”آپ اگر مستقبل دیکھنا چاہتے ہو تو آپ ماضی کا تجزیہ کرو‘ آپ کو آنے والے زمانے کی چاپ سنائی دینے لگے گی“ صاحب نے سگار کا لمبا کش لگایا‘ تمباکو کی خوشبو ڈرائنگ روم کے آبنوسی فرش کی مہلک میں ملی اور فضا نشیلی ہو گئی‘ نومبر کی دھوپ چھن چھن کر اندر آ رہی تھی‘ صاحب نے گلہری کی کھال کے سلیپر اتارے اور اپنے بوڑھے پاﺅں شیر کی کھال پر رکھ دیئے‘ وہ پاﺅں سے کھال کو آہستہ آہستہ سہلا رہے تھے‘ میں نے عرض کیا ”جناب مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی“ وہ مسکرائے‘ سگار کا ایک اور کش لیا‘ نتھنوں سے دھواں نکالا اور بولے ”چلو چھوڑو‘ آپ پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے ماضی کا تجزیہ کرو‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی‘ فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کی اور انہیں پھانسی پر بھی لٹکا دیا‘ بھٹو صاحب کو سزائے موت دی جارہی تھی تو وہ لاکھوں لوگ جو بھٹو کے ایک اشارے پر سڑکوں پر آ جاتے تھے وہ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے‘
وہ لیڈر جو بھٹو کے جوتے صاف کرتے تھے وہ ملک سے فرار ہو گئے اور روس سے چین‘ چین سے عرب دنیا اورعرب دنیا سے لے کر لاطینی امریکا تک دنیا کے وہ سارے لیڈر جو بھٹو کے دوست‘ بھٹو کے بھائی تھے وہ تمام مل کر بھی جنرل ضیاءالحق سے بھٹو کو نہ بچا سکے‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ”ٹرمائل“ سے یہ سبق سیکھاکہ پاک فوج جب کسی پر ہاتھ ڈالتی ہے تو پھر عوام کام آتے ہیں‘ جماعت‘ ساتھی اور نہ ہی عالمی دوست‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے یہ سبق پلے باندھ لیا‘ یہ پارٹی بھٹو کے بعد تین بار اقتدار میں آئی لیکن اس نے کسی دور میں فوج سے ٹکرانے کی غلطی نہیں کی‘ بے نظیر بھٹو کو دو بار اقتدارسے نکالا گیا‘ یہ دونوں مرتبہ سویلین صدور کا نشانہ بنیں‘ انہیں فوج نے اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جبکہ میاں نواز شریف دونوں مرتبہ فوج کے ہاتھوں فارغ ہوئے‘ پہلی مرتبہ جنرل آصف نواز سے اختلافات ہوئے اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے انہیں فارغ کر دیا‘ یہ دوسری مرتبہ جنرل پرویز مشرف کا نشانہ بنے اور یہ تیسری مرتبہ تین بار فارغ
ہوتے ہوتے بچے‘ یہ ہمیشہ فوج کا ٹارگٹ بنتے ہیں‘ یہ ان کا ماضی ہے“ صاحب خاموش ہو گئے۔
وہ دیر تک شیر کی کھال پر پاﺅں رگڑتے رہے‘ میں نے عرض کیا ”اس کی وجہ کیا ہے؟“ صاحب نے چونک کر سر اٹھایااور بولے ”ایٹی چیوڈ‘ رویہ“ میں نے پوچھا ”کیسے؟“ وہ بولے ”یہ فوج کی مدد سے اقتدار میں آتے ہیں لیکن مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دیتے ہیں اور یوں اختلافات شروع ہو جاتے ہیں‘ آپ 1990ءکی مثال لے لو‘ میاں نواز شریف نے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا ‘ آئی جے آئی آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے حکم پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے بنائی تھی‘ جنرل اسد درانی نے باقاعدہ رقمیں تقسیم کی تھیں‘ میاں نواز شریف وزیراعظم بنے اور وزیراعظم بنتے ہی ان کے جنرل اسلم بیگ سے اختلافات شروع ہو گئے‘ میاں صاحب نے ان اختلافات کی بنا پر جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ سے دو ماہ پہلے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو آرمی چیف تعینات کر دیا لیکن چھ ماہ بعد ان کے جنرل آصف نواز سے بھی اختلافات شروع ہو گئے‘ یہ اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ جنرل آصف نے پارٹی کے 35 ارکان اپنے ہاتھ میں لے لئے‘ جنرل آصف نواز میاں نوازشریف کو ہٹا کر بلخ شیر مزاری کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے لیکن یہ ”ان ہاﺅس“ تبدیلی سے پہلے ہی انتقال کر گئے‘ میاں صاحب نے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف بنوایا لیکن اسی جنرل کاکڑ نے چھ ماہ بعد ایوان صدر میں میاں نواز شریف سے استعفیٰ لے لیا‘ جنرل جہانگیر کرامت بھی میاں نواز شریف کے پسندیدہ آرمی چیف تھے لیکن ان کے جنرل جہانگیر کرامت سے بھی اختلافات پیدا ہوئے اور انہوں نے جنرل کرامت سے استعفیٰ لے لیا‘
جنرل پرویز مشرف بھی میاں صاحب کی پسند تھے‘ میاں شریف انہیں بیٹا کہتے تھے لیکن پھراسی جنرل مشرف نے اپنے منہ بولے بھائیوں کو قید میں ڈال دیا‘ جنرل راحیل شریف بھی میاں صاحب کی پسندیدہ شخصیت تھے لیکن ان کے ساتھ بھی ان کے سیریس اختلافات ہوئے‘ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان رابطے تک منقطع ہو گئے ‘ یہ درست ہے جنرل راحیل عمران خان کے دھرنے اور دھرنا پلس میں شریک نہیں تھے لیکن عمران خان اگر 2014ءمیں دس لاکھ لوگ لے آتے یا یہ دو نومبر 2016ءکو اسلام آباد کو لاک ڈاﺅن کردیتے تو کیا آرمی چیف صورتحال سے لاتعلق رہتے؟ اگر نہیں تو پھر کس کو نقصان ہوتا؟ کیا میاں نواز شریف تیسری مرتبہ بھی فوج کا ہدف نہ بن جاتے؟“ صاحب ایک بار پھر خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”جناب میرا سوال یہ تھا‘ فوج اور میاں نواز شریف آپس میں کمفرٹیبل کیوں نہیں ہیں؟“ صاحب نے قہقہہ لگایا‘ سگار سلگایا‘ لمبے لمبے کش لئے اور بولے ”میں بکواس کر چکا ہوں‘ ایٹی چیوڈ‘ رویہ‘ فوج کو میاں نواز شریف کا رویہ پسند نہیں‘ یہ فوج کو پولیس اور آرمی چیف کو آئی جی بنانا چاہتے ہیں‘ یہ جس طرح آئی جی کو جب چاہتے ہیں بلا لیتے ہیں‘ جو چاہتے ہیں حکم دے دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں گھر بھجوا دیتے ہیں‘ یہ آرمی چیف کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنا چاہتے ہیں‘ یہ کور کمانڈرز تک اپنی مرضی کے لگوانا چاہتے ہیں اور یہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں اور یہ فوج کےلئے قابل قبول نہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی سمجھ دار ہے‘
یہ ہر حال میں فوج کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے‘ آصف علی زرداری نے ملک ریاض کو درمیان میں رکھا ہوا تھا‘ ملک ریاض نے ایبٹ آباد آپریشن اور میموگیٹ کے دوران بھی فوج اور زرداری کا رابطہ نہیں ٹوٹنے دیا جبکہ میاں نواز شریف فوج اور اپنے درمیان کوئی رابطہ پیدا نہیں ہونے دیتے‘ ان کا سب سے بڑا رابطہ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار ہوتے ہیں‘ فوج میاں شہباز شریف کے ساتھ بہت کمفرٹیبل ہے لیکن میاں نواز شریف اکثر اوقات شہباز شریف اور چودھری نثار کی فوج سے کمٹمنٹس پوری نہیں کرتے اور یوں یہ واحد رابطہ بھی ٹوٹ جاتا ہے‘ میاں نواز شریف سول حکومت کی ”سپرمیسی“ بھی چاہتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں عوام سیاستدانوں کو اقتدار بھی دیتے ہیں اور اختیار بھی لیکن اختیار فوج لے جاتی ہے اور سیاستدانوں کے پاس صرف اقتدار بچتا ہے‘میاں صاحب اختیار بھی اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اور یہاں سے لڑائی شروع ہو جاتی ہے“۔
وہ رکے‘ سگار بجھایا‘ جیب میں رکھا اور کافی کا مگ اٹھا لیا‘ ان کا کتا ٹہلتا ہوا ڈرائنگ روم میں آیا‘ غور سے انہیں دیکھا اور ان کے پاﺅں کے پاس بیٹھ گیا‘ وہ دوسرے ہاتھ سے اس کے بال سہلانے لگے‘ وہ دوبارہ میری طرف متوجہ ہوئے ”آپ 26 نومبر کی مثال لے لو‘ وزیراعظم نے اس دن نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کوپہلی ملاقات کےلئے بلایا ‘ وزیراعظم اس سے پہلے فوج کے اعلیٰ حکام کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھاتے تھے لیکن یہ اس دن وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے اور دونوں جرنیلوں کو باری باری میز کی دوسری جانب اپنے سامنے بٹھایا‘ یہ وزیراعظم کی طرف سے فوج کو پیغام تھا‘ آئی ایم دی باس‘ میں ہی فائنل اتھارٹی ہوں‘ وزیراعظم کے سٹاف نے میڈیا کو یہ فوٹیج اور تصاویر بھی جاری کیں‘ فوجی حلقوں نے اس پیغام پر برا منایا‘ یہ حلقے اس رویئے کو سول اور ملٹری کے درمیان اختلافات کی نئی اینٹ قرار دے رہے ہیں‘
وزیراعظم کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا‘مجھے خطرہ ہے وزیراعظم آنے والے دنوں میں یہ رویہ دہرائیں گے‘ یہ آرمی چیف کو ”کولڈ شولڈر“ دیں گے اور یہ کولڈ شولڈر حالات کو چند ماہ میں وہاں لے جائے گا جہاں یہ جنرل راحیل شریف کے دور میں تھے اور یوں ایک بار پھر پریس ریلیز اور ٹویٹس کا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ حکومت مائینڈ کرے گی اور جواب میں دھرنے چل پڑیں گے“ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”جناب کیا وزیراعظم باس نہیں ہیں اور کیا انہیں آرمی چیف کے سامنے کرسی پربیٹھنے کی اجازت بھی نہیں؟“ صاحب نے قہقہہ لگایا‘ تھوڑی دیر سوچا اور بولے ”یس ہی از دی باس لیکن باس کو یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے‘ فوج ملک کی سب سے بڑی سٹیک ہولڈر ہے اور آپ خواہ میاں شہباز شریف یا حسین نواز کو آرمی چیف بنا دیں‘ فوج کبھی اپنے سٹیک پر کمپرومائز نہیں کرے گی‘ یہ کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی‘ پاکستان پیپلز پارٹی یہ نقطہ سمجھ چکی ہے اور اب میاں نواز شریف کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے“ میں نے عرض کیا ”لیکن سر یہ کب تک چلے گا“ صاحب نے قہقہہ لگایا‘ جاسوسوں کے انداز میں آگے جھکے اور آہستہ آواز میں بولے ”2030ءتک اسی طرح چلے گا‘ حکومت کو اقتدار کے ساتھ اختیار کےلئے مزید 14 سال انتظار کرنا ہو گا“۔