ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ماضی کی غلطیاں ٹی بی کے مرض کی طرح ہوتی ہیں‘ یہ جب قابل علاج ہوتی ہیں تو مریض ان کے وجود سے بے خبر ہوتے ہیں لیکن جب ان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں تو یہ ناقابل علاج ہو چکی ہوتی ہیں اور ہمارا ماضی سیاسی غلطیوں کا بدبودار کچرہ گھر ہے‘ ہم نے 70 برسوں میں تسلسل کے ساتھ صرف ایک کام کیا اور وہ کام ہے غلطیاں چنانچہ آج ہمارے گرد غلطیوں کی فصل لہلہا رہی ہے اور ہم جھاڑیوں میں پھنسی ہدہد کی طرح تڑپ رہے ہیں۔
ہمیں ماننا ہو گا ہم نے 1960ءمیں امریکا کے نکاح میں جا کر غلطی کی‘ ہمیں نیوٹرل رہنا چاہیے تھا‘ہم نے امریکا کا دوست بن کر کمیونسٹ بلاک کو ناراض کر دیا اور ہم سے کمیونسٹوں نے جی بھر کر اس غلطی کا بدلہ لیا‘ ہمیں ماننا ہو گا ملک میں ایوب خان کا مارشل لاءغلط تھا‘ فوج کواقتدار میں نہیں آنا چاہیے تھا‘ سیاست دان خواہ لڑتے رہتے‘ حکومتیں خواہ گرتی‘ بنتی اور ٹوٹتی رہتیں لیکن فوج کو لاتعلق رہنا چاہیے تھا‘ یہ لڑائیاں آخر کار سیٹل ہو جاتیں‘ سیاست کے گندے انڈے ٹوٹ جاتے یا گھونسلے سے باہر گر جاتے اور یوں نظام پاک ہو جاتا مگر فوج نے مداخلت کر کے تطہیر کی اس قدرتی ندی کو بدبودار جوہڑ بنا دیا اور اس جوہڑ سے آج تک نالائقی‘ مفاد پرستی‘ جہالت اور فرقہ واریت کی بوکے علاوہ کچھ نہیں نکلا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ایوب خان اگر سویلین حکمران بن رہے تھے تو ہمیں انہیں بننے دینا چاہیے تھا‘ سیاستدان ایوب خان بہرحال فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہزار درجے بہتر ہوتا لیکن ہمارے سیاستدانوں نے عوامی تحریکیں چلا کر اسے دوبارہ فوجی بنا دیا اور وہ جاتے جاتے ملک کو انتقاماً جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر گئے اور جنرل یحییٰ خان نے آدھا ملک شراب کے گلاس میں ڈبو دیا‘ ہمیں ماننا ہو گا ہم نے حمود الرحمان رپورٹ پر عمل نہ کر کے اپنے ساتھ غداری کی‘ ہم نے اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کو سزا دی ہوتی تو ملک میں 1973ءمیں احتساب کا سسٹم بن جاتا اور یہ سسٹم اب تک ملک دشمن عناصر کو فلٹر آﺅٹ کر چکا ہوتا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ذوالفقار علی بھٹو پہلے حکمران تھے جنہوں نے افغانستان اور بلوچستان میں مداخلت کی‘ بھٹو صاحب نے میجر جنرل نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں افغان ٹریننگ سیل بنایا‘ اس سیل نے افغانستان کے پروفیسروں کو پاکستان میں عسکری ٹریننگ دی‘ برہان الدین ربانی اور گلبدین حکمت یار اسی سیل کی پیداوار ہیں‘ یہ لوگ آگے چل کر افغانستان میں ”اسلامی انقلاب“ کی بنیاد بنے اور یوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرت شروع ہو گئی‘ بھٹو صاحب کو بلوچستان میں فوجی آپریشن بھی نہیں کرنا چاہیے تھا‘ انہیں صنعتوں‘ تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور کارپوریشنوں کو قومیانے کی غلطی بھی نہیں کرنی چاہیے تھی‘ یہ سول ڈکٹیٹر بھی نہ بنتے‘ یہ الیکشن میں دھاندلی بھی نہ کراتے اور یہ اگر سیاسی مخالفوں کے گرد گھیرا تنگ نہ کرتے اور یہ لوگ جان بچانے کےلئے فوج کو دعوت نہ دیتے تو آج ملک کی تاریخ مختلف ہوتی‘ جنرل ضیاءالحق کو بھی مارشل لاءنہیں لگانا چاہیے تھا‘ یہ بھی سیاستدانوں کو لڑنے دیتے‘ یاستدان لڑ لڑ کر تھک جاتے اور یوں نظام صاف ہو جاتا اور اگر جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءلگا لیا تھا تو انہیں بھٹو کو پھانسی نہیں دینی چاہیے تھی‘ انہیں اپنے اقتدار کےلئے اسلام کا لبادہ بھی نہیں اوڑھنا چاہیے تھا‘ انہیں امریکا اور روس کی جنگ کو جہاد بھی ڈکلیئر نہیں کرنا چاہیے تھا اور انہیں ملک کو افغان جنگ میں بھی نہیں دھکیلنا چاہیے تھا‘ انہیں اپنے اقتدار کےلئے ملک میں شیعہ سنی اور مہاجر مقامی کی تقسیم بھی پیدانہیں کرنی چاہیے تھی‘ انہیں امریکا کےلئے ایران میں چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کرنی چاہیے تھی اور انہیں خالصتان موومنٹ کا والد بھی نہیں بننا چاہیے تھا۔
ہمیں ماننا ہو گا پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاسی لڑائیاں بھی غلطیاں تھیں‘ بے نظیر اور نواز شریف کو نہیں لڑنا چاہیے تھا‘ غلام اسحاق خان کو بار بار اسمبلیاں نہیں توڑنی چاہیے تھیں اور میاں نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کے خلاف صدر فاروق احمد لغاری کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے تھا‘ میاں نواز شریف کو ہیوی مینڈیٹ بھی ہضم کر لینا چاہیے تھا‘ میں میاں نواز شریف کو 12 اکتوبر 1999ءکا ذمہ دار سمجھتا ہوں‘ یہ اگر فوج کے ساتھ اختلافات کو حد سے نہ بڑھنے دیتے تو جنرل پرویز مشرف کبھی مارشل لاءنہ لگا پاتے‘ یہ میاں نواز شریف تھے جن کی غلطیوں نے فوج کو اقتدار کا راستہ دکھایا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا فوج نے جنرل پرویز مشرف پر اعتماد کر کے غلطی کی تھی‘ یہ غلطی حالات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی‘ جنرل مشرف کو بھی مشرقی معاشرے کو ایک رات میں مغربی بنانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی‘ یہ پاکستان کو امریکا کی جھولی میں گرانے سے پہلے امریکا کی دوسری کال کا انتظار کر لیتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے‘ جنرل مشرف نے کرپٹ ترین سیاستدانوں کو پاکستان مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے بھی غلطی کی‘ جنرل مشرف نے طالبان اور القاعدہ کو چھیڑ کر بھی غلطی کی‘ یہ اپنا ایک ہاتھ امریکا اور دوسرا ہاتھ گڈ طالبان کو پکڑا کر بھی غلطی کرتے رہے‘ افتخار محمد چودھری اور لال مسجد پر حملہ بھی ان کی سنگین غلطیاں تھیں‘ ہمیں ماننا ہو گا پاکستان تحریک طالبان نے ان غلطیوں کی کوکھ سے جنم لیا تھا اور یہ غلطیاں آج تک بچے دے رہی ہیں‘ میاں نواز شریف نے 2008ءمیں آصف علی زرداری کے ساتھ کولیشن گورنمنٹ بنا کر غلطی کی اور وہ کولیشن چھوڑ کر اس سے بھی بڑی غلطی کی ‘ ہماری سیاستی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کے ذریعے بھی ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا‘ ہم نے صوبوں کو وہ بھی دے دیا جس کی انہیں ضرورت تھی اور نہ ہی تمنا‘ ہم نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ دبا کر بھی غلطی کی‘ ہمیں ایبٹ آباد واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے تھا۔
میاں نواز شریف نے وزیراعظم بن کر بھی غلطی کی‘ یہ اگر آصف علی زرداری کی طرح کسی دوسرے کو وزیراعظم بنا دیتے‘ یہ خود صدر بن جاتے یا پھر پارٹی صدر کی حیثیت سے فیصلے کرتے تو آج حالات مختلف ہوتے‘ انہیں عمران خان کے مطالبے پر چار حلقے بھی کھول دینے چاہیے تھے اور پانامہ لیکس پر کمیشن بھی بنا دینا چاہیے تھا‘ عمران خان نے بھی دھرنوں کی سیاست کی شکل میں بے شمار غلطیاں کیں‘ یہ غلطیاں آج ان کے اپنے پیروں کی بیڑیاں بن رہی ہیں اور ملک کے دو صوبوں نے اپنے لئے غلط وزراءاعلیٰ منتخب کئے‘ یہ بھی غلطیاں تھیں اور یہ ان ہزاروں غلطیوں کا نتیجہ ہے آج ملک ٹی بی کا خوفناک مریض بن چکا ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ہم نے آج بھی غلطیوں کا سلسلہ بند نہیں کیا‘ ہمیں ماننا ہو گا فوج اور حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کی خوفناک دیوار موجود ہے‘ فوج میاں نواز شریف کو تشویش سے دیکھ رہی ہے اور میاں نواز شریف کو حکومت کے خلاف تمام سازشوں کی جڑیں بیرکوں میں پیوست نظر آتی ہیں‘ بھارت اور افغانستان ہمارے ملک میں مداخلت کر رہے ہیں‘ فوج اس مداخلت سے لڑ رہی ہے لیکن حکومت نریندر مودی اور اشرف غنی سے رابطے میں ہے‘ ہمیں ماننا ہوگا ہمارے پاس آج بھی گڈ طالبان کے لشکر موجو ہیں‘ اپوزیشن کو چودھری نثار اور میاں شہباز شریف اچھے نہیں لگتے اوریہ دونوں آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور خورشید شاہ کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے‘ ہمیں ماننا ہو گا ہم نے 1980ءسے ملک میں ”نادرا“ کے علاوہ کوئی نیا قومی ادارہ نہیں بنایا‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پولیس سے لے کر عدلیہ تک پورا نظام بیمار ہو چکا ہے‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا ملک پر عسکری اور سیاسی دونوں قسم کی ڈکٹیٹر شپ کے سائے منڈلا رہے ہیں اور ہم نے ملک کو فوجی ڈکٹیٹروں سے بھی بچانا ہے اور سویلین آمروں سے بھی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں ڈکٹیٹر ملک کےلئے آخری ہتھوڑا ثابت ہوں گے‘ ہمیں ماننا ہو گا ہماری سیاسی جماعتیں بھی انتشار کا شکار ہیں اور عوام بھی‘ ہمیں ماننا ہوگا ہم بری طرح سیاسی‘ سفارتی‘ معاشرتی اور مذہبی کنفیوژن کا شکار ہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہم اس وقت تک حالات کو کنٹرول نہیں کر سکیں گے جب تک ہم سب ماضی کی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے‘ قوم سے معافی نہیں مانگتے اور سچے دل سے کام شروع نہیں کرتے‘ ہمیں ادارے بھی بحال کرنا ہوں گے‘ بلاامتیاز احتساب کا نظام بھی بنانا ہوگا اور سول اور ملٹری کے درمیان بلند ہوتی دیواریں بھی گرانا ہوں گی اور یہ کام اس وقت صرف دو لوگ کر سکتے ہیں‘ میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف۔
میں دل سے سمجھتا ہوں جس دن یہ دو شریف اکٹھے بیٹھ گئے اور جس دن ان کے درمیان موجود شک کی دیوار گر گئی یہ ملک اس دن راہ راست پر آ جائے گا‘ اور اگر یہ نہ ہوا تو پھر ہم کو ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کےلئے تیار ہو جانا چاہیے‘ ہمیں یہ مان لینا چاہیے‘ ہمیں شاید اب قبر بھی نصیب نہ ہو۔
جس دن دونوں شریف
12
اگست 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں