چھوٹو گینگ میاں شہباز شریف اور پنجاب پولیس کا پہلا ٹیسٹ تھا اور بدقسمتی سے پنجاب پولیس اور میاں شہباز شریف دونوں اس ٹیسٹ میں ناکام ہو گئے‘ دونوں بری طرح ”ایکسپوز“ ہو گئے‘ کیسے؟ ہم اس کے جواب سے پہلے غلام رسول عرف چھوٹو کو ڈسکور کریں گے۔
غلام رسول راجن پور کی تحصیل روجھان کے ایک گاﺅں سے تعلق رکھتا تھا‘ باپ دادا چند ایکڑ زمین کے مالک تھے‘ یہ چند ایکڑنسلوں سے ان کا نان نفقہ تھے‘ غلام رسول کے دو بھائی تھے‘ پیارے خان اور رسول بخش‘ دوسرا بھائی رسول بخش شوبی کہلاتا تھا‘ صادق آباد کے تھانے ماچھکہ کی حدود میں دو قبائل رہتے ہیں‘ چاچڑ اور کوش! یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے دشمن ہیں‘چاچڑ قبیلے کے ایک شخص قابل چاچڑ نے کوش قبیلے کی ایک خاتون سے تعلقات استوار کر لئے‘ یہ خبر نکلی تو قبائلی روایات کے مطابق کوش قبیلے نے چاچڑ قبیلے کے ملزم کو ”کالا“ قرار دے دیا‘ یہ لوگ مقامی زبان میں کالے کے بدلے کو ”چٹی“ کہتے ہیں‘ چاچڑ قبیلے نے چٹی دینے سے انکار کر دیا‘ کوشوں کو غصہ آ گیا اور انہوں نے قابل چاچڑ کو قتل کر دیا‘ چاچڑوں نے کوشوں پر حملہ کر دیا‘ حملے میں کوش قبیلے کے 8 لوگ قتل ہو گئے‘ غلام رسول کا بھائی شوبی چاچڑوں کا دوست تھا‘ چاچڑ گاﺅں سے بھاگ گئے اور بھاگتے ہوئے اپنے بچے شوبی کے پاس چھوڑ گئے‘ کوشوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے غلام رسول کے گھر پر حملہ کیا‘ اہل خانہ پر تشدد کیا اور گھر کو آگ لگا دی‘ یہ انتقام صرف یہاں تک محدود نہ رہا بلکہ انہوں نے اپنے آٹھ لوگوں کے قتل میں بھی شوبی کا نام ڈال دیا‘ پولیس نے شوبی کو گرفتار کر لیا‘ شوبی کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ غلام رسول اس وقت کشمور کے ڈیرہ اڈہ کے ایک ہوٹل میں کام کرتا تھا‘ اس کی عمر 13 سال تھی‘ اس کا خاندان گاﺅں سے بھاگ گیا اور لوگوں نے اس کے گھر اور زمینوں پر قبضہ کر لیا‘ یہ جیل میں بھائی سے ملنے گیا‘ پولیس نے اسے گرفتار کیا اور اس پر موٹر سائیکل چوری کا مقدمہ بنا دیا‘ یہ تین سال جیل بھگت کر باہر نکلا تو پولیس نے پھر گرفتار کرلیا‘ تھانے میں تشدد کے دوران اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی‘ اس تشدد نے غلام رسول کو چھوٹو بنا دیا‘ یہ پولیس کے ہاتھ سے نکل کر مختلف سرداروں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا‘ یہ حسین بخش مزاری کے پاس بھی رہا‘ نصراللہ دریشک کی سرپرستی میں بھی رہا‘ لالہ شیخانہ کے پاس بھی رہا اور یہ سندھ کے مشہور گینگ بابا لونگ کا حصہ بھی رہا‘چھوٹو کو جیل کے تین برسوں نے بے شمار نئے دوست دیئے‘ یہ دوست جیل سے رہا ہو کر اس کے ساتھ شامل ہوتے رہے یہاں تک کہ چھوٹو نے اپنا گینگ بنا لیا‘یہ گینگ 29 برسوں تک سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں دہشت کی علامت بنا رہا‘ پولیس اس کا مرغوب ٹارگٹ رہی‘ یہ لوگ پولیس والوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیتے یا پھر انہیں تشدد کے اس مرحلے سے گزارتے جس سے چھوٹو سندھ اور پنجاب کے تھانوں میں گزرتا رہا تھا۔
غلام رسول چھوٹو نے راجن پور اور رحیم یار خان کے درمیان دریائے سندھ کے ایک جزیرے پر قبضہ کر لیا‘ یہ علاقہ کچا جمال کہلاتا ہے‘ اسے کچے کا علاقہ بھی کہتے ہیں‘ یہ نو کلو میٹر لمبا اور اڑھائی کلو میٹر چوڑا خشکی کا ایک ٹکڑا ہے‘ یہ ٹکڑا چاروں طرف سے پانی میں گھرا ہوا ہے‘ چھوٹو گینگ نے اس جزیرے کو اپنی سلطنت بنا لیا‘ پولیس نے چھوٹو کو پکڑنے کےلئے چھ آپریشن کئے لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکی‘ پولیس نے کچا جمال کے گرد چوکیاں بھی قائم کر رکھی ہیں لیکن سیلاب کے موسم میں جب دریائے سندھ کا پانی چڑھ جاتا تھا اور چوکیوں کا تھانوں سے رابطہ کٹ جاتا تھا تو چھوٹو کے لوگ چوکیوں پر قبضہ کر لیتے تھے یوں سیلاب عوام کےلئے عذاب بن کر نازل ہوتاتھا لیکن یہ چھوٹو گینگ کےلئے سنہری موقع بن جاتا تھا اور یہ لوگ اپنی سلطنت کو ریاست سے دوبارہ چھڑا لیتے تھے‘ علاقے میں ان کا جاسوسی کا وسیع نیٹ ورک تھا‘ یہ راجن پور اور رحیم یار خان میں ہونے والی ہر قسم کی ڈویلپمنٹ سے واقف ہوتے تھے‘ یہ پولیس کی نقل و حرکت سے بھی آگاہ ہوتے تھے‘ تھانوں اور جیلوں میں بھی ان کے مخبر موجود تھے‘ یہ گینگ سیاسی اثر ورسوخ بھی رکھتا تھا‘ علاقے کے لوگ یہ سمجھتے ہیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے موجودہ ایم پی اے عاطف مزاری اور پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گورچانی چھوٹو گروپ کے سرپرست اور سہولت کار ہیں‘ یہ گینگ اغواءبرائے تاوان‘ قتل‘ ڈکیتی‘ چوری اور رسہ گیری ہر قسم کے جرم میں ملوث ہے‘ یہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو بھی پناہ دیتا تھا اور طالبان کے ساتھ بھی ان کے گہرے روابط ہیں‘ اس کے پاس جدید ترین اسلحے کے ڈھیر لگے ہیں‘ اس نے کچا جمال اور جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں بھی درجنوں ٹھکانے بنا رکھے ہیں‘ یہ لوگ مشکل وقتوں میں روپوش ہو جاتے تھے یا پھر دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پناہ لے لیتے تھے‘ یہ لوگ جدید ترین ”الیکٹرانک گیجٹس“ کے استعمال سے بھی واقف ہیں۔
پنجاب حکومت نے مارچ میں پوری طاقت کے ساتھ چھوٹو گینگ کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ فیصلہ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے خود کیا‘ میاں شہباز شریف شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد پنجاب کے ہوم منسٹر بھی ہیں‘ یہ پولیس کی پاور بھی کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ میاں شہباز شریف بلاشبہ ان تھک انسان ہیں‘ یہ دن رات کام کرتے ہیں اور ان کاموں کو وقت پر ختم بھی کرا لیتے ہیں‘ یہ بھی درست ہے انہوں نے لاہور شہر کا حلیہ بدل کر رکھ دیا‘ آپ جب کراچی‘ کوئٹہ یا پشاور سے لاہور میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے‘ میں ان کے ترقیاتی منصوبوں بالخصوص میٹرو بس‘ اورنج لائین اور سڑکوں کا قائل ہوں لیکن میاں شہباز شریف میں چند خامیاں بھی ہیں‘ ان کی سب سے بڑی خامی ٹیم ہے‘ یہ ٹیم بنانے کی صلاحیت سے محروم ہیں‘ یہ کام لے سکتے ہیں لیکن کا م کرنے یا کام کرانے والی ٹیم نہیں بنا سکتے چنانچہ جس دن ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اس دن پورے پنجاب کی انتظامیہ بیمار پڑ جاتی ہے‘ یہ ٹیم کیوں نہیں بنا پاتے؟ اس کی وجہ بہت سادہ ہے! ٹیم بنانے کےلئے دوسروں پر اعتماد ضروری ہوتا ہے اور یہ دوسروں پر اعتمادنہیں کرتے چنانچہ یہ آج تک ٹیم نہیں بنا سکے‘ پنجاب میں ان کے بعد خلا ہی خلا ہے اور اس خلا کے آخر میں رانا ثناءاللہ آتے ہیں‘ آپ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ کے بعد کسی تیسرے وزیر کا نام بتا دیجئے‘ آپ کو تیسرا نام پنجاب حکومت کی ویب سائیٹ پر بھی دکھائی نہیں دے گا‘ میاں شہباز شریف کی دوسری بڑی خامی پولیس ہے‘ میاں صاحب کو پولیس پر یقین نہیں اور پولیس کو میاں صاحب پر اعتماد نہیں‘ کیوں؟ اس کے وجہ ماڈل ٹاﺅن کا سانحہ ہے‘ پورا ملک جانتا ہے 17 جون2014ءکو منہاج القرآن کے مرکز پر گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا لیکن جب 14 لوگ مارے گئے تو پنجاب حکومت نے ذمہ داری کی گھنٹی پولیس کے گلے میں باندھ دی‘ پولیس افسر اور اہلکار نوکریوں سے بھی گئے‘ یہ سزاﺅں کے عمل سے بھی گزرے اور یہ بری طرح بدنام بھی ہوئے‘ یہ واقعہ پنجاب پولیس کےلئے خوفناک سبق تھا چنانچہ پولیس اب میاں شہباز شریف کے حکم پر کوئی آپریشن نہیں کرتی اور اگر کرنا پڑ جائے تو اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو 27 مارچ کو ممتاز قادری کے چہلم کے دن نکلا تھا‘ مظاہرین نے راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف رخ کیا تو کسی پولیس اہلکار نے انہیں نہیں روکا یہاں تک کہ وہ ریڈزون پہنچ گئے اور دوسری مثال چھوٹو گینگ ہے‘ وزیراعلیٰ کے حکم پر آٹھ اضلاع کی پولیس اکٹھی ہوئی‘ 28 مارچ کو کچا جمال پہنچی‘ اس کو دو ہزار جوانوں‘ بھاری اور جدید اسلحہ‘ گن شپ ہیلی کاپٹروں اور سیٹلائیٹ کی سپورٹ حاصل تھی لیکن یہ دو ہزار جوان 80 ڈاکوﺅ کا مقابلہ نہ کر سکے‘ چھوٹو کی گرفتاری تو رہی ایک طرف ڈاکوﺅں نے الٹا سات پولیس اہلکار شہید اور25یرغمال بنا لئے اور یہ وہ ایلیٹ جوان تھے جن پر پنجاب حکومت نے آٹھ برسوں میں اربوں روپے خرچ کئے تھے‘ کچا جمال میں 22 دنوں سے آپریشن چل رہا ہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی اور وہ پنجاب حکومت جو کل تک چالیس گز لمبے دعوے کرتے نہیں تھکتی تھی اور جس کا دعویٰ تھا ”پنجاب میں دہشت گردوں کا کوئی”ہائیڈ آﺅٹ“ اور جرائم پیشہ عناصر کی کوئی جنت نہیں اور پنجاب ملک کا واحد صوبہ ہے جسے فوج اور رینجرز کی ضرورت نہیں“ وہ حکومت ایک ڈاکو سے نبٹنے کےلئے فوج اور رینجرز کی مدد لینے پر مجبور ہوگئی۔
غلام رسول چھوٹو میاں شہباز شریف کے آٹھ سالہ مسلسل اقتدار کا پہلا ٹیسٹ تھا اور پنجاب حکومت اس پہلے ٹیسٹ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے‘ اس ناکامی کا اعتراف آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا بھی کر چکے ہیں‘ میرا خیال ہے‘ میاں شہباز شریف کو بھی یہ ناکامی ماننی چاہیے‘ انہیں تسلیم کرنا چاہیے ان کے ”آئیڈیل پولیس“ کے تمام دعوے غلط تھے‘ پولیس کی ٹریننگ بھی جعلی تھی اور ”پنجاب دہشت گردوں اور جرائم پیشہ سے پاک ہے“ جیسے دعوے بھی جھوٹے تھے‘ میاں صاحب نے اچھے کمانڈر کی طرح سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی لیکن انہیں ”مرد“ بن کر کچا جمال میں سات پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور 25یرغمالی اہلکاروں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے تھی‘ انہیں اس قسم کی مردانگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جس کی توقع یہ عمران خان سے رکھتے ہیں‘ میاں صاحب کو یہ بھی ماننا چاہیے‘ یہ آٹھ برسوں میں 10 کروڑ آبادی کے پنجاب سے ایک بھی ایسا شخص تلاش نہیں کر سکے جو وزیراعلیٰ پنجاب سے ہوم منسٹر کا قلم دان لے سکے‘ یہ جس کے حوالے پنجاب پولیس کر سکیں‘ یہ پانامہ لیکس پر مستعفی نہ ہوں‘یہ بے شک اسے اپنے آزاد اور خود مختار بچوں کے کھاتے میں ڈال دیں لیکن یہ کچا جمال میں مرنے والے سات پولیس اہلکاروں کی ذمہ داری تو قبول کریں‘ یہ ان 25 یرغمالی پولیس اہلکاروں کی ذمہ داری تو لیں جو ان کی ضد‘ انا اور خوش فہمی کی بھینٹ چڑھ گئے اور آج جن کی مائیں‘ جن کی بہنیں اور جن کی بچیاں جھولیاں پھیلا کر بددعائیں دے رہی ہیں‘ آپ پنجاب کے خادم ہیں‘ آج آپ کو اپنی خدمت کی ناکامی تسلیم کرنی چاہیے‘ آپ کو ماننا چاہیے سات پولیس اہلکاروں کا خون آپ اور آپ کے محبوب آئی جی کی گردن پر ہے‘ آپ کو ماننا چاہیے‘ آپ عوام کو جان و مال کا تحفظ اور اپنی فورس کو اعتمادنہیں دے سکے اور آپ کو ماننا چاہیے‘ آپ ایک ناکام کپتان ہیں۔
ناکام کپتان
18
اپریل 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں