ہوائی امریکا کی 40ویں ریاست ہے‘ یہ ریاست بحر الکاہل میں ایک وسیع جزیرہ ہے‘ یہ آسٹریلیا سے قریب اور امریکا کی دوسری ریاستوں سے دور واقع ہے‘ امریکا میں تین طویل ترین ڈومیسٹک فلائیٹس چلتی ہیں‘ پہلی فلائیٹ 13 گھنٹے‘ دوسری 12 گھنٹے اور تیسری 11 گھنٹے لمبی ہے‘یہ تینوں فلائیٹس ہوائی جاتی ہیں‘ ہونولولو ہوائی کا دارالحکومت ہے‘ یہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے‘دنیا کے اس خوبصورت شہر کی قربت میں 28 اپریل 1988ء کو ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘
یہ واقعہ 58 سالہ ائیر ہوسٹس لانسنگ کلارا بیل (Lansing Clarabelle) کے ساتھ پیش آیا اور اس نے دنیا کے لاکھوں لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا‘ کلارا بیل الوہا ائیر لائین میں ملازم تھی‘ یہ 28 اپریل کو فلائیٹ 243 کے ذریعے ہیلو (Hilo) سے ہونو لولو جا رہی تھی‘ فلائیٹ میں 90 مسافر اور عملے کے پانچ ارکان سوار تھے‘ جہاز نے اس دن 8 فلائیٹس کی تھیں‘ تمام فلائیٹس ہموار اورنارمل تھیں‘ موسم بھی خوش گوار تھا‘ دونوں پائلٹس بھی تجربہ کار تھے‘ وہ 8 ہزار گھنٹوں سے زیادہ فلائنگ کر چکے تھے‘ ہیلو اور ہونولولو کے درمیان 35 منٹ کی فلائیٹ تھی‘ جہاز نے ایک بج کر 25 منٹ پر ٹیک آف کیا اور یہ 20منٹ میں 23 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ گیا‘ مسافر اور عملہ فلائیٹ کو انجوائے کر رہے تھے‘ پائلٹ کو اچانک فرسٹ کلاس کیبن میں کسی چیز کے ٹوٹنے اور غبارے کی طرح پھٹنے کی آواز آئی‘
وہ پریشانی میں کیمرے گھمانے لگا‘ وہ ابھی وجہ تلاش کر رہا تھا کہ اس نے ایک عجیب منظر دیکھا‘ اس نے دیکھا‘ کلارا بیل فرسٹ کلاس کیبن میں کھڑی ہے‘ اچانک جہاز کی چھت میں خلا پیدا ہوا‘ کلارا بیل اپنی جگہ سے اٹھی‘ جہاز سے اڑی‘ باہر گری اور خلا میں گم ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی جہاز ڈولنے لگا‘ جہاز کی چھت میں سوراخ ہو چکا تھا‘ پائلٹ نے جہاز کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا لیکن جہاز ’’آؤٹ آف کنٹرول‘‘ ہو چکا تھا‘ جہاز کے اندر ہوا بھر گئی‘ ہوا کا دباؤ انجن کی طاقت سے کئی گنا زیادہ تھا‘ جہاز کے اندر درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا‘ قریب ترین جزیرہ ماؤ تھا‘ پائلٹ13 منٹ کی سر توڑ کوشش کے بعد جہاز کو ماؤ ائیرپورٹ پر اتارنے میں کامیاب ہو گیا‘
مسافر اور عملے کے ارکان محفوظ تھے‘ صرف کلارا بیل غائب تھی‘ وہ آج تک نہیں مل سکی‘ حادثے کے بعد تحقیقات ہوئیں‘ پتہ چلا‘ نمی کی وجہ سے جہاز کی چھت کے پیچ کمزور ہو گئے تھے‘ وہ ہوا کا دباؤ برداشت نہ کر سکے اور پرواز کے دوران عین اس جگہ سے اکھڑ ہو گئے جہاں کلارا کھڑی تھی‘ پیچ نکلنے سے چھت کا ایک حصہ اڑ گیا‘ جہاز میں خلا پیدا ہوا اور کلارا اس خلا سے باہر گر گئی‘ وہ کہاں گئی اور اس کی لاش کہاں گری امریکی فضائیہ کو آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا‘ یہ ایک واقعہ تھا‘ آپ اب دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجئے‘ یہ واقعہ بھی ایک ائیر ہوسٹس کے ساتھ پیش آیا۔
ویسنا ولووک (Vesna Vulovic) کا تعلق سربیا سے تھا‘ وہ یوگو سلاوین ائیر لائینز میں ملازم تھی‘ وہ 26 جنوری 1972ء کوفلائیٹ جے اے ٹی 367 میں سوار تھی‘ یہ فلائیٹ سٹاک ہوم سے سربیا جا رہی تھی‘ اس دن ویسنا کی ڈیوٹی نہیں تھی لیکن انتظامیہ نے زبردستی اس کی ڈیوٹی لگا دی‘ ویسنا نے ڈیوٹی سے بچنے کی کوشش کی لیکن اس کی ساتھی اس دن بیمار تھی اور سپروائزر کے پاس ویسنا کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا چنانچہ ویسنا کو طوعاً وکراہاً فلائیٹ میں سوار ہونا پڑ گیا‘ جہاز نے ٹیک آف کیا اور معمول کے مطابق اڑنے لگا‘ فلائیٹ جب چیک ریپبلک کی حدود میں داخل ہوئی تو دھماکہ ہوا اور جہاز چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو کر فضا میں بکھر گیا‘ جہاز کو بم سے اڑا دیا گیا تھا‘ بم سامان کے حصے میں لگایا گیا تھا اور وہ ٹائم بم تھا‘ تحقیقاتی اداروں کو دس دن بعد ملبے سے بم کا کلاک بھی مل گیااور کریش کے اگلے دن ایک کروش گروپ نے ذمہ داری بھی قبول کر لی‘
جہاز میں 27 مسافر سوار تھے‘ وہ تمام مسافر ہلاک ہو گئے لیکن آپ قدرت کا کمال دیکھئے ویسنا ولووک اس حادثے میں بچ گئی‘ وہ بم سے بھی محفوظ رہی اور 32 ہزار فٹ کی بلندی سے زمین پر گرنے کے بعد بھی زندہ رہی‘ یہ معجزہ کیسے ہوا؟تحقیقات کے دوران پتہ چلا کیٹرنگ کی ایک ٹرالی حادثے کے وقت اس کی کمر کے ساتھ جڑ گئی تھی‘ اس ٹرالی نے سیٹ بیلٹ کا کام کیا اور اس نے اسے جہاز کے ٹوٹے ہوئے حصے سے الگ نہ ہونے دیا‘ وہ باہر نہ گر سکی‘ دوسرا ‘حادثے کے وقت کوئی لاش اڑ کر اس کے سر پر گر گئی تھی‘ لاش نے اسے اوپر سے محفوظ رکھا جبکہ جہاز کی باڈی اس کے نیچے محفوظ رہی یوں وہ 32 ہزار فٹ کی بلندی اور بم دھماکے کے باوجود زندہ رہی تاہم اس کی دونوں ٹانگیں اور کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی‘ وہ کوما میں بھی چلی گئی ‘
وہ 23 دن کوما میں رہی‘ اسے جہاز سے نکالنے کا فریضہ ایک جرمن ڈاکٹر نے انجام دیا تھا‘ وہ ڈاکٹر دوسری جنگ عظیم میں اس نوعیت کے زخمیوں کا علاج کر چکا تھا چنانچہ اس نے اسے بڑی احتیاط سے ملبے سے نکالا اور ہسپتال پہنچا دیا‘ وہ کئی ماہ زیر علاج رہی‘ وہ صحت مند ہوئی تو اسے دوبارہ سروس میں رکھ لیا گیا‘ یوگو سلاویہ نے اسے قومی ہیروئین کا درجہ بھی دیا‘ وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہوئی اور اسے دنیا بھر کے سول ایوی ایشن ایوارڈز بھی ملے۔
آپ اب ان دونوں واقعات کا تجزیہ کیجئے‘ ہوائی کی کلارا بیل کی موت کا وقت آ چکا تھا‘ وہ 23 ہزار فٹ کی بلندی پر تھی‘ جہاز کی چھت میں اچانک سوراخ ہوا اور وہ اڑ کر خلا میں گم ہو گئی جبکہ باقی 95 مسافر جہاز کی پھٹی ہوئی چھت اور منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ کے باوجود سلامت رہے‘ اسی طرح یوگوسلاوین ائیر لائین کے 27 مسافروں کا وقت پورا ہو چکا تھا لہٰذا وہ فضائی حادثے کا شکار ہوگئے جبکہ ویسنا ولووک کی زندگی ابھی باقی تھی ‘وہ بم دھماکے اور 32 ہزار فٹ کی بلندی سے گرنے کے باوجود محفوظ بھی رہی اوروہ ابھی تک بھرپور زندگی گزارہی ہے‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟
یہ حضرت علیؓ کا وہ قول ثابت کرتا ہے جس میں آپؓ نے فرمایا تھا‘ زندگی کی سب سے بڑی محافظ موت ہوتی ہے‘ ہم بھی کیا لوگ ہیں‘ ہم موت سے بچنے کے سینکڑوں جتن کرتے ہیں لیکن یہ جب آتی ہے تو پھر یہ سمندر دیکھتی ہے‘ پہاڑ‘ خلا‘ صحرا‘ غار اور نہ ہی ایٹمی مورچہ‘ یہ انسان پر وہاں سے وار کرتی ہے جس کے بارے میں اس نے سوچا تک نہیں ہوتا‘ پانی کے دو قطرے ہماری سانس کی نالی میں پھنستے ہیں اور ہم اوندھے ہو کر گر پڑتے ہیں‘ چیل کے منہ سے ہڈی گرتی ہے‘ ہمارے سر پر لگتی ہے اور ہم دم دے جاتے ہیں‘ امیر تیمور نے آدھی دنیا میں کھوپڑیوں کے مینار بنا دیئے‘ وہ تلواروں‘ تیروں اور نیزوں سے بچ گیا‘ طاعون بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی لیکن وہ آخر میں سردی لگنے سے مر گیا‘ ہمایوں کو اس کے اپنے اور پرائے مل کر قتل نہیں کر پائے لیکن وہ آخر میں سیڑھی سے پھسل کر مر گیا‘ یہ کیا ہے؟
یہ موت کا وہ وقت ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور جب انسان کا وقت نہیں ہوتا‘ قدرت اسے ابھی زندہ رکھنا چاہتی ہے تو پھر وہ برستے بموں‘ پھیلتی آگ اور ٹوٹتے پھوٹتے پہاڑوں کے درمیان بھی زندہ رہتا ہے‘ وہ مگر مچھ کے پیٹ سے بھی سلامت نکل آتا ہے‘ وہ شیروں کے غار اور سانپوں کے کنوئیں میں بھی حیات رہتا ہے‘ یہ زندگی اور موت کا کھیل ہے‘ یہ عجیب کھیل ہے‘ آپ نے بچنا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو مار نہیں سکتی اور آپ کا وقت آ پہنچا ہے تو دنیا کے تمام ڈاکٹر‘ ز تمام طبیب مل کر بھی آپ کو بچا نہیں سکتے‘ آپ سلامت ہیں تو آپ میزائل لگنے کے بعد بھی سلامت رہیں گے اور آپ کا وقت آ چکا ہے تو آپ کیلئے مچھر کا ڈنگ بھی کافی ہو گا‘ آپ کو پانی کا گلاس بھی لڑ سکتا ہے‘ ہم لوگ زندگی اور موت کے معاملے میں مکمل بے بس ہیں‘ ہم اپنی زندگی میں اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کمی چنانچہ ہمیں موت سے بھاگنے کی بجائے موت کو اپنا دوست بنا لینا چاہیے‘
یہ دوست ہماری زندگی کی حفاظت بھی کرے گا اور ہمیں زندگی کی غلاظت سے بھی بچائے گا‘ یہ ہمیں روز وہ نقطہ سمجھائے گا جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو سمجھایا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا‘ موسیٰ جب میں کسی شخص کو کوئی چیز دینا چاہتاہوں اور ساری دنیا مل کر اس سے وہ چیز چھیننا چاہتی ہے اور میں جب کسی کو کسی چیز سے محروم رکھنا چاہتاہوں اور ساری دنیا مل کر اسے وہ چیز دینا چاہتی ہے تو مجھے لوگوں کی کوشش پر بہت ہنسی آتی ہے‘ ہم یہ نقطہ سمجھ لیں‘ ہم اگر موت کو اپنا دوست بنا لیں تو موت ہمیں روزانہ یہ بتائے گی‘ اے بے وقوف شخص تم غم نہ کرو‘ یہ اگر تمہارا نصیب ہے تو کوئی اسے تم سے چھین نہیں سکے گا اور یہ اگر تمہارے نصیب میں نہیں تو یہ تمہیں کبھی نہیں مل سکے گا‘ شکرکرو‘ توبہ کرو اور خوش رہو‘ زندگی بس یہی ہے۔