سن تھا 1492ئ‘ مہینہ تھا جنوری اور تاریخ تھی دو۔ غرناطہ کی دس سالہ جنگ کا آخری دن آ چکا تھا‘ آراگون کا بادشاہ فرڈینینڈ اپنی بیگم ازابیلہ کے ساتھ الحمراءکے گیٹ پر پہنچ گیا۔
1492ءتک سپین میں پانچ ریاستیں تھیں‘ آراگون‘ کاسٹیل‘ پرتگال‘ نوار اور غرناطہ۔ آج کا سپین اور پرتگال ان پانچ ریاستوں پر قائم ہیں‘ مسلمان جبرالٹر سے لے کر میڈرڈ اور قرطبہ سے لے کر فرانس کے صوبے لیون تک قابض تھے‘ عیسائی بادشاہوں نے بالآخر مسلمانوں کی طاقت توڑنے کےلئے آراگون کے شہزادے فرڈینینڈ کی شادی کاسٹیل کی شہزادی ازابیلہ کے ساتھ کرا دی‘ فرڈینینڈجنوری 1475ءمیں بادشاہ بن گیا اور ازابیلہ ملکہ‘ دونوں ملکوں کی فوجیں اکٹھی ہو گئیں‘ عالم اسلام اس وقت بری طرح افراتفری اور طوائف الملوکی کا شکار تھا‘ مسلمان ‘مسلمان کا گلہ کاٹ رہے تھے‘ سپین کے عیسائی بادشاہوں نے ان حالات کا فائدہ اٹھایا اور یہ ایک ایک کر کے مسلمان علاقوں پر قابض ہوتے گئے‘ غرناطہ ان کی آخری منزل تھا‘ عیسائیوں کی مشترکہ فوج نے 1482ءمیں غرناطہ پر حملہ کیا‘ جنگیں شروع ہوئیں اور دس سال تک چلتی رہیں‘ مسلمان آہستہ آہستہ مار کھاتے رہے یہاں تک کہ 1491ءمیں سپین کے آخری مسلمان فرمانروا ابو عبداللہ محمد کی بادشاہت غرناطہ اور اس کے جادوئی محل الحمراءتک محدود ہو کر رہ گئی‘ شاہی خاندان قلعے میں محصور ہو کر بیٹھ گیا‘ غرناطہ پہاڑ کی اترائیوں پر قائم تھا‘ الحمراءایک ناقابل شکن قلعے میں محفوظ تھا‘ قلعے کے گرد پہاڑ کے دامن میں دریا بہتا تھا‘ یہ دریا آج بھی موجود ہے لیکن یہ اب مسلمانوں کے ہجر میں ایک چھوٹا سا نالہ بن چکا ہے‘ عیسائی فوج نے قلعے کا محاصرہ کر لیا‘ محاصرہ طول پکڑ گیا‘ اس دوران مذاکرات شروع ہوئے اور مذاکرات کے آخر میں مسلمانوں کے آخری بادشاہ نے غرناطہ کی سلطنت اور الحمراءدو شرطوں پر عیسائیوں کے حوالے کرنے کا عندیہ دے دیا ”مجھے‘ میرے خاندان اور میرے خزانے کو بحفاظت غرناطہ سے نکلنے کی اجازت دے دی جائے اور دوم‘ قبضے کے بعد غرناطہ کے تمام مسلمانوں کی جان‘ مال اور ایمان کی گارنٹی دی جائے“ عیسائی بادشاہ اور ملکہ نے یہ دونوں شرائط فوراً مان لیں‘ ابو عبداللہ محمد نے اپنے آباﺅ اجداد کی قبریں کھودیں‘ ان کی ہڈیاں نکالیں‘ صندوقوں میں بھریں‘ خزانہ اکٹھا کیا‘ خاندان کو ساتھ لیا اور الحمراءکی چابیاں لے کر الحمراءکے گیٹ پر آ گیا‘ فرڈینینڈ بھی ازابیلہ کے ساتھ گیٹ پر پہنچ گیا اور یہ سن تھا 1492ئ‘ مہینہ تھا جنوری اور تاریخ تھی دو۔
تاریخ کروٹ بدل رہی تھی‘ ایک ایسا المیہ جنم لے رہا تھا جو آج 523 برس بعد بھی دنیا کے ہر مسلمان کی آنکھ گیلی کر دیتا ہے‘ دو بادشاہ آمنے سامنے کھڑے ہو گئے‘ ایک بادشاہ وہ تھا جس کے آباﺅ اجداد نے 710ءمیں یہ زمین مسلمانوں کے ہاتھوں ہار دی تھی اور دوسرا بادشاہ وہ تھا جس کے اجداد نے اس زمین پر 780ءسال حکومت کی‘ جس کے سائنس دانوں نے یورپ کو ٹائی‘ سوپ‘ صابن‘ کرسٹل‘ پیرا شوٹ‘ سٹیم باتھ‘ کٹلری اور انصاف کا تحفہ دیا‘ جس کے بزرگوں نے الحمراءجیسی ایک ایسی جنت تخلیق کی جو اس سے قبل تخلیق ہوئی اور نہ ہی ہو گی اور جو کافر زمینوں پر اللہ کے نام کا والی تھا‘ دونوں بادشاہ اپنی اپنی تاریخ کا بوجھ کندھوں پر لاد کر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے‘ فاتح بادشاہ اونچی جگہ پر تھا اور مفتوح قوم کا ہارا ہوا بادشاہ پست جگہ پر کھڑا تھا‘ ملکہ ازابیلہ تفاخر کے ساتھ ان کے قریب کھڑی تھی‘ فاتح بادشاہ نے الحمراءکی چابیوں کےلئے ہاتھ آگے بڑھا دیا‘ ابو عبداللہ محمد نے چابیاں پکڑانے کےلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو 780ءسالوں کے بوجھ نے اس کا ہاتھ لرزا دیا‘ ہاتھ ہلا اور چابیاں فرڈینینڈ اور ازابیلہ کے قدموں میں گر گئیں‘ ابو عبداللہ محمد اضطراری طور پر چابیاں اٹھانے کےلئے جھکا لیکن اس کے جھکنے سے پہلے ہی فرڈینینڈ نے اس کا کندھا پکڑ لیا‘ اسے روکا اور کہا ” نہیں بادشاہ نہیں! الحمراءایسی دولت ہے جس کےلئے ہم تمہارے قدموں میں جھکنے کےلئے تیار ہیں“ اور اس کے ساتھ ہی وہ دونوں جھکے اور ابوعبداللہ محمد کے قدموں سے الحمراءکی چابیاں اٹھا لیں‘ غرناطہ کی ضلعی حکومت نے اس واقعے کا مجسمہ بنا کر شہر کے قدیم حصے کے شروع میں نصب کر دیا‘ یہ فوارہ ہے جس کے اوپر فرڈینینڈ اور ابو عبداللہ محمد کے مجسمے لگے ہیں اور ساتھ ہی شکست کی وہ دستاویز لہرا رہی ہے جس پر مہر لگا کر ابو عبداللہ محمد نے یورپ میں 780ءسالہ مسلمان سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا‘ ابو عبداللہ محمد الحمراءکی چابیاں سونپ کر اپنے خاندان کے ساتھ غرناطہ سے نکلا‘ یہ غرناطہ کی وادی سے نکل کر سمندر کی جانب روانہ ہوا‘ آپ اگر غرناطہ جائیں تو آپ کو یہ شہر وادی میں دکھائی دے گا‘ غرناطہ ایک ایسی وادی ہے جس کے چاروں اطراف پہاڑ ہیں اور یہ شہر ان پہاڑوں کے پیالے میں واقع ہے‘ وہ غرناطہ سے نکل کر سستانے کےلئے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر رکا‘ غرناطہ شہر اس کے سامنے بکھرا ہوا تھا‘ الحمراءکے مینار اور چوکیاں وہاں سے نظر آ رہی تھیں‘ وہ آخری بار اپنا شہر دیکھ رہا تھا‘ اس سے برداشت نہ ہوا‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس کی جہاں دیدہ ماں پاس کھڑی تھی‘ ماں نے غصے سے بیٹے کی طرف دیکھا اور وہ تاریخی فقرہ بولا جو آنے والے دنوں میں محاورہ بن گیا‘ ماں نے کہا ” بیٹا جس سلطنت کی تم مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکے اب اس کےلئے عورتوں کی طرح آنسو نہ بہاﺅ“ یہ فقرہ اور یہ جگہ دونوں اب تاریخ کا حصہ ہیں‘ میں ہفتہ 22 اگست کو اس جگہ پہنچا جہاں ابوعبداللہ محمد کی ماں نے یہ تاریخی فقرہ کہا تھا‘ اس جگہ اب ایک چھوٹا سا گاﺅں آباد ہے‘ گاﺅں کا نام سسپیرو ڈل مورو (Suspiro Dil Moro) ہے‘ سپینش زبان میں سسپیرو ایسے لمبے سانس کو کہتے ہیں جس میں آہ شامل ہوتی ہے جبکہ مور ان مسلمانوں کو کہا جاتا ہے جو مراکش سے آ کر سپین پر قابض ہوئے‘ آپ اس مناسبت سے اس گاﺅں کو ”مسلمانوں کی آہ“ کہہ سکتے ہیں‘ یہ گاﺅں ابوعبداللہ محمد کی آہ کی نسبت سے ”سسپیرو ڈل مورو“ بن گیا‘ مسلمانوں کا آخری بادشاہ جہاں بیٹھا تھا وہاں آج کل ایک ریستوران قائم ہے‘ ریستوران بند تھا لیکن ریستوران کا سوئمنگ پول کھلا تھا اور اس پول میں خواتین اور بچے نہا رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے‘ اس جگہ سے واقعی غرناطہ دکھائی دیتا تھا لیکن الحمراءاور آہ کے درمیان دو بلند قامت عمارتیں حائل ہو چکی ہیں‘ مجھے وہاں سے الحمراءکے برج نظر نہیں آئے لیکن اس کے باوجود دل کی سرخ دیواروں نے ایک آہ کو جنم دیا اور میں اس آہ کو منہ سے نکلنے سے نہ روک سکا‘ میرا گلہ نمکین تھا اور پلکیں بھاری تھیں‘ دنیا کے تمام مسلمان حکمرانوں کو چاہیے وہ اپنی ناشکری قوموں کےلئے لازم قرار دے دیں‘ یہ لوگ زندگی میں کم از کم ایک بار اس پہاڑی پر ضرور آئیں‘ یہاں سے غرناطہ دیکھیں اور اس کے بعد دنیا کی اس سفاک حقیقت کو محسوس کریں جو چیخ چیخ کر دنیا کے ہر شخص سے کہہ رہی ہے‘ لوگ اور قومیں جب کمزور ہوتی ہیں تو ان کے پاس عورتوں کی طرح آنسو بہانے اور ہارے ہوئے مردوں کی طرح آہیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
غرناطہ اور الحمراءکیا ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص انہیں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا‘ آپ دل اور دماغ کے آخری کونے کی آخری دیواروں کے ساتھ چپکے آخری خیالات کی آخری خوشبو کو لفظوں میں بیان کر سکتے ہیں‘ آپ برش کے ذریعے ان کا عکس کینوس پر بھی اتار سکتے ہیں اور آپ ان کی دھن بنا کر ہوا کے پروں پر بھی نقش کر سکتے ہیں لیکن الحمراءکیا ہے‘ غرناطہ کیا ہے؟ آپ ان سوالوں کو دھن کے ذریعے ایکسپلین کر سکتے ہیں‘ انہیں رنگوں کے ذریعے منعکس کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں لفظوں اور حرفوں میں بیان کر سکتے ہیں‘ یہ ایک ایسی جادونگری ہے جسے آپ صرف آنکھوں سے محسوس کر سکتے ہیں اور آنکھوں ہی میں درج کر سکتے ہیں‘ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جسے دیکھنے کےلئے ایک دوسرا آئینہ چاہیے‘ یہ عاشق کا وہ درد ہے جسے صرف عاشق ہی محسوس کر سکتے ہیں‘ یہ مصور کا وہ احساس ہے جسے صرف مصور ہی محسوس کر سکتے ہیں اور یہ ہجر اور فراق کی راتوں میں گندھی ہوئی وہ داستان ہے جسے صرف وہ لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کے نامہ اعمال میں فراق کی 523 کروٹیں درج ہوں‘ آپ جب تک حس جمال کے ساتویں آسمان کو نہیں چھوتے‘ آپ جب تک حزن و ملال کی آخری آہ تک نہیں پہنچتے اور آپ جب تک ذائقے کی اس آخری حد کو نہیں چوم لیتے جہاں پہنچ کر ذائقہ خوشبو بن جاتا ہے‘ آپ اس وقت تک غرناطہ اور الحمراءکو نہیں سمجھ سکتے‘ یہ شہر ایسی دھن ہے جسے انگلیاں نہیں بجاتیں نظریں بجاتی ہیں‘ یہ ایک ایسی پینٹنگ ہے جو رنگوں اور برش سے تخلیق نہیں ہوتی‘ یہ آنسوﺅں کی سیاہی اور پلکوں کے برش سے دل کے کینوس پر اتاری جاتی ہے اور یہ ایک ایسا نغمہ ہے جس میں لفظ اور آوازیں نہیں ہوتیں خوشبو اور لمس ہوتے ہیں۔
آپ اس شہر اور اس شہر کے محل کو لفظوں میں ایکسپلین کر ہی نہیں سکتے۔
آہ غرناطہ
27
اگست 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں