جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

نہ دن ہوتے ہیں اور نہ راتیں

datetime 29  اکتوبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

امریکیوں کی دو عادتیں حیران کن ہیں‘پلاننگ اور یکجہتی‘ یہ مستقبل کی پچاس سال پہلے پلاننگ کرلیتے ہیں‘ آپ دوسری جنگ عظیم کے بعد کازمانہ دیکھ لیجئے‘ دنیا جنگ عظیم کے بعد مکان‘ فیکٹریاں‘ ریستوران‘ ہوٹل اور کلب بنا رہی تھی جبکہ امریکا نے پچاس ریاستوں کو آپس میں ملانے کےلئے ”ہائی ویز“ بنانا شروع کر دیئے‘ آپ کمال دیکھئے‘ دنیا کی سب سے بڑی ہائی وے اس وقت امریکا میں ہے‘ یہ ہائی وے 48 ہزار کلو میٹر لمبی ہے‘ یہ شمالی اور جنوبی امریکا کے تمام بڑے شہروں‘ ریاستوں اور ملکوں کو آپس میں ملاتی ہے‘ یہ موٹروے پین امریکن ہائی وے کہلاتی ہے اور یہ امریکا کی 50 ریاستوں کو لاطینی امریکا کے 15ممالک سے جوڑتی ہے‘ یہ ہائی وے دوسری جنگ عظیم کے بعد 1950ءمیں شروع ہوئی‘ دنیا کی تمام قوموں نے اس منصوبے کو پاگل پن قرار دیا لیکن امریکا اس پاگل پن پر ڈٹا رہا یہاں تک کہ جب یورپ نے 25 ممالک کو آپس میں جوڑنے کا فیصلہ کیا تو امریکا کواس وقت پورے براعظم کو جوڑے ہوئے 30سال ہو چکے تھے اور جب چین نے اقتصادی راہ داری شروع کی تو پین امریکن ہائی وے کو مکمل ہوئے 70برس گزر چکے تھے‘آپ امریکی پلاننگ کی دوسری مثال لیجئے‘ امریکا نے1950ءہی میں پورے ملک میں پارکنگ ایریاز اور پارکنگ پلازہ بنانا شروع کر دیئے‘ یہ وہ زمانہ تھا جب بڑے شہروں میں پچاس ساٹھ سے زائد گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں‘

نیویارک شہر میں اس وقت اڑھائی ہزار گاڑیاں تھیں‘ سڑکیں بھی سنگل تھیں ‘ ٹریفک سگنل بھی نہیں تھے اور گاڑیوں کی سپیڈ بھی تیس کلو میٹر فی گھنٹہ تھی لیکن امریکی حکومت نے اس وقت ملک بھر میں پارکنگ پلازہ بھی بنانا شروع کر دیئے اور یہ قانون بھی بنا دیا تمام کمرشل بلڈنگز اور فلیٹس پلازوں میں پارکنگ ضرور ہو گی‘ دنیا نے اس وقت بھی امریکا کا مذاق اڑایا لیکن آج جب پوری دنیا ٹریفک اور پارکنگ کے خوفناک بحران کا شکار ہے‘ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس میں یہ مسائل صرف مسائل ہیں‘ یہ بحران نہیں بنے‘ امریکا کے ہر شخص کو پارکنگ بھی ملتی ہے اور نوے فیصد ملک میں ٹریفک بھی بلاک نہیں ہوتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ وژن ہے‘ امریکا نے 70 سال قبل یہ جان لیا تھا ٹریفک‘ پارکنگ اور ہائی ویز اکیسویں صدی کے بڑے مسائل ہوں گے چنانچہ اس نے 1950ءمیں ان پر کام شروع کیا اور باقی دنیا سے پہلے ان مسائل کا مستقل حل نکال لیا۔
آپ اب یکجہتی کی طرف آئیے‘ امریکا دو سمندروں بحرالکاہل اوربحراوقیانوس کے درمیان واقع ہے‘ یہ دونوں سمندر ہر سال درجنوں خوفناک سونامی اور طوفان پیدا کرتے ہیں‘ یہ طوفان امریکا کی پانچ پانچ ریاستوں کو ہلا دیتے ہیں لیکن یہ طوفان امریکیوں کو زیادہ جانی نقصان نہیں پہنچا پاتے‘ کیوں؟ وجہ بہت دلچسپ ہے‘ امریکا نے دو سو سال قبل جان لیا‘ قدرتی آفتیں قدرتی ہوتی ہیں‘ یہ تمام انسانوں کےلئے ہوتی ہیں اور جب تک تمام انسان ان آفتوں کے خلاف اکٹھے نہ ہوں ان سے نبٹنا ممکن نہیں ہوتا چنانچہ امریکی حکومت نے آفتوں کے مقابلے کےلئے پوری قوم کو ون یونٹ بنانا شروع کر دیا‘ امریکی محکمہ موسمیات جب کسی ریاست یا شہر میں طوفان کی پیش گوئی کرتے ہیں تو حکومت سب سے پہلے اس طوفان کا نام رکھتی ہے‘ آپ نے قطرینہ ‘سینڈی اورریٹا سنے ہوں گے‘ یہ کیا ہیں‘ یہ طوفان اور سونامیوں کے نام ہیں اور یہ نام امریکیوں نے ان کے آنے سے پہلے رکھ دیئے تھے‘ امریکا یہ نام میڈیا میں جاری کر دیتا ہے اور میڈیا انہیں گھر‘ گھر پہنچا دیتا ہے یوں پوری قوم اس عفریت سے نبٹنے کےلئے اکٹھی ہو جاتی ہے اور یہ وہ اپروچ ہے جس کی وجہ سے امریکا دنیا میں قدرتی آفات میں سب سے کم جانی نقصان اٹھانے والا ملک ہے‘قطرینہ امریکا کی تاریخ کاپانچواں خوفناک ترین طوفان تھا‘ یہ طوفان اگست 2005ءمیں آیا‘ سات ریاستوں کے ڈیڑھ سو شہر اور قصبے متاثر ہوئے‘108 ارب ڈالر کا نقصان ہوا لیکن اموات صرف1836تھیں‘ کیوں؟ کیونکہ لوگ آفت کےلئے تیار تھے‘ آپ

11 ستمبر2001ءکے واقعے کو بھی لے لیجئے‘ امریکا نے اس واقعے کو نائین الیون کا نام دیا‘ ملک کے اندر اور باہر اتنی پبلسٹی کی کہ پوری دنیا سول ایوی ایشن کے رولز اور اپنی طرز رہائش بدلنے پر مجبور ہو گئی۔
یہ مسائل سے نبٹنے کا امریکی انداز ہے‘ ہم پاکستانی یہ انداز مس کر رہے ہیں‘ ہم لوگ مسائل کو وقت سے پہلے دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی ان کے حل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ ہم مسائل کے خلاف اکٹھے بھی نہیں ہوتے چنانچہ ہمارے مسائل بحران بنتے رہتے ہیں اور یہ بحران مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں‘ ہم نے سوچے سمجھے بغیر 1970ءکی دہائی میں افغان وار میں چھلانگ لگا دی تھی‘ امریکا نے اس جنگ کو جہاد قرار دیا‘ ہم نے مان لیا‘ امریکا نے ہتھیار اور ڈالر دیئے‘ ہم نے لئے‘ امریکا نے ملک بھر سے مجاہد بھرتی کرنے کا حکم دیا‘ ہم نے ہر نوجوان کے ہاتھ میں رائفل پکڑا دی اور امریکا نے افغان مہاجرین کو پناہ دینے کا اشارہ کیا‘ ہم نے اپنی سرحدیں کھول دیں‘ ہم نے اس وقت ایک لمحے کےلئے نہیں سوچا یہ جنگ جب پاکستان میں داخل ہو گی تو ہم اس سے کیسے نبٹےں گے‘ امریکا جب پیچھے ہٹ جائے گا تو ہم پچاس لاکھ مہاجرین کو کہاں سے کھلائیں گے‘ یہ جنگ جب ہماری ثقافت کو متاثر کرے گی تو ہم اس کے اثرات سے کیسے نکلیں گے‘ ہم آج جن لوگوں کو ٹرینڈ کر رہے ہیں ہم ان سے اسلحہ کیسے واپس لیں گے اور ہم جس امریکی جنگ کو ”جہاد“ اور جس نظریہ ضرورت کو اسلام قرار دے رہے ہیں ہم اس سے جان کیسے چھڑائیں گے؟ یہ سارے سوال 1990ءمیں سانپ بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہمارے پاس ان لوگوں کو افغان وار کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ”پارک“ کرنے کے سوا کوئی آپشن نہ بچا‘ ہم نے یہ آپشن اڈاپٹ کیا اور یہ ہماری دوسری غلطی تھی‘ پھر نائین الیون ہو گیا اور ہم نے غلطیوں کی ماں سے شادی کر لی‘ ہم نے 30 سال کی تاریخ کو ”ری ورس“ کر دیا‘ ہم نے اپنے پیدا کردہ افغان مجاہدین کو دہشت گرد بھی قرار دے دیا اور ان کے خلاف امریکا کے اتحادی بھی بن گئے‘ ہم نے اس ”ری ورسل“ کے وقت بھی یہ نہیں سوچا تھا دوست جب دشمن بنتے ہیں تو یہ نسلیں تباہ کر دیتے ہیں اور پھر ہماری نسلیں تباہ ہوئیں‘ جنرل پرویز مشرف نے دوسری خوفناک غلطی کشمیری جہاد کے خاتمے کی شکل میں کی‘ اس غلطی کے دو انتہائی خطرناک نتائج نکلے‘ کشمیر کےلئے جانیں دینے والوں کو محسوس ہوا ”ہم استعمال ہوتے رہے تھے اور ہم جب استعمال ہو چکے تو ہمیں مونگ پھلی کے چھلکے کی طرح پھینک دیا گیا“یہ احساس ملک کو دو ایسے خوفناک دشمنوں کے نرغے میں لے گیا جو کبھی ہمارے ”قومی اثاثے“ ہوتے تھے‘ہمارے ایک طرف افغان مجاہدین تھے اور دوسری طرف کشمیری

مجاہدین۔ دوسرا نتیجہ سفارتی تھا‘ جنرل مشرف کے ایک اعلان سے افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں امن ہو گیا جس کے بعد دنیا نے اس افغان اور بھارتی لیڈر شپ پر یقین کرلیا جو مسلسل یہ کہتی تھی خطے میں دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے پاکستان ہوتا ہے‘ دنیا نے اس یقین کے بعد ”ڈو مور‘ ڈومور“ کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اب بھارت اور افغانستان میں سائیکل کا ٹائر بھی پھٹے تو پوری دنیا ہمیں شک کی نظروں سے دیکھنے لگتی ہے اور دنیا اس میں بجا بھی ہے‘ دنیا کو اس نہج تک ہم خود لائے ہیں‘ دنیا کے اس پرسیپشن نے ہمیں سفارتی تنہائی میں دھکیل دیا‘ ہم اکیلے ہوتے چلے گئے۔
ہم کوئٹہ جیسے واقعات پر دل گرفتہ ہو جاتے ہیں‘ ہم سو پچاس لاشیں اٹھاتے وقت سنجیدہ بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ سنجیدگی چند دن قائم رہتی ہے اور پھر ہم ہوتے ہیں اور شہر آرزو ہوتا ہے‘ آرزوﺅں کا یہ شہر اگلے واقعے تک آباد رہتا ہے‘ پھر ایک اور واقعہ ہوتا ہے اور ہم دوبارہ گریہ و زاری شروع کر دیتے ہیں‘ گریہ و زاری اور غیر سنجیدگی کا یہ سلسلہ کب تک چلے گا‘ ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہوگا‘ ہمیں ماننا ہوگا ہم پلاننگ کر رہے اور نہ پوری قوم کو تیار کر رہے ہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا یہ مائینڈ سیٹ کی جنگ ہے اور یہ ایک آدھ سال میں ختم نہیں ہو گی‘ ہمیں کم از کم دس سال لڑنا ہوگا‘ ہمیں ملک میں ایمرجنسی بھی ڈکلیئر کرنا ہو گی‘ہمیں ملک کے تمام حساس مقامات کی سیکورٹی کے ”ایس او پیز“ بھی بنانا ہوں گے‘ہمیں سیکورٹی کو نصاب کا حصہ بھی بنانا ہوگا‘ہمیں سیکورٹی گارڈز پرائیویٹ ہوں یا سرکاری ان کو ٹریننگ بھی دینا ہو گی‘ہمیں لڑنے والی پولیس اور ایف آئی آر والی پولیس کو بھی الگ الگ کرنا ہوگا‘ ہمیں بڑے شہر ملٹری پولیس کے حوالے کرنا ہوں گے‘ہمیں مذہب کو افراد تک محدود کرنا ہوگا اور ہمیں سول اور ملٹری کی خلیج مکمل ختم کرنا ہوگی۔ہمیں یہ بھی ماننا ہو گاہم نے 40 سال پلاننگ کے بغیر گزار دیئے‘ ہم نے اگر اب بھی منصوبہ بندی نہ کی اور ہم نے اگر اب بھی پوری قوم کو تیار نہ کیا تو ہم تیاری کے قابل رہیں گے اور نہ ہی منصوبہ بندی کے‘ کیوں؟ کیونکہ قدرت بے حس قوموں سے دن بھی چھین لیتی ہے اور راتیں بھی چنانچہ ہمیں اپنے دشمن امریکا سے سیکھنا ہوگا‘ ہمیں ماننا ہوگا دشمن انسان کا بہترین استاد ہوتا ہے اور ہم امریکا کے پیدا کردہ مسائل کو امریکی اپروچ ہی سے حل کر سکتے ہیں اور وہ اپروچ ہے یکجہتی اور پلاننگ۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…