعدہ کے خلاف استعمال کیا اور ہم اس استعمال کے دوران تباہ ہوتے چلے گئے‘ امریکا نے ہر استعمال سے قبل پاکستان میں مارشل لاءبھی لگوایا اور ان مارشل لاﺅں نے ملک کا بھرکس نکال دیا ‘ پاکستان اور افغانستان اب ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے ہدف ہیں‘ ہم بھی اب یمن‘ سوڈان‘ صومالیہ‘ لیبیا‘ عراق‘ شام اور ایران کی طرح امریکا سے محبت اور دوستی کا تاوان ادا کریں گے۔
ہم پاکستانی اپنا انجام فراموش کر بیٹھے تھے‘ ہم محبت کو محبت اور دوستی کو دوستی سمجھ بیٹھے تھے‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مہینے میں ہماری اوقات بتا دی‘ انہوں نے ہمیں سمجھا دیا ”تم ٹشو پیپر ہو‘ ہم تمہیں استعمال کریں گے اور پھینک دیں گے“ٹرمپ یہ پیغام دنیا کے ہر اس ملک کو دے رہے ہیں جس نے ماضی میں اپنی اوقات سے بڑھ کر امریکا کی خدمت کی‘ جس نے امریکا کی دوستی میں اپنے آپ کو تباہ کر لیا چنانچہ میں اس شخص کو عطیہ خدا وندی اور عالم اسلام کا محسن سمجھتا ہوں‘
اللہ تعالیٰ ڈونلڈ ٹرمپ کو زندگی دے‘ یہ اپنی مدت اقتدار پوری کریں‘ مجھے یقین ہے یہ چار برسوں میں اسلامی دنیا اورامریکا میں امریکیوں کی خدمت کرنے والے گندمی انسانوں کو راہ راست پر لے آئیں گے‘ یہ ایشیائی‘ افریقن اور مسلمانوں کو ان کی اوقات بتا دیں گے‘ یہ دنیا کو امریکا کے اصل چہرے سے متعارف کرا دیں گے‘ اللہ تعالیٰ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہمت دے‘ یہ وہ شخص ہے جس کا شر ایران اور سعودی عرب کو ایک میز پر لے آئے گا‘ جس کا خوف نفاق کے شکار مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دے گا اور جس کی نفرت ہنرمندوں کو ان کے وطنوں میں واپس لے آئے گی اور یہ اپنے اپنے ملکوں کو رہنے کے قابل بنا دیں گے ۔
آئیے ہم ٹرمپ کی صحت‘ زندگی اور اقتدار کےلئے دعا کریں۔