جمعہ‬‮ ، 27 دسمبر‬‮ 2024 

میں اس شخص کی وزڈم کو سلام کرتا ہوں

datetime 10  فروری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شیخ محمد بن راشد المختوم دوبئی کے حکمران ہیں‘ یہ دنیا کے انقلابی لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں‘ شیخ محمد نے فروری 2006ءمیں دوبئی کی عنان اقتدار سنبھالی اور انہوں نے دس برسوں میں ریاست کا مقدر بدل دیا‘ دوبئی اب سیاحوں اور تاجروں کی جنت کہلاتا ہے‘ دنیا بھر سے ڈیڑھ کروڑسیاح ہر سال دوبئی آتے ہیں‘ یہ ہوٹلز‘ موٹلز اور شاپنگ سنٹروں کا شہر بھی ہے‘ یہ سپورٹس کے متوالوں کی آخری منزل بھی ہے اور یہ عیاشیوں کی جنت گم گشتہ بھی ہے‘ دوبئی کا رقبہ 4114 مربع کلو میٹر اور آبادی 24 لاکھ 60 ہزار ہے‘ موسم گرم اور زمین بے مروت ہے مگر اس کے باوجود اس کا جی ڈی پی 83 ارب ڈالر‘ فی کس آمدنی 24 ہزار ڈالر اور تجارتی حجم 1.4 کھرب درہم ہے‘ پاکستان اس کے مقابلے میں رقبے اور آبادی میں 200گنا بڑا لیکن معیشت میں 22گنا چھوٹا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ دوبئی کے پاس شیخ محمد بن راشد المختوم جیسا حکمران ہے جبکہ ہم ان جیسے وژنری لوگوں سے محروم ہیں۔
شیخ محمد میں ایسی کیا خوبی ہے جس کے ذریعے انہوں نے دوبئی کو دنیا کی جدید ترین ریاست بنا دیا اور ہمارے حکمرانوں میں ایسی کون سی خامی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا؟ شیخ محمد میں تین خوبیاں ہیں‘دنیا میں ہندو ہو‘ سکھ ہو‘ عیسائی ہو یا یہودی ہو یہ اس کی خوبی‘ اس کی کامیابی اور اس کے ہنر سے سیکھتے ہوئے دیر نہیں لگاتے‘ شیخ کو دس برسوں میں دنیا کے جس ملک اور جس شخص سے کامیابی کا نسخہ ملا انہوں نے فوراً لے لیا‘ دوسرا ‘یہ چیزوں کو فوراً ”امپلی منٹ“ کرتے ہیں‘ یہ مشورہ کرتے ہیں‘ فیصلہ کرتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں‘ یہ ہماری طرح بحث مباحثے‘ صلاح مشورے اور جوتے تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتے اور ان کی تیسری اور بڑی خوبی اچھوتے آئیڈیاز ہیں‘ دوبئی گلف کی پہلی اسلامی ریاست تھی جس نے معاشرے کو لبرل کیا‘ جس میں برقعہ اور سکرٹ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں‘ جس میں مسجد اور خرابات دونوں ہیں اور دونوں کے درمیان قانون کی دیوار کھڑی ہے‘ جس میں زیر سمندر ہوٹلز بھی ہیں‘ دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ بھی‘ دنیا کی سب سے بڑی گھوڑا ریس بھی‘ کیسینوز بھی‘ہیلتھ سٹی بھی‘ میڈیا سٹی بھی‘انٹرنیشنل اکیڈیمک سٹی بھی اوردنیا کی خوبصورت مسجدیں بھی۔ دوبئی پورٹ کا شمار دنیا کی نویںمصروف ترین بندرگاہوں میں ہوتا ہے اور یہ گلف میں سیاحت سے کمانے والی سب سے بڑی ریاست بھی ہے‘ یہ تمام اعزاز اچھوتے اور انوکھے آئیڈیاز کا کمال ہیں اور اس کا سارا کریڈٹ شیخ محمد بن راشد کو جاتا ہے‘ یہ اچھوتے آئیڈیاز کے ایکسپرٹ بھی ہیں اور ماسٹر بھی۔ یہ شیخ کے ان انوکھے آئیڈیاز کا نتیجہ ہے کہ آپ دوبئی جائیں‘ آپ کسی سڑک کے کسی کارنر پر کھڑے ہو جائیں اور آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو یہ شہر نیویارک‘ لندن اور ٹوکیو سے کم نہیں لگے گا‘ یہ ان انوکھے آئیڈیاز کا کمال ہے‘ آپ کو اس شہر میں آج ہریالی بھی ملتی ہے‘ باغات بھی‘ مصنوعی آبشاریں بھی اور آباد ساحل بھی‘ یہ شہر‘ یہ ریاست ترقی کی جدید ترین مثال ہے اور اس مثال کا سہرہ ایک شخص کے سر بندھتا ہے اور وہ شخص شیخ محمد بن راشد ہیں۔
شیخ محمد بن راشد المختوم کے تازہ ترین آئیڈئیے نے بھی پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ انہوں نے دوبئی میں خوشی اور برداشت کی وزارت بنانے کا اعلان کر دیا‘ یہ وزارت ملک میں مسرت‘ خوشی اور خوشگواری میں بھی اضافہ کرے گی اور یہ لوگوں کو برداشت کا سبق بھی دے گی‘ یہ وزارت اگر قائم ہو جاتی ہے اور یہ باقاعدہ کام شروع کر دیتی ہے تو یہ دنیا کے لئے انقلاب ثابت ہو گی‘ ہم انسان پہلی چیخ سے لے کر آخری ہچکی تک اس کرہ ارض پر صرف تین چیزیں تلاش کرتے ہیں‘ خوشی‘ سکون اور آسائش‘ ہم اگر کسی دن بیٹھ کر اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے‘ ہمارے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے لیکن ہم اس کے باوجود خوش ‘ پر سکون اور کمفرٹیبل نہیں ہیں‘کیوں؟ آپ اس کیوں کے جواب سے پہلے ایک اور ریسرچ بھی ملاحظہ کیجئے‘ نیویارک کی وال سٹریٹ دنیا کا اکنامک کیپیٹل ہے‘ یہاں دنیا کے تمام بڑے اداروں‘ کمپنیوں اور امراءکے دفاتر ہیں‘ دنیا کی سب سے بڑی نیویارک سٹاک ایکسچینج بھی یہاں واقع ہے‘ اس کا معاشی حجم بیس ٹریلین ڈالر ہے‘ آج سے چند سال پہلے جب وال سٹریٹ کے امراءسے پوچھا گیا ” کیا آپ خوش ہیں“ تو دنیا کے ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد امراءکا جواب تھا ”ہم آج تک خوشی کی نعمت سے محروم ہیں“ آپ وال سٹریٹ کو چھوڑیئے‘ آپ اپنے آپ سے پوچھئے‘ آپ اپنے دائیں بائیں موجود خوشحال لوگوں سے بھی پوچھئے‘ آپ کو ان میں بھی زیادہ تر لوگ چڑچڑے‘ زود رنج‘ دکھی‘ اداس اور اپنی ذات میں تنہا ملیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ کسی نے آج تک انہیں خوشی کے بارے میں بتایا ہی نہیں‘ کسی نے انہیں خوشی کی ٹریننگ ہی نہیں دی‘ کسی نے انہیں یہ سمجھایا ہی نہیں کہ برداشت اور خوشی کا آپس میں گہرا تعلق ہے‘ آپ اپنی برداشت جتنی بڑھاتے جاتے ہیں‘ آپ کی خوشی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے اور کسی نے انہیں یہ بھی نہیں بتایا‘ برداشت انسان کی ذاتی صفت کم اور معاشرے کی خوبی زیادہ ہوتی ہے‘ اگر آپ کی سڑک‘ آپ کی گلی‘ آپ کے سکول‘ آپ کے دفتر اور آپ کی مارکیٹ میں برداشت نہیں ہو گی تو آپ کی ذاتی برداشت کا سوتا جلد خشک ہوجائے گا‘ آپ کتنے ہی پڑھے لکھے اور مہذب کیوں نہ ہوں‘ آپ کی برداشت جواب دے جائے گی‘ میں خود ذاتی سطح پر برداشت کے بحران کا شکار ہو رہا ہوں‘ مجھے غصہ نہیں آتا تھا‘ میں بڑی سے بڑی بات ہنس کر برداشت کر جاتا تھا‘ میں 90 فیصد ٹیلی فون کالز بھی سنتا تھا‘ ای میل کا جواب بھی دیتا تھا اور ایس ایم ایس بھی پڑھتا تھا لیکن مجھے چند ماہ سے محسوس ہو رہا ہے میں اب غصے میں آ جاتا ہوں‘ میں نے میڈیکل ٹیسٹ کرائے‘ میرا بلڈ پریشر بھی نارمل تھا‘ شوگر بھی عموماً ٹھیک ہوتی ہے‘ الحمد للہ کوئی معاشی‘ گھریلو اور سماجی پریشانی بھی نہیں لیکن میں اس کے باوجود غصے میں آ جاتا ہوں‘ میری برداشت کم ہو رہی ہے‘ کیوں؟ میں جب بھی اس نقطے پر سوچتا ہوں‘ مجھے صرف ایک جواب ملتا ہے ”جب شہر میں برداشت نہیں ہوگی‘ جب لوگ گلیوں میں ایک دوسرے کو کاٹ کر کھا رہے ہوں گے تو پھر عام انسان کتنی دیر تک اپنی برداشت سنبھالے گا“ مجھے اپنی مثال سے محسوس ہوتا ہے‘ برداشت افراد کا مسئلہ نہیں ہوتی‘ یہ ریاستوں کا پرابلم ہوتی ہے اور جب تک ریاستیں برداشت اور خوشی دونوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتیں جتنی یہ تعلیم‘ صحت‘ انصاف اور دفاع کو دیتی ہیں‘ اس وقت تک افراد میں خوشی اور برداشت پیدا نہیں ہو تی‘ آپ خود سوچئے‘ ملک میں جب کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کو کافر‘ بے ایمان‘ جانبدار‘ بکاﺅاور منافق قرار دے دے گا تو لوگ کتنی دیر برداشت کریں گے‘ آپ خوشی کےلئے کسی پہاڑ‘ کسی جھیل‘ کسی ریستوران‘ کسی کافی شاپ‘ کسی سینما‘ کسی لائبریری اور کسی مسجد میں بیٹھے ہیں اور اچانک کوئی شخص آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کا احتساب شروع کر دیتا ہے تو آپ کتنی دیر خوش رہ لیں گے‘ میں پچھلے دنوں اپنی بیٹی کے ساتھ ایک آئس کریم پارلر پر گیا‘ ہم نے ابھی کپ اٹھائے ہی تھے کہ ایک صاحب پی آئی اے کی نجکاری پر فتویٰ لینے کےلئے پہنچ گئے‘ میں نے ان سے عاجزی کے ساتھ عرض کیا ”سر میرے لئے آئس کریم کا یہ کپ دنیا کی تمام ائیر لائینز سے زیادہ قیمتی ہے‘ آپ مہربانی کر کے مجھے چار سال کی اس بچی کے ساتھ اسے انجوائے کرنے دیں“ وہ صاحب تو برا سا منہ بنا کر چلے گئے لیکن میری خوشی کڑوی ہو گئی۔ خوشی اور برداشت کے ان چھوٹے چھوٹے لمحوں کی حفاظت بہرحال ریاستوں کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں سماجی کلچر کی محتاج ہیں اور یہ کلچر ریاستیں پروان چڑھاتی ہیں‘ یہ افراد کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
مجھے پچھلے دنوں خوشی کے چھ بنیادی عناصر پر ایک میڈیکل ریسرچ پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ اس تحقیق نے انکشاف کیا‘ خوشی کے چھ عناصر میں نیند پہلے نمبر پر آتی ہے‘ آپ جب تک مکمل اور گہری نیند نہیں لیتے آپ کے جسم میں اس وقت تک خوشی کے انزائم پیدا نہیں ہوتے‘ دوسرا عنصر ایکسرسائز تھا‘ آپ جب تک روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ ورزش نہیں کرتے‘ آپ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے‘ تیسرا عنصر خدا کی ذات پر بھروسہ اور ذکر الٰہی تھا‘ چوتھا عنصر مناسب اور صحت بخش خوراک تھی‘ پانچواں عنصر انسانی تعلقات تھا‘ آپ جب تک ان لوگوں سے رابطے میں نہیں رہتے جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے‘ آپ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے اور چھٹا عنصر خوشحالی تھا‘ آپ جب تک اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری نہیں کرتے‘ آپ اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے‘ آپ اگر ان چھ عناصر کو میز پر رکھیں تو آپ کو تعلقات کے سوا باقی پانچ عناصر میں حکومت کا عمل دخل ملے گا‘ ملک میں جب بارہ بارہ بجے تک بازار کھلے رہیں گے‘ ملک میں شور کے خلاف کوئی قانون نہیں ہو گا‘ لاﺅڈ سپیکر‘ ہارن اور میوزک سسٹم کےلئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہوگا اور جب سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں پنکھے نہیں چلیں گے تو کون کافر نیند پوری کر سکے گا‘ ملک میں جب پارک‘ میدان اور جم نہیں ہوں گے‘ واک کےلئے فٹ پاتھ نہیں ہوں گے اور سائیکل ٹریک نہیں بنیں گے تو ورزش کیسے ممکن ہو گی‘ ملک میں جب فرقے خدا‘ رسول اور صحابہؓ کو آپس میں بانٹ لیں گے‘ کفر کا فتویٰ موبائل فون کی سم سے ارزاں اور آسان ہو گا اور جب مسجدیں اللہ کی بجائے فرقوں سے منسوب ہو جائیں گی تو کون خوش نصیب اطمینان سے عبادت کر سکے گا‘ ملک میں جب گدھوں کا گوشت عام ملے گا‘ پکوڑے اور سموسے موبل آئل میں تلے جائیں گے‘ سبزیاں سیوریج کے پانی میں اگائی جائیں گی اور ریستوران اور مٹھائی کی دکانوں سے مرے ہوئے چوہے نکلیں گے تو کس بدنصیب کی خوراک پوری ہو گی اور جب ملک میں روزگار کے ذرائع محدود ہوتے جائیں گے‘ کارخانے بند اور شاپنگ سنٹر بڑھتے جائیں گے‘ جب کھیتوں میں ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بنیں گی اور جب بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف ساڑھے آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیں گے تو خوشحالی کیسے آئے گی؟ لوگ اپنی ضروریات کیسے پوری کریں گے چنانچہ برداشت ہو یا خوشی یہ دونوں حکومتوں کے بغیر ممکن نہیں ہیں اور شیخ محمد بن راشد المختوم اس ذمہ داری کو سمجھنے والے دنیا کے پہلے حکمران ہیں اور میں اس شخص کی وزڈم کو سلام پیش کرتا ہوں۔



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…