بادشاہ کی زندگی کا آخری حصہ غلام کی گندی کوٹھڑی میں گزرا‘ کوٹھڑی کی دیواروں پر سیلن تھی‘ چھت میں سوراخ تھے اور فرش کچا تھا‘ کوٹھڑی میں بستر‘ ہوا دان‘ پانی کا مٹکا اور چولہا بھی نہیں تھا‘ وہ ایک کچی چار دیواری تھی اور بس۔ بادشاہ نے ناک چٹکی میں دبائی اور دکھی آواز میں بولا ”یہ جگہ تو بہت گندی ہے“ غلام مسکرایا‘ ذرا سا جھکا اور عاجزی سے بولا ” بادشاہ سلامت جس ملک کے بادشاہ سونے چاندی کے محلوں میں رہتے ہوں اس سلطنت کے لوگوں کے نصیب میں ایسی ہی کوٹھڑیاں ہوتی ہیں“ بادشاہ کی آنکھ سے آنسو نکلا اور تاریخ کے ورق میں جذب ہو گیا‘ تاریخ کا یہ ورق اور وہ آنسو آج بھی زندہ ہے‘ میاں نواز شریف اگر ذرا سی ہمت کریں‘ یہ رومن ایمپائر کے زوال کی کوئی کتاب منگوائیں اور اس میں نیرو‘ جی ہاں! نیرو کلاڈیس سیزر کا باب کھولیں اور پڑھنا شروع کر دیں‘ مجھے یقین ہے‘ یہ چندلمحوں میں ملک کی اشرافیہ کا مستقبل دیکھ لیں گے‘ یہ نیرو کی زبان سے اپنا‘ آصف علی زرداری کا‘ چودھری شجاعت حسین کا اور جنرل پرویز مشرف کا آخیر جان لیں گے‘ یہ جان لیں گے اس نیرو کا کیا بنا جس نے روم کے غریبوں سے جان چھڑانے کےلئے کچی بستیوں کو آگ لگائی‘ خود محل کی چھت پر بیٹھا‘ سازندوں کو موسیقی کا حکم دیا اور اپنے ہونٹوں کے ساتھ دو فٹ لمبی بانسری لگا لی‘ وہ بانسری بجاتا رہا اور روم کی کچی آبادیاں جلتی رہیں‘ عوام اس کے محل کے نیچے کھڑے ہو کر دہائیاں دیتے رہے اور وہ چھت پر جشن مناتا رہا یہاں تک کہ آگ نے پورے روم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ روم جل کر راکھ ہو گیا‘ ہزاروں لوگ بھی مر گئے‘ نیرو نے راکھ کے اس ڈھیر پر نیا شہر آباد کرنے کا اعلان کیا‘ صاف‘ ستھرا اور خوبصورت اورنج ٹرین جیسا شہر‘ شہر کی تعمیر شروع ہوئی لیکن منصوبہ بڑا تھا اور خزانہ چھوٹا چنانچہ سلطنت چند ماہ میں ڈیفالٹ کر گئی‘ ہنگامے شروع ہوئے‘ لوگوں نے محل کا گھیراﺅ کیا‘ وہ جان بچانے کےلئے بھاگا‘ اسے پورے شہر میں کوئی جائے پناہ نہ ملی‘ وہ بھاگ کر غلام کے گھر میں گھس گیا‘ غلام کا گھر ‘گھر نہیں تھا‘ کچی کوٹھڑی تھی‘ وہ ہفتوں اس بدبودار کچی کوٹھڑی میں پڑا رہا یہاں تک کہ لوگوں کو خبر ہو گئی‘ عوام کوٹھڑی کے سامنے جمع ہو گئے‘ نیرو کو اس لمحے خودکشی عوامی موت کے مقابلے میں نعمت محسوس ہوئی چنانچہ اس نے غلام کی مدد سے اپنی قبر کھودی‘ قبر کے کنارے کھڑا ہوا اور اس شاہی خنجر کے ذریعے اپنی شہ رگ کاٹ لی جو بادشاہت کی علامت تھا اور جسے وہ ہر وقت کمر کے ساتھ باندھے رکھتا تھا‘ نیرو چلا گیا‘ اس کا محل بھی ڈھے کر برباد ہو کر شہر کی بنیادوں میں گم ہو گیا لیکن وہ دنیا کو چار تحفے دے گیا‘ فیس پاﺅڈر‘ یہ پاﺅڈر اس کی بیوی پوپیا نے ایجاد کیا تھا اور یہ اسی کی مناسبت سے پاﺅڈر کہلاتا ہے‘ بانسری کی نحوست‘ آج بھی دنیا میں یہ سمجھا جاتا ہے‘ آپ جہاں بانسری بجاتے ہیں وہ گھر بالآخر نیرو کے محل کی طرح اجڑ جاتے ہیں‘ ایک عبرت ناک محاورہ ”روم جلتا رہا اورنیرو بانسری بجاتا رہا“ اور حکمرانوں کےلئے حکمرانی کا ایک نسخہ ” بادشاہ سلامت جس ملک کے بادشاہ سونے چاندی کے محلات میں رہتے ہوں اس سلطنت کے لوگوں کے نصیب میں ایسی ہی کوٹھڑیاں ہوتی ہیں“۔
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں ذرا سی ہمت کر لیں‘ یہ نیرو کی داستان عبرت پڑھ لیں تو انہیں یہ راز جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ ملک سے باہر کیوں بیٹھے ہیں‘ یہ علاج کےلئے ملک سے باہر کیوں جاتے ہیں اور یہ اپنے بچے‘ اپنے اثاثے اور اپنی آمدنی باہر کیوں رکھتے ہیں؟ یہ لوگ یہ بھی جان لیں گے‘ یہ اپنا ملک ہونے کے باوجود بے وطن کیوں ہیں‘ آپ المیہ ملاحظہ کیجئے‘ آصف علی زرداری دسمبر2011ءمیں دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کے صدر تھے‘ ملک میں ان کی حکومت بھی تھی‘ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ ان کی تلخ کلامی ہوئی‘ جنرل واپس چلا گیا مگر ان کی تسلی نہ ہوئی‘ انہوں نے ٹیلی فون اٹھایا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا‘ جنرل اطمینان سے سنتا رہا‘ گفتگو ختم ہوئی تو صدر کی طبیعت خراب ہو گئی‘ یہ پیچھے گر گئے‘ دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کے پاس کوئی ایک ایسا ہسپتال‘ کوئی ایک ایسا ڈاکٹر نہیں تھا جو صدر کا علاج کر سکتا چنانچہ ملک ریاض نے دوبئی سے ائیر ایمبولینس منگوائی‘ صدر کو لوڈ کیا اور دوبئی میںامریکن ہاسپٹل میں داخل کرا دیا‘ یہ وہاں 9 دن زیر علاج رہے‘ یہ 16 جون 2015ءکو ”ہمیں تنگ کیا گیا تو اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے“ کے اعلان کے بعد بھی بیمار ہو گئے تھے‘ یہ اس وقت بھی علیل ہیں اور ان کا علاج لندن‘ نیویارک اور دوبئی میں ہو رہا ہے‘ یہ ایک ایسی ”خوفناک“ بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے یہ اپنے گھر میں نہیں سوتے‘ یہ ہوٹل میں رہتے ہیں اور یہ احتیاطاً ہوٹل‘ کمرے اور بکنگ کے نام بھی بدلتے رہتے ہیں‘ الطاف حسین بھی علیل ہیں‘ یہ بھی لندن میں زیر علاج ہیں‘ پورا ملک مل کر ان کو بھی علاج کی سہولیات فراہم نہیں کر سکتا اور اب میاں نواز شریف کے بازو میں بھی درد ہو گیا اور یہ بھی علاج کےلئے لندن روانہ ہو گئے ہیں‘ چودھری شجاعت حسین برسوں سے چین‘ ہالینڈ اور جرمنی میں علاج کروا رہے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کےلئے بھی پاکستان میں طبی سہولیات ناکافی ہیں‘ ہمارے پارلیمنٹیرینز اور بیورو کریٹس بھی ہر سال علاج کےلئے بیرون ملک جاتے ہیں اور ان پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی طبی معائنے کےلئے ہر مہینے لندن جانا پڑتا ہے اور وزیراعلیٰ سندھ‘ وزیراعلیٰ بلوچستان اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کو بھی ملک میں مطلوبہ میڈیکل سروسز نہیں ملتیں‘ کیوں؟ ۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجئے‘ کیا یہ ملک وہ ملک نہیں جس میں بھٹو پھانسی لگنے کے باوجود 37سال سے زندہ ہے‘ جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری دوبار برسر اقتدار رہے‘ جس میں آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی نے پانچ سال حکومت کے مزے لوٹے‘ جس میں چودھری صاحبان پانچ سال ”آل اِن آل“ رہے‘ جس میں جنرل پرویز مشرف نو سال حکومت کرتے رہے‘ جس میں میاں شہباز شریف اور سید قائم علی شاہ مسلسل آٹھ برس سے وزراءاعلیٰ ہیں اور جس میں میاں نواز شریف دوسری مرتبہ ہیوی مینڈیٹ لے کر تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں لیکن یہ تمام لوگ تیس تیس‘ پینتیس پینتیس برس کے اقتدار کے باوجود ملک میں کوئی ایک ایسا ہسپتال نہیں بنا سکے جس میں ان کا طبی معائنہ ہو سکے‘ جس میں ان کا آپریشن‘ ان کا علاج ہو سکے‘ یہ ملک میں کوئی ایک ایسا سکول‘ کالج اور یونیورسٹی بھی نہیں بنا سکے جس میں ان کے بچے پڑھ سکیں‘ یہ پورے ملک میں سرمایہ کاری کی کوئی ایسی ”جنت“ بھی تشکیل نہیں دے سکے جس میں یہ اور ان کے خاندان کا سرمایہ محفوظ ہو اور یہ پورے ملک میں کوئی ایک ایسی بستی بھی نہیں بنا سکے جس میں یہ سیکورٹی گارڈز‘ پولیس‘ رینجرز اور ایس ایس جی کے بغیر رات گزار سکیں‘ آپ کمال دیکھئے‘ ڈاکٹر عاصم حسین کی مہربانی سے ملک کے آدھے میڈیکل کالجز کے ساتھ ٹیچنگ ہسپتال نہیں ہیں چنانچہ یہاں سے فارغ التحصیل طالب علم تجربے کے بغیر لوگوں کا علاج کریں گے‘ ہمارے حکمران اس طبی معجزے سے واقف ہیں لہٰذا یہ لوگ پاکستان کے کسی ڈاکٹر کو اپنے اور اپنے خاندان کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے‘ یہ پاکستان کے کسی ہسپتال میں داخل ہونے کا رسک بھی نہیں لیتے جبکہ انہوں نے ملک کے بیس کروڑ عوام کو ان ڈاکٹروں کے حوالے کر رکھا ہے‘ کون ذمے دار ہے؟ کیا ان لوگوں کو اس مجرمانہ غفلت پر سزا نہیں ہونی چاہیے‘ کیا ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟۔
میں مانتا ہوں ہم عوام نے سپریم کورٹ کے 17 ججوں سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں‘ یہ ممکن نہیں یہ 17 جج ہزاروں مقدمات بھی سنیں اور ملک کےلئے سستی ایل این جی‘ پٹرول‘ بجلی اور پانی کا بندوبست بھی کریں‘ یہ کرکٹ کو بھی ٹھیک کریں اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات بھی لے کر دیں‘ یہ الیکشن کی دھاندلیاں بھی پکڑیں اور جنرل پرویز مشرف کا احتساب بھی کریں اور یہ عوام کو سستی دوائیں بھی فراہم کریں اور پانامہ لیکس پر ازخود نوٹس بھی لیں‘ یہ ممکن نہیں لیکن کیا سپریم کورٹ آف پاکستان حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے غیر ملکی علاج پر بھی پابندی نہیں لگا سکتی اور کیا یہ طبی معائنے کےلئے ملک سے باہر جانے پر وزیراعظم کے خلاف ازخود نوٹس بھی نہیں لے سکتی؟ آپ علاج کےلئے ملک سے باہر جانے والے سرکاری عہدیداروں کے اخراجات کی تفصیل منگوائیے‘ ملک میں موجود علاج کی سہولتوں کا تخمینہ لگوائیے اور اس کے بعد فیصلہ دیجئے کہ میاں نواز شریف ہوں‘ آصف علی زرداری ہوں‘ چودھری شجاعت حسین ہوں یا پھر الطاف حسین ہوں یہ اپنا علاج صرف اور صرف پاکستان میں کروائیں گے‘ ملک میں اگر ان کی بیماریوں کا علاج نہیں ہو سکتا تو یہ اس علاج کو ممکن بنائیں‘ یہ نئے طبی ادارے بنائیں‘ یہ ادارے ان کا علاج بھی کریں اور ملک کے غریب مریضوں کو بھی سہولت فراہم کریں‘ یہ زیادتی ہے کہ آپ تیس تیس سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی سرکاری جہاز لیتے ہیں اور علاج کےلئے لندن چلے جاتے ہیں اور عوام کو ان ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر چھوڑ جاتے ہیں جنہیں ڈاکٹر عاصم نے سفید کوٹ پہنا دیا‘ سپریم کورٹ کا فرض ہے کہ یہ ان لوگوں سے تیس سال کا طبی حساب لے اور یہ لوگ بھی خدا خوفی کریں‘ یہ لوگ اگر اسی طرح بانسری بجاتے رہے اور عدالتیں خاموش رہیں تو روم اور اس روم کے لوگ اسی طرح جلتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ دن آ جائے گا جب ازخود نوٹس لینے والے بھی ان کے ساتھ بدبودار کوٹھڑیوں میں پڑے ہوں گے‘ بندہ اور بندہ نواز دونوں برابر ہو جائیں گے‘ کیا آپ قدرت کے اس سوموٹو کا انتظار کر رہے ہیں‘ کیا آپ بھی نیرو کی طرح مرنا چاہتے ہیں‘ سوچئے اور فیصلہ کیجئے‘ قوم آپ کے فیصلے کی منتظر ہے۔
سوموٹو
13
اپریل 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں