وہ مڑے‘ مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا ”ہاں کیا پوچھنا چاہتے ہو“ میں نے پوچھا ”آپ لوگ ستمبر میں کیا کرنا چاہتے ہیں“ قہقہہ لگا کر جواب دیا ”یہ مہینہ میاں برادران کےلئے بلیک ستمبر ثابت ہوگا“ وہ واپس مڑے اور روانہ ہو گئے‘ میرے یہ دوست سینٹ آف پاکستان کا حصہ ہیں‘ یہ مختلف طاقتوں کے درمیان رابطہ کار بھی ہیں‘یہ سرگوشیاں کرتے رہتے ہیں اور ان کی اکثرسرگوشیاں سچ ثابت ہو جاتی ہیں‘ ان کی ”بلیک ستمبر“ کی سرگوشی بھی سیریس تھی‘ یہ مہینہ میاں برادران اور عمران خان دونوں کے سیاسی مقدر کا فیصلہ کرے گا لیکن ستمبر میں ہو گا کیا؟ ہمیں جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ ماننا ہو گا پانامہ لیکس طوطا ہے اور اس طوطے میں میاں نواز شریف کی سیاسی روح ہے‘ ہم فرض کر لیتے ہیں میاں نواز شریف پانامہ لیکس پر تحقیقات کےلئے کمیشن بنا دیتے ہیں‘ اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ یقینا پھنس جائیں گے‘ یہ کسی بھی طرح لندن کی پراپرٹی کو جسٹی فائی نہیں کر سکیں گے‘ میاں صاحبان نے یہ فلیٹس 1990ءکی دہائی کے شروع میں خریدے تھے‘ یہ حقیقت ہے اور یہ حقیقت کمیشن کی ابتدائی سماعتوں ہی میں کھل جائے گی‘ میاں برادران نے فلیٹس کےلئے رقم قانونی ذرائع سے لندن نہیں بھجوائی تھی‘ یہ حقیقت بھی چند سماعتوں میں سامنے آ جائے گی اور میاں نواز شریف نے مریم نواز کو ”ڈی پینڈنٹ“ قرار دے کر بھی غلط بیانی کی اور یہ حقیقت بھی شروع ہی میں آشکار ہو جائے گی چنانچہ میاں نواز شریف پھنس جائیں گے‘ آپ اب دوسرا آپشن دیکھئے‘یہ جوڈیشنل کمیشن نہیں بناتے‘ یہ معاملے کویونہی لٹکاتے چلے جاتے ہیں یا پھر اپنی مرضی کا ڈھیلا ڈھالا کمیشن بنا دیتے ہیںاور یہ کمیشن وزیراعظم کو طلب نہیں کرتا‘ یہ صرف وزیراعظم کے بچوں سے تحقیقات کرتا ہے تو کیا ہوگا؟ میاں نواز شریف پھر بھی پھنس جائیں گے‘ اپوزیشن سڑکوں پر دباﺅ بڑھاتی چلی جائے گی‘ شور شرابے میں اضافہ ہو گا یہاں تک کہ فوج اور سپریم کورٹ مداخلت پر مجبور ہو جائیں گی‘ یہ کمیشن بنوا دیں گی اور وہ کمیشن زیادہ خوفناک ثابت ہوگا‘ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں‘ کمیشن وزیراعظم کا ہو یا فوج اور سپریم کورٹ کایہ کرے گا کیا؟ اور میاں نواز شریف کو اس سے کیا خطرہ ہے؟ یہ کمیشن وزیراعظم پر منی لانڈرنگ کی فردجرم عائد کر سکتا ہے جس کے بعد میاں صاحب کی اہلیت چیلنج ہو جائے گی یوں یہ ”ڈس کوالی فائی“ ہو جائیں گے‘ یہ ”ڈس کوالی فکیشن“ کے بعد 2018ءکا الیکشن نہیں لڑ سکیں گے اور یہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا حتمی مقصد ہے‘ کیوں؟
ہم اب کیوں کا جواب تلاش کرتے ہیں‘ ہمیں یہاں چند مزید حقیقتیں بھی ماننا ہوں گی‘ ہمیں یہ ماننا ہو گا میاں نواز شریف کو الیکشنوں کے ذریعے فارغ نہیں کیا جا سکتا‘ یہ 1980ءسے انتخابی سیاست کا حصہ ہیں‘ یہ گزشتہ 35 برسوں میں انتخابی سیاست کے ایکسپرٹ ہو چکے ہیں‘ یہ حلقوں بالخصوص پنجاب کے انتخابی حلقوں کی ”دائی“ ہیں‘ یہ جانتے ہیں پنجاب کے کس حلقے میں کون سی برادری مضبوط ہے‘ حلقے کا کتنا حصہ دیہی ہے اور کتنا شہری اور ہم نے جیتنے کےلئے کس کو ٹکٹ‘ کس کو تھپکی‘ کس کو لارا اور کس کو دھمکی دینی ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ دیکھ لیجئے میاں نواز شریف 7سال جلا وطن رہے‘ یہ25 نومبر 2007ءکو واپس آئے‘ ان کے پاس نام فائنل کرنے کےلئے صرف چند دن تھے‘ یہ ان چند دنوں میں امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں اور نہ صرف پنجاب میں172(114 جنرل نشستیں‘ 24 آزاد امیدوار‘30خواتین کی مخصوص نشستیں اور چار اقلیتی نشستیں) اور وفاق میں69 سیٹیں لے لیتے ہیں بلکہ یہ پنجاب میں حکومت بنا لیتے ہیں اور وفاق میں اپوزیشن بن جاتے ہیں‘ کیسے؟ آپ یہ نقطہ بھی ملاحظہ کیجئے‘ عمران خان نے 2014ءکے دھرنے کے دوران حکومت کی انا‘ اعتماد اور ہیوی مینڈیٹ تینوں روند کر رکھ دیئے‘ عوام کے دل میں 2013ءکے الیکشنوں کے بارے میں واقعی شکوک شبہات پیدا ہوگئے لیکن میاں نواز شریف اس کے باوجود ہر ضمنی الیکشن جیت گئے‘ آزاد کشمیر میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حیران کن فتح نے پارٹی تک کو حیران کر دیا‘ میاں نواز شریف نے یہ الیکشن حمزہ شہباز کی جادوگری کے بغیر جیت کر خاندان کوبھی یہ پیغام دے دیا ”لیڈر بہرحال میں ہی ہوں“۔ دوسرا ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گا حکومت کام کر رہی ہے‘ مالیاتی ذخائر میں ریکارڈ اضافہ ہوا ‘ لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی میں کمی آئی اور ترقیاتی کام بھی ہو رہے ہیں‘ یہ سارے منصوبے الیکشن سے پہلے مکمل ہو جائیں گے چنانچہ میاں نواز شریف 2018ءمیں زیادہ اکثریت سے جیت جائیں گے اور یہ سندھ میں فنکشنل لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیں گے‘ بلوچستان میں بھی ان کی حکومت ہو گی اور یہ خیبر پختونخواہ میں بھی جے یو آئی اور اے این پی کے ساتھ مشترکہ حکومت بنائیں گے یوں میاں نواز شریف سیاسی ایٹمی طاقت بن جائیں گے اور اگر یہ ہوگیا تو کس کو نقصان ہو گا؟ یقینا پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف اور جنرل پرویز مشرف کے ساتھی یہ تینوں نقصان اٹھائیں گے اور یہ وہ بقائے باہمی ہے جس کی وجہ سے یہ تینوں اکٹھے ہیں‘ اب سوال یہ ہے ان تینوں کے پاس کیا آپشن بچتے ہیں؟ آپشن صرف ایک ہے‘ میاں نواز شریف کی ”ڈس کوالی فکیشن“۔ یہ 2018ءکا الیکشن نہ لڑ سکیں‘ پارٹی تقسیم ہو جائے‘ بڑا حصہ ٹوٹ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو جائے‘ بلوچستان کی پارٹیاں بلوچ پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں‘ یہ اپنی حکومت بنا لیں‘ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نئی پیپلز پارٹی سامنے آ جائے‘ یہ فنکشنل لیگ اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ مل کر سندھ میں حکومت بنا لے‘ کے پی کے میں جے یو آئی ف‘ جماعت اسلامی اور اے این پی کا اتحاد ہو جائے اور پنجاب کے مسلم لیگی ایک بار پھر چودھری صاحبان کی قیادت میں آ جائیں اور یوں جنرل پرویز مشرف کا دور واپس آ جائے‘ لوڈ شیڈنگ ختم ہو لیکن کریڈٹ ”پاکستان زندہ باد“ کو چلا جائے‘ اقتصادی راہ داری بنے لیکن نعرہ ملکی سا لمیت کی قسم کھانے والوں کے حق میں لگے اور دہشت گردی کا خاتمہ‘ بھارت کے ساتھ تعلقات اور معیشت کی بحالی کے کارنامے ہوں لیکن یہ کارنامے بھی سیاسی حکومتوں کے نامہ اعمال میں درج نہ ہوسکیں۔
ہم اب آتے ہیں اس سکیم کی کامیابی کے امکانات کی طرف! مجھے خطرہ ہے یہ سکیم کامیاب ہو جائے گی‘ میاں نواز شریف اگر یہ سوچ رہے ہیں‘ یہ اکتوبر میں نئے آرمی چیف کا اعلان کر دیں گے اور یوں الجھے دھاگے سلجھ جائیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے‘ یہ نومبر میں اگر میاں شہباز شریف کو بھی آرمی چیف بنا دیں تو بھی فیصلے جوں کے توں رہیں گے‘ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے بعد کوئی بھی چیف جسٹس آ جائے عدلیہ کے فیصلے میرٹ پر ہی ہوں گے اور میرٹ کا نقصان بہرحال میاں نواز شریف کو ہوگا‘ میاں نواز شریف کے پاس بحرانوں کے اس طوفان میں صرف ایک لائف بوٹ بچی ہے اور یہ لائف بوٹ ہے ان کی قسمت‘ لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن میاں نواز شریف سونے کی دیگ لے کر دنیا میں آئے ہیں‘ قدرت بحرانوں میں ہمیشہ انہیں ”آﺅٹ آف دی وے“ سپورٹ دیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنا استثنیٰ کا ووٹ ہمیشہ ان کے حق میں کاسٹ کیا‘ آپ میاں نواز شریف کی خوش قسمتی ملاحظہ کیجئے‘ فوجی بغاوت ترکی میں ناکام ہوئی لیکن فائدہ میاں نواز شریف کو پاکستان میں ہوگیا‘ عمران خان 7 اگست کو مارچ کرتے ہوئے اٹک کے پل تک آتے ہیں اور اگلے دن کوئٹہ میں 73 وکلاءشہید ہو جاتے ہیں‘ پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک بننے لگتا ہے لیکن بلاک کے سامنے آنے سے پہلے ہی پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں تاریخی فتح حاصل کر لیتی ہے اور ایم کیو ایم اسمبلیوں میں کھڑے ہو کر مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتی ہے جس کے بعد عمران خان کےلئے استعفے دے کر حکومت کو جنرل الیکشن پر مجبور کرنا آسان ہو جاتا لیکن عین وقت پر الطاف حسین کے منہ سے پاکستان کے خلاف نعرہ نکل جاتا ہے اور ایم کیو ایم الطاف حسین سے اظہار لاتعلقی پر مجبور ہو جاتی ہے‘ کیا یہ میاں نواز شریف کی خوش نصیبی نہیں؟ یہ واقعی خوش نصیب انسان ہیں‘میرا خیال ہے یہ اگر اسی طرح خاموش بیٹھے رہے‘ انہوں نے 12 اکتوبر 1999ءکی تاریخ نہ دہرائی‘ سپریم کورٹ کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ نہ کی‘ پنجاب پولیس پر بھی کنٹرول رکھا اور لاہور میں کسی کو گلوبٹ نہ بننے دیا تو یہ ایک بار پھر بچ جائیں گے لیکن اگر ان سے کوئی ایک غلطی ہو گئی حتیٰ کہ انہوں نے چودھری نثار کی وزارت ہی تبدیل کر دی تو یہ ستمبر ان کےلئے حقیقتاً بلیک ستمبر بن جائے گا اور پھر صرف یہ نہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ڈس کوالی فائی ہو جائے گا۔