یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا۔
مصر نے چار ماہ قبل نہر سوئیز میں کویت کا ایک بحری جہاز روک لیا‘ جہاز” ایم ڈبلیو اکاز“ کویتی شپنگ کمپنی کی ملکیت تھا‘ یہ کسی ڈچ کمپنی نے چارٹر کرایا‘ یہ جہاز 11 اگست 2016ءکو کویت پہنچا‘یہ وہاں سے سکندریہ گیا اور یہ سکندریہ سے ہالینڈ جانا چاہتا تھا لیکن یہ جوں ہی نہر سوئیز میں داخل ہوا‘ مصری حکومت نے جہاز روک لیا‘ جہاز کے ذمے دو کروڑ روپے تھے‘ کویتی اور ڈچ کمپنی کے درمیان پھڈا ہو گیا‘ یہ کمپنیاں رقم ایک دوسرے پر ڈالنے لگیں‘ یہ جہاز پاکستان کےلئے لئے بہت اہم تھا‘ کیوں؟
کیونکہ جہاز کا عملہ پاکستانی تھا‘ کپتان سمیت 17 پاکستانی اس جہاز میں سوار تھے‘ مصری حکام نے ان تمام پاکستانیوں کے پاسپورٹ ضبط کئے‘عملے کو جہاز میں بند کیا اور جہاز گودی پر کھڑا کر دیا‘ پاکستانیوں کو چار ماہ تک جہاز میں محصور رکھا گیا‘ انہیں ساحل پر اترنے اور خوراک کا بندوبست کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی‘ یہ لوگ اس دوران خوراک کی قلت کا شکار بھی ہوئے اور بیمار بھی ‘ چھ پاکستانی ورکرز کی حالت تشویشناک ہو گئی لیکن وہ بیماری کے عالم میں جہاز میں پڑے رہے‘ مصری حکام نے انہیں طبی امداد تک نہ دی‘ عملے نے پاکستانی میڈیا سے رابطہ کیا‘ خبریں چلیں‘ پاکستان میں موجود مصری سفارتخانے پر پر دباﺅ آیا‘ پاکستان کے دوست ملکوں نے مدد کی اور یوں 21 دسمبر کے بعد عملے کو پاسپورٹ ملے اور بیماروں کو طبی معائنے کی سہولت ‘
ہمارے لوگ چار ماہ تک بنیادی سہولتوں سے کیوں محروم رہے‘ مصر نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا؟ اس کا جواب ہماری فارن پالیسی کی فائلوں میں دفن ہے‘ ہماری خارجہ پالیسی بدقسمتی سے پچھلے ساٹھ برسوں سے صرف امریکا‘ سعودی عرب‘ یورپ‘ چین اور بھارت تک محدود ہے‘ ہم نے ان ملکوں کے علاوہ آج تک کسی ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا اور جب دیکھا تو ہمارے تعلقات اس کے ساتھ مزید خراب ہو گئے اور ان محروم ملکوں میں مصر بھی شامل ہے‘ مصر ہمیں وعدہ خلاف‘ بے وقوف اورمتکبر سمجھتا ہے‘ کیوں؟ اس کی بے شمار وجوہات ہیں‘مثلاً آپ 1956ءکے واقعات کو لے لیں‘ 1956ءمیں عرب اسرائیل جنگ ہوئی‘ پوری مسلم دنیا مصر کے ساتھ کھڑی تھی لیکن ہم نے مصر کے ساتھ بے اعتنائی برتی‘ ہمارے وزیر خارجہ نے اس دور میں نہرسوئیز کے ایشو پر لندن کانفرنس میں مصر کو حمایت کی یقین دہانی کرائی لیکن ہم عین وقت پر مکر گئے‘
اس پر جمال عبدالناصر پاکستان سے ناراض ہو گئے‘دوسراواقعہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں پیش آیا‘ جنرل ضیاءالحق نے مصر کو یقین دلایا تھا وہ بھٹو کو رہا کر دیں گے لیکن یقین دہانی کے باوجود بھٹو کو پھانسی دے دی گئی‘ مصر مزید ناراض ہو گیا‘ ہم نے اسے راضی کرنے کی کوشش نہ کی‘ یہ واقعات ہمیں مصر میں وعدہ خلاف اسٹیبلش کر گئے‘ پاکستانیوں کو بے وقوف ثابت کرنے کی ذمہ داری یوسف رضا گیلانی نے پوری کی‘ مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں18مئی 2008ءکو ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس تھا‘ گیلانی صاحب نے شرکت کا اعلان کر دیا‘ وزارت خارجہ نے گیلانی صاحب کوبتایا حسنی مبارک 28 سال سے حکمران ہیں‘ یہ آج تک پاکستان نہیں آئے‘ ہمیں بھی نہیں جانا چاہیے لیکن یوسف رضا گیلانی روکنے کے باوجود بھاری وفد کے ساتھ شرم الشیخ پہنچ گئے‘
یہ اس وقت نو آموز تھے‘ یہ ابھی پروٹوکول کے تقاضوں سے بھی واقف نہیں تھے اور ان کا بین الاقوامی ایکسپوژر بھی نہیں تھا‘ شرم الشیخ میں ان کی جارج ڈبلیو بش اور حسنی مبارک کے ساتھ ملاقات طے ہو گئی‘ وہ دونوں گھاگ سیاستدان تھے‘ یوسف رضا گیلانی ان کے سامنے اعتماد کھو بیٹھے‘ حسنی مبارک سے ملتے ہوئے گیلانی صاحب کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور زبان لرز رہی تھی‘ حسنی مبارک نے ہنسنا شروع کر دیا اور وہ ہنستے ہنستے واپس چلے گئے‘ جارج بش کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی یہی ہوا‘ وہ پوچھتے کچھ تھے اور گیلانی صاحب جواب کچھ دیتے تھے‘
کانفرنس کے آخری دن خاتون اول نے شاپنگ کےلئے قاہرہ جانے کا اعلان کر دیا‘ مصری حکومت نے صاف انکار کر دیا‘حکومت کا کہنا تھا‘ ہماری پوری انتظامیہ اس وقت شرم الشیخ میں ہے‘ قاہرہ میں حکومت کا کوئی بڑا عہدیدار موجود نہیں‘ ہم وزیراعظم کو وہاں پروٹوکول نہیں دے سکتے‘ پاکستانی سٹاف نے وزیراعظم کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ بیگم صاحبہ کے سامنے مجبور تھے‘ جہاز کو قاہرہ لے جانے کےلئے کوئی ٹھوس بہانہ درکار تھا‘ وزیراعظم نے سٹاف کو بتایا” مصر کا لیبر منسٹر میرا دوست ہے‘میں اس سے ملاقات کےلئے قاہرہ جانا چاہتا ہوں“ سٹاف نے مصری حکام کو قاہرہ جانے کی وجہ بتائی‘ ان کی ہنسی نکل گئی اور انہوں نے دوسری بار بھی انکار کر دیا‘ وزارت خارجہ نے مجبوراً پاکستان میں مصری سفیر سے رابطہ کیا اور مصری سفیر نے ہمارے وزیراعظم کو قاہرہ جانے کی اجازت لے کر دی‘
وزیراعظم کا طیارہ قاہرہ اترا‘ وفد کے لوگوں کو بسوں میں ٹھونس کرا ہرام مصر بھیج دیا گیا‘ بیگم صاحبہ چاندی کے برتن خریدنے خان خلیلی بازار چلی گئیں جبکہ وزیراعظم پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیبر منسٹر کے دفتر چلے گئے‘ یہ وزیر کے دفتر پہنچ گئے لیکن وزیر اپنے دفتر پہنچ نہ سکا‘ وہ کسی سرکاری مصروفیت میں الجھ گیا‘ پاکستانی وزیراعظم مصری وزیر کے دفتر میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ ٹیک آف کا وقت ہو گیا اور مصری اہلکار وزیراعظم کے سٹاف کی طرف دیکھنے لگے یوں وزیراعظم لیبر منسٹر سے ملاقات کے بغیر ائیرپورٹ آ گئے‘ یہ واقعہ آج بھی مصری وزارت خارجہ میں لطیفے کی طرح سنایا اور سنا جاتا ہے اور مصری ہمیں غیرسنجیدہ اور بے وقوف کہتے ہیں۔
ہم اب آتے ہیں انا پرستی کی طرف‘ محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے لیکن مصر کی پوری اسٹیبلشمنٹ محمد مرسی کے خلاف تھی ‘یہ صدر مرسی صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر 18 مارچ 2013ءکو پاکستان آئے‘ ہم نے والہانہ استقبال کیا‘ جنرل عبدالفتاح السیسی نے چار ماہ بعد 13 جولائی 2013ءکو اقتدار پر قبضہ کر لیا‘ ملک میں مارشل لاءلگایا اور محمد مرسی کو گرفتار کر لیا‘میاں نواز شریف اقتدار میں آ چکے تھے‘میاں صاحب نے مصر میں فوجی مداخلت کی بھرپور مخالفت کی‘ وزارت خارجہ نے 25 جولائی کو مصر سے محمد مرسی کی رہائی کا مطالبہ کر دیا‘قومی اسمبلی نے 15 اگست 2013ءکو مذمتی قرار بھی پاس کر دی‘ مصر کوہماری قرارداد اور مطالبہ برا لگا‘ اس نے احتجاج کیا لیکن ہم باز نہ آئے‘
مئی 2014ءمیں مصر میں صدارتی الیکشن ہوئے‘مصری عوام نے جنرل السیسی کو صدر منتخب کر لیا لیکن ہم نے انہیں مبارکباد نہ دی‘ مصری عدلیہ نے مئی 2015ءمیں محمد مرسی کو سزائے موت سنا دی‘ ہماری وزارت خارجہ نے محمد مرسی کی سزائے موت کے خلاف بھی بیانات جاری کر دیئے‘ مصری حکومت نے ہمارے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ دے دیا‘ مصر کا کہنا تھا ”آپ ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے والے کون ہوتے ہیں“ یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ رہی سہی کسر ریاض میں پوری ہو گئی‘سعودی عرب میں 15 دسمبر 2015ءکو 34 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج کی تقریب تھی‘ میاں نواز شریف مصری صدر السیسی کے ساتھ بیٹھے تھے‘ مصری صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو ”انگیج“ کرنے کی کوشش کی لیکن میاں صاحب نے لفٹ نہ کرائی‘ وہ زیادہ تر وقت دائیں بائیں دیکھتے رہے‘ مصری حکام نے اس رویئے پر بھی احتجاج کیالیکن حکومت نے نوٹس نہیں لیا‘ کیوں؟ شاید میاں صاحب 12 اکتوبر 1999ءکی وجہ سے پوری دنیا کی فوج سے ناراض ہیں‘ یہ جنرل السیسی کو جنرل پرویز مشرف کا بھائی سمجھتے ہیں۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا سکندر مرزا کی غلط سفارت کاری ہو‘ جنرل ضیاءالحق کی غلطیاں ہوں‘ یوسف رضا گیلانی کی حماقتیں ہوں یا پھر میاں نواز شریف کی انا ہو اس کا نقصان پاکستان کو ہوتا ہے‘ یہ دنیا گلوبل ویلج ہے اور آپ اس ویلج میں لوگوں کو ناراض کر کے اچھی اور باعزت زندگی نہیں گزار سکتے‘ہمیں اپنا رویہ ٹھیک کرنا ہوگا اور یہ کام طارق فاطمی آسانی سے کر سکتے ہیں‘ یہ میاں نواز شریف کو سمجھائیں اگر مصر کے عوام کو السیسی کی صدارت پر کوئی اعتراض نہیں تو ہم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں‘یہ انہیں بتائیں اقوام متحدہ میں امریکا اور مصر دونوں کا ووٹ ایک ہے‘ ہمیں دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی اپنے معاملات درست کرنے چاہئیں‘ہماری وزارت خارجہ کو بھی چاہیے اگر ہمارا کوئی وزیراعظم منہ اٹھا کر کسی وزیر کے دفتر کی طرف چل پڑے تو وزارت خارجہ اسے روکے اور ہماری قومی اسمبلی کو بھی یہ سمجھنا چاہیے ہم اگر دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کرتے رہیں گے تو پھر اس کاوہی نتیجہ نکلے گا جو 17 پاکستانی پچھلے چار ماہ سے نہر سوئیز میں بھگت رہے ہیں‘ پھرمصر جیسے ملکوں کو جہاں کوئی پاکستانی نظر آئے گا یہ اسے خوفناک مثال بنا دیں گے‘ کیا اب بھی ہمارے سنبھلنے کا وقت نہیں آیا‘ کیا ہمیں ابھی مزید جوتوں کی ضرورت ہے۔