سری لنکا کے لوگ اور موسم دونوں مختلف ہیں، تین چوتھائی دنیا اس وقت سردی سے ٹھٹھر رہی ہے، لوگ انگیٹھیوں کے قریب بیٹھے ہیں لیکن سری لنکا میں لوگ ٹی شرٹس، شاٹس اورسلیپروں میں پھر رہے ہیں اور کمروں میں اے سی اور پنکھے آن ہیں اور آپ دن کے وقت باہر نہیں نکل سکتے، موسم میں ایک گیلا پن، ایک مرطوب بھاری پن ہے، آپ باہر نکلتے ہیں تو آپ کی جلد چند لمحوں میں چپچپا سی جاتی ہے‘ لوگ بہت دھیمے، عاجز اور منظم ہیں‘ یہ آپ کا راستہ نہیں کاٹتے، ٹریفک پانی کی طرح بہتی رہتی ہے،
گاڑی کے پیچھے گاڑی ہوتی ہے اور کوئی گاڑی کسی دوسری گاڑی کو ’’اوور ٹیک‘‘ کرنے کی کوشش نہیں کرتی، میں نے پچھلے تین دن میں کولمبو شہر میں ہارن کی آواز نہیں سنی، فضا میں پولوشن بھی نہ ہونے کے برابر ہے، گاڑیاں دھواں نہیں دیتیں، پٹرول بھی کثافت سے پاک ہے، شہر میں ہزاروں کی تعداد میں رکشے ہیں، سری لنکن انہیں ’’ٹک ٹک‘‘ کہتے ہیں، یہ ٹک ٹک بھی ’’ساؤنڈ لیس‘‘ اور رواں ہیں، آپ ان کی آ واز سنتے ہیں اور نہ ہی آپ کو ان کے سائلنسر سے دھواں نکلتا دکھائی دیتا ہے، بسیں بھی صاف ستھری ہیں، ٹرینیں پرانی ہیں لیکن وقت کی پابند اور منظم ہیں۔ آپ کو پورے کولمبو شہر میں کچرہ، گند اور بدبو نہیں ملتی، سڑکیں صاف ہیں، آپ کو ان پر کاغذ، ٹشو پیپر اور ماچس کی ڈبی تک نظر نہیں آتی، چوک اور چوراہوں میں پولیس، چیک پوسٹس اور ناکے بھی دکھائی نہیں دیتے، ہوٹلوں میں بھی سیکورٹی کے بندوبست نہیں ہیں۔ آپ چلتے چلتے کسی بھی فلور اور کسی بھی کمرے میں چلے جائیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا، آپ کو عوام بھی چیختے چلاتے یا احتجاج کرتے دکھائی نہیں دیتے، خوانچہ فروش، دکان دار اور وین کے کنڈیکٹر بھی ’’جی باجی جی‘‘ کرتے نظر نہیں آتے اور آپ کو کوئی شخص کسی دوسرے سے دست و گریبان بھی دکھائی نہیں دیتا، یہ ساری باتیں، یہ ساری حرکتیں عجیب ہیں، ہم پاکستانی ان کے عادی نہیں ہیں کولمبو شہر میں سلیقہ ہے،بازار صاف ستھرے ہیں، فٹ پاتھ بھی ہموار ہیں، دکانیں دکانوں کے اندر ہیں، یہ ابل کر فٹ پاتھ پر نہیں آتیں اور لوگ دھیمے اور شائستہ ہیں۔
میں اتوار کی صبح کولمبو پہنچا، سوموار سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں، انفارمیشن منسٹری کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات ہوئی، وہ ایک متکبر نوجوان تھا، پاکستان کے دورے کرتا رہتا تھا، پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم کا دوست ہے اور یہ سری لنکا میں پیمرا قسم کی اتھارٹی بنانا چاہتا ہے لیکن اس کا رویہ انتہائی غیر مناسب تھا، وہ اڑھائی گھنٹے کی تاخیر سے دفتر پہنچا اور دفتر پہنچنے کے بعد وہ جس طرح ہم لوگوں سے مخاطب ہوا وہ انداز غلط تھا، یہ رویہ سری لنکا کی سرکاری پالیسی کا غماض تھا،
پاکستان نے 2002ء میں سری لنکا پر بہت بڑا احسان کیا تھا، جافنا میں بغاوت چل رہی تھی، تامل ٹائیگرز نے سری لنکا کی چولہیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ ملک تقسیم کے قریب تھا، بھارت اور امریکا باغیوں کو سپورٹ کر رہے تھے، اس کڑے وقت میں سری لنکا کے آرمی چیف نے جنرل پرویز مشرف سے رابطہ کیا اور ان سے مدد طلب کی، وہ جنرل مشرف کے کورس میڈ تھے۔ جنرل مشرف نے سری لنکا کے لیے ہتھیاروں کے ڈپو کھول دیے، پاکستانی فوج نے سری لنکا کو نہ صرف ہتھیار دیے بلکہ یہ ہتھیار سی ون تھرٹی جہازوں میں بھر کر جافنا بھی پہنچائے گئے،
پاکستان نے سری لنکن فوجیوں کو ٹریننگ بھی دی اور انہیں جاسوسی اور مواصلاتی مدد بھی فراہم کی، یہ مدد، ٹریننگ اور ہتھیار ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے، سری لنکا نے باغیوں کو کچل دیا اور یوں ملک ٹوٹنے سے بچ گیا۔ تامل ٹائیگرز نے اس مدد کے جواب میں 2006ء میں پاکستانی سفیر بشیر ولی محمد پر خود کش حملہ کیا، سفیر بچ گئے لیکن سات لوگ ہلاک ہو گئے، پاکستان نے اس حملے کے باوجود سری لنکا کی مدد جاری رکھی، جنرل کیانی کے دور میں بھی لنکن فوج کی ٹریننگ، ہتھیاروں کی سپلائی اور انٹیلی جنس شیئرنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ سری لنکا نے تامل ٹائیگرز پر پوری طرح قابو پا لیا، ملک کا بچہ بچہ پاکستان کی اس مدد سے واقف ہے
آپ سری لنکا کے کسی بھی دفتر میں چلے جائیں، آپ کسی بھی شخص سے ملیں وہ نہ صرف پاکستان کے احسان کو تسلیم کرے گا بلکہ جھک کر آپ کا شکریہ بھی ادا کرے گا لیکن اس تمام تر اعتراف کے باوجود سری لنکا بری طرح بھارتی دباؤ کا شکار ہے، بالخصوص لنکن حکومت بھارت کی مرضی کے خلاف دم تک نہیں مارتی، حکومت کے تمام اہلکار پاکستانیوں کی بے انتہا عزت کرتے ہیں لیکن جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان چوائس کا معاملہ آتا ہے یہ ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیتے ہیں شاید اس کی وجہ بھارت کی معیشت اور سری لنکا کی جغرافیائی کمزوری ہے، یہ ملک بھارت سے صرف 35 منٹ کی سمندری دوری پر واقع ہے،
دونوں ملکوں کے درمیان بحرہند کی چھوٹی سی آبی پٹی حائل ہے، سری لنکا خوراک سے لے کر کپڑوں، گاڑیوں اور رکشوں تک کے لیے بھارت کا محتاج ہے، بھارت اگر سری لنکا کے چاول اور دالیں روک لے تو ملک میں قحط کی صورت حال پیدا ہو جائے، ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ، محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت بھی بھارت کے قبضے میں ہے، بھارتی کمپنیاں جب چاہتی ہیں سری لنکا کو مجبور کر دیتی ہیں، بھارت سری لنکا کے سیاسی حلقوں میں بھی بھاری سرمایہ کاری کرتا ہے،
سیاسی جماعتوں کو باقاعدہ فنڈز بھی دیے جاتے ہیں اور انہیں اثر و رسوخ بھی فراہم کیا جاتا ہے، بھارت سری لنکا میں اپنی مرضی کی پوری پوری حکومت لے آتا ہے، بیورو کریٹس بھی بھارتی یونیورسٹیوں اور اداروں سے نکلتے ہیں، نوجوان ویزے کے بغیر انڈیا جا اور آ سکتے ہیں، زبان بھی ملتی جلتی ہے بالخصوص سری لنکا کے تامل اور بھارتی تاملوں میں کوئی فرق نہیں، ان کا لباس اور خوراک تک یکساں ہے، بھارتی تامل اور لنکن تامل دونوں رجنی کانت کے فین ہیں چنانچہ اگر دیکھا جائے تو سری لنکا بری طرح بھارت کی معیشت، ثقافت اور انڈسٹری کے زیراثر ہے۔
یہ شاید بھارت کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتا، یہ لوگ پاکستان کے احسانات تسلیم کرتے ہیں، یہ پاکستانیوں کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں لیکن یہ بھارت کے سامنے دم بھی نہیں مارتے چنانچہ سری لنکا میں گھومتے ہوئے آپ کو حضرت امام حسینؓ کا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے جس میں بتانے والے نے بتایا تھا کوفہ کے لوگوں کے دل آپ لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔ یہ لوگ پسند ہمیں کرتے ہیں، یہ ہمارے احسان مند بھی ہیں لیکن یہ ساتھ ہمیشہ بھارت کا دیتے ہیں، سری لنکا میں دو پاکستانی افسر بہت مشہور ہیں، بریگیڈئر طارق اور لیفٹیننٹ کرنل راجل ارشاد خان، بریگیڈئر طارق نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں سری لنکا کے فوجیوں کو ٹریننگ دی تھی۔ یہ ٹریننگ لنکن فوج کی بنیاد بنی
چنانچہ سری لنکا کے زیادہ تر فوجی بریگیڈئر طارق کے فین ہیں، عام لوگ بھی ان کا نام جانتے ہیں، بریگیڈئر طارق یقیناً اس وقت ریٹائر زندگی گزار رہے ہوں گے، یہ اس وقت کہاں ہیں، میں نہیں جانتا لیکن سری لنکا کے لوگ انہیں مس کر رہے ہیں، میری بریگیڈئر طارق سے درخواست ہے یہ سری لنکا کا دورہ کریں اور اپنے شاگردوں سے ملاقات کریں، کرنل راجل اس وقت سری لنکا میں ملٹری اتاشی ہیں یہ لنکن بیورو کریسی، فوج، سیاسی غلام گردشوں، بزنس کمیونٹی، میڈیا اور عام لوگوں میں بہت مقبول ہیں،
لوگ انہیں دن رات ٹیلی فون کرتے رہتے ہیں اور یہ نہ صرف ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں بلکہ ان کی مدد بھی کرتے ہیں، یہ سری لنکا کے دفتروں سے وہ کام چند لمحوں میں کرا لیتے ہیں جو شاید وزیراعظم اور صدور بھی مہینوں میں نہ کرا سکیں۔سری لنکا اور پاکستان کے تعلقات بہت دلچسپ ہیں، دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے سے دور ہیں، پاکستانی حکومت کے کاغذات سری لنکا کی وزارتوں میں پھنس جاتے ہیں اور سری لنکا کے خطوط کا جواب پاکستان کے دفتروں میں شٹل کاک بن جاتا ہے لیکن دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں،
سری لنکا کی فوج پاکستان نواز ہے اور پاکستانی فوج سری لنکا کی فوج کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے، سری لنکا کے بریگیڈئر سے اوپر تمام افسر درجنوں بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں، یہ پاکستانی اداروں سے ٹریننگ بھی لیتے ہیں اور ہتھیار بھی چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں دونوں ملکوں کی فوجیں ایک سائیڈ پر کھڑی ہیں اور حکومتیں دوسری جانب، تعلقات کی یہ نوعیت تبدیل ہونی چاہیے، ملکوں کے ملکوں سے تعلقات ہونے چاہئیں‘ فوجوں کے فوجوں یا پولیس کے پولیس سے نہیں، کیوں؟
کیونکہ اداروں کے اداروں سے تعلقات لوگوں کی وجہ سے ہوتے ہیں اور جب لوگ تبدیل ہو جاتے ہیں تو تعلقات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے لیکن جب ریاست کے ریاست سے تعلقات ہوں تو یہ تعلقات لوگوں کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتے، ہمیں پاکستان کو سری لنکا اور سری لنکا کو پاکستان کا دوست بنانا ہو گا، یہ دوستی پاک چین دوستی کی طرح لازوال ہو جائے گی ورنہ دوسری صورت میں بھارت کسی دن سری لنکا کی فوج کو ہم سے بہتر پیکج آفر کرکے دوستی کی یہ پتنگ بھی لوٹ لے گا، یہ سری لنکا کو ہم سے مزید دور کر دے گا، ہماری حکومت کو یہ نقطہ سمجھنا ہو گا۔