فائرنگ کی آواز آئی‘ لوگ دوڑ کر ڈیرے پر پہنچے‘ راؤ اقبال خان خون میں لت پت پڑے تھے‘ ان کا چھوٹا بیٹا راؤ اطہر چند گز کے فاصلے پر پڑا تھا جبکہ دوسرا بیٹا راؤ اظہر ہذیانی کیفیت میں دہلیز پر بیٹھا تھا‘ لوگوں نے راؤ اطہر کی نبض ٹٹول کر دیکھی‘ وہ فوت ہو چکا تھا‘ راؤ اقبال کی ناک پر ہاتھ رکھا گیا‘ ان کے پھیپھڑوں میں ابھی زندگی باقی تھی‘ لوگ انہیں اٹھا کر ہسپتال کی طرف دوڑ پڑے لیکن راؤ اقبال کی زندگی کو بھی بجھتے دیر نہ لگی۔
یہ راؤ اقبال کون تھے اور ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ ایک تکلیف دہ کہانی ہے‘ یہ تکلیف دہ کہانی کسی ایک شخص یا کسی ایک خاندان کی کہانی نہیں‘ یہ پاکستان کے بے شمار خاندانوں‘ بے شمار گھرانوں اور بے شمار راؤ اقبالوں کی کہانی ہے‘ آپ جب یہ کہانی سنیں گے تو آپ کو اس کہانی کے کردار اپنے دائیں بائیں چلتے پھرتے نظر آئیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دراصل ہمارے سماج کی داستان ہے‘ اس سماج کی داستان جس نے تمام پرانی روایتیں‘ سارا پرانا سسٹم توڑ دیا لیکن نیا سسٹم اور نئی روایتیں قائم نہیں کیں چنانچہ بے شمار لوگ راؤ اقبال کی طرح زندگی کی سرحد عبور کر گئے اور باقی خوفناک انجام سے خوف زدہ ہیں‘ راؤ اقبال پیر محل کے رہنے والے تھے‘ گ ب 670/11 ان کا گاؤں تھا‘ یہ نیک‘ متحرک اور شریف انسان تھے‘ یہ خوش حال بھی تھے‘ یہ 1990ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے‘ راؤ صاحب کے چار بیٹے تھے‘ بڑا بیٹا جوانی میں انتقال کر گیا‘ دوسرا بیٹا راؤ قمر اقبال ’’ پی ایس او‘‘ میں جاب کرتا ہے‘ تیسرا بیٹا راؤ اظہر اقبال یونین کونسل کا نائب ناظم رہا اور چوتھا بیٹا راؤ اطہر بھی سیاست میں تھا‘ یہ بھی یونین کونسل کا ناظم رہا‘ راؤ صاحب زمین‘ جائیداد اور پٹرول پمپس کے مالک تھے‘ ڈیرہ بھی چلتا تھا اور خاندان بھی علاقے میں معتبر تھا لیکن پھر بدقسمتی نے ان کے دروازے پر دستک دے دی‘ ان کا تیسرا بیٹا راؤ اظہر نشے کا عادی ہو گیا‘ لوگ راؤ اظہر کو لالہ کہتے تھے‘ لالہ نشے کے ٹیکے لگانے لگا اور آہستہ آہستہ ذہنی اور اخلاقی طور پر تباہ ہو گیا‘ نشہ صرف ایک شخص کو تباہ نہیں کرتا‘ یہ ہمارے خطے‘ ہمارے معاشرے میں پورے خاندان کو برباد کر دیتا ہے‘ ہم ’’جوائنٹ فیملی سسٹم‘‘ میں رہتے ہیں‘ یہ دنیا کا بہترین سسٹم تھا لیکن ہماری زندگیوں میں آنے والی مغربیت نے یہ سسٹم تباہ کر دیا‘ ہم اگر پچھلے دس بیس برسوں میں سنگل فیملی سسٹم کی طرف چلے جاتے تو شاید ہم بچ جاتے لیکن بدقسمتی سے ہم اس سسٹم کو پسند نہیں کرتے لہٰذا صورتحال یہ ہے‘ جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہو چکا ہے اور سنگل فیملی سسٹم میں ہم جانا نہیں چاہتے چنانچہ اس کنفیوژن کا نتیجہ راؤ اقبال جیسی ٹریجڈی کی شکل میں نکل رہا ہے‘ لالہ (راؤ اظہر) نشے کا عادی ہو گیا‘ نشہ انسان کو حیوان بنا دیتا ہے‘ لالہ بھی حیوان بن گیا اور وہ والد سے اپنے حصے کی زمین جائیداد کا مطالبہ کرنے لگا‘ راؤ صاحب کی عمر 80 سال ہو چکی تھی‘ وہ اپنی نظروں کے سامنے اس زمین جائیداد کو تباہ ہوتے نہیں دیکھنا چاہیے تھے جو انہوں نے ریزہ ریزہ جمع کی چنانچہ انہوں نے صاف انکار کر دیا‘ ان کا چھوٹا بیٹا راؤ اطہر لائق تھا‘ والد نے اپنا کاروبار اسے سونپ دیا‘ وہ کام کرتا تھا لیکن لالہ کا مطالبہ بڑھتا چلا جا رہا تھا‘ والد نے اس کا ایک دلچسپ حل نکالا‘ لالہ کے دو بیٹے ہیں‘ یہ دونوں بیٹے ابھی چھوٹے ہیں‘ والد نے بیٹے (لالہ) کو پیش کش کی ’’میں تمہارا حصہ تمہارے دونوں بیٹوں کے نام کر دیتا ہوں‘‘ یہ ایک اچھی آفر تھی لیکن بیٹا نہ مانا‘ وہ اپنا حصہ اپنے والد کی زندگی میں لینا چاہتا تھا اور خود وصول کرنا چاہتا تھا‘ یہ کشمکش چلتی رہی یہاں تک کہ سوموار 10 اگست کی رات آ گئی‘ راؤ اقبال اپنے بیٹے راؤ اطہر کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھے تھے‘ لالہ آیا‘ اس نے پہلے اپنے بھائی راؤ اطہر کی کنپٹی پر دو گولیاں ماریں اور اس کے بعد باپ پر فائرنگ کر دی‘ راؤ اقبال کو پیٹ‘ ٹانگ اور کندھے میں تین گولیاں لگیں‘ راؤ صاحب شدید زخمی ہو گئے جبکہ بیٹا اطہر موقع پر جاں بحق ہو گیا‘ لالہ نے یہ کارروائی کی اور اپنے کمرے میں گھس کر سو گیا‘ لوگ آئے‘ پولیس آئی تو لالہ نے کہانی گھڑی‘ والد اور مقتول بیٹے راؤ اطہر میں جائیداد کا جھگڑا ہوا‘ راؤ اطہر خودکشی کرنے لگا‘ باپ نے اس سے پستول چھیننے کی کوشش کی‘ گولی چل گئی‘ والد زخمی ہو گیا‘بیٹے نے جب باپ کو خون میں لت پت دیکھا تو اس نے خود کو گولی مار لی‘ پولیس نے تفتیش شروع کی تو پتہ چلا مقتول اطہر دائیں ہاتھ سے کام کرتا تھا لیکن گولیاں سر میں بائیں جانب لگی ہیں‘ سر میں گولیوں کے دو نشان بھی تھے اور یہ ممکن نہیں ہوتا کوئی انسان دائیں ہاتھ سے اپنی بائیں کنپٹی پر پستول رکھے اور گولی چلا دے اور دوسرا خودکشی کے دوران کوئی شخص اپنی کنپٹی پر دو گولیاں نہیں چلا سکتا‘ راؤ اقبال کو بھی تین گولیاں لگی تھیں‘ راؤ صاحب اگر پستول چھیننے کی کوشش میں زخمی ہوتے تو صرف ایک گولی چلنی چاہیے تھی‘ تین گولیاں کیسے چل گئیں اور یہ راؤ صاحب کے جسم پر تین مختلف مقامات پر کیسے لگ گئیں لہٰذا کیس کلیئر تھا‘ راؤ صاحب اور ان کے بیٹے کو قتل کیا گیا تھا‘ پولیس نے تدفین کے بعد لالہ کو گرفتار کر لیا‘ تفتیش ہوئی تو لالہ نے اعتراف جرم کر لیا‘ پستول برآمد ہو گیا‘ مقتول بھائی راؤ اطہر کا پرس بھی قاتل بھائی کے کمرے سے نکلا‘ پولیس نے جب قاتل کے کمرے کی تلاشی لی تو وہاں سے نشے کے 29 ٹیکے بھی برآمد ہوئے۔
آپ اب راؤ اقبال خان کی کہانی کا تجزیہ کیجئے‘ راؤ صاحب پوری زندگی سیاسی اور سماجی ساکھ بناتے رہے‘ یہ زمین‘ جائیداد اور کاروبار میں بھی اضافہ کرتے رہے‘ انہوں نے زندگی میں کروڑوں روپے کا انبار لگا لیا لیکن انجام کیا ہوا؟ بڑا بیٹا جوانی میں جاں بحق ہو گیا‘ تیسرے بیٹے نے چوتھے بیٹے اور باپ دونوں کو قتل کر دیا‘ گرفتار ہوا اور یہ اب پھانسی چڑھ جائے گا‘ پیچھے کیا بچا‘ ایک بیٹا جو شاید اب اتنے حادثوں کے بعد‘ اپنے باپ‘ اپنے بھائی کی لاشیں دیکھنے کے بعد اور اپنے ہی بھائی کو والد اور بھائی کے قاتل کے روپ میں دیکھنے کے بعد اپنا ذہنی توازن برقرار نہ رکھ سکے اور وہ جائیداد‘ وہ زمین اور وہ بینک بیلنس بچ گیا جسے بچاتے بچاتے راؤ صاحب اپنی زندگی اور اپنے خاندان دونوں سے محروم ہو گئے‘ یہ کتنی خوفناک ٹریجڈی ہے! آپ اگر اس ٹریجڈی کو عینک بنا کر اپنے اردگرد دیکھیں گے تو آپ کو معاشرے میں بے شمار راؤ اقبال خان نظر آئیں گے‘ یہ بے چارے عمر بھر پیسہ پیسہ جوڑ کر تاج محل بناتے ہیں لیکن پھر اسی تاج محل کی دہلیز پر اپنے ان اپنوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جن کیلئے وہ اپنی ہر خواہش قربان کرتے رہے‘ ان بے چاروں کو کس جرم کی سزا ملتی ہے؟ ان لوگوں کے تین جرم ہوتے ہیں‘ ان کا پہلا جرم ضرورت سے زائد دولت ہوتی ہے‘ یہ خاندان کیلئے اتنی دولت جمع کر لیتے ہیں کہ ان کے بچے اپنے اندر کوئی ہنر پیدا نہیں کرتے‘ یہ بچپن سے اپنے آپ کو یہ یقین دلا بیٹھتے ہیں‘ ہمارے والد کو اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے‘ ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ فلسفہ‘ یہ فارمولہ بچوں کی تیس سال کی عمر تک چلتا ہے لیکن یہ جوں ہی تیس سال کی لکیر پر قدم رکھتے ہیں‘ خاندان میں بٹوارے کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں اور یہ آوازیں دولت‘ سکون اور اتفاق تینوں کو نگلنے لگتی ہیں‘ دوسرا جرم بچوں کی تربیت ہے‘ راؤ اقبال جیسے لوگ محنت اور جدوجہد کے دوران بچوں کی اخلاقی‘ نفسیاتی اور ذہنی تربیت پر توجہ نہیں دے پاتے چنانچہ بچے خراب ہو جاتے ہیں‘ آپ کبھی خاندانوں کے عروج اور زوال کی داستانیں پڑھیں‘ آپ کو وہاں ایک کا ہندسہ ملے گا‘ کوئی ایک شخص اٹھتا ہے اور پورے خاندان کا مقدر بدل کر رکھ دیتا ہے اور پھر خاندان میں لالہ جیسا کوئی ایک بیٹا‘ کوئی ایک سالہ‘ کوئی ایک بہنوئی اور کوئی ایک بھانجا پیدا ہوتا ہے اور پورے خاندان کو تباہ کر دیتا ہے اور راؤ اقبال جیسے لوگوں کا تیسرا جرم ان کی طویل العمری ہے‘ یہ لوگ اگر ساٹھ باسٹھ سال کی عمر میں فوت ہو جائیں تو بھی خاندان بچ جاتے ہیں‘ بچوں کو حصے مل جاتے ہیں اور یہ اچھی یا بری اپنی اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں‘ پرانے زمانوں میں ہر وہ بادشاہ اپنے ولی عہد کے ہاتھوں مارا گیا جس سے طویل العمری کا جرم سرزد ہوا‘ آپ بادشاہوں کے پروفائل نکالئے‘ آپ کو نوے فیصد بادشاہ ساٹھ باسٹھ سال کی عمر میں مرتے نظر آئیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ولی عہدوں کی مہربانی ہوتی تھی‘ وہ والد محترم کو زہر دے دیتے تھے یا پھر کسی جنگ میں مروا دیتے تھے اور بادشاہ اگر اس کے باوجود زندہ رہتے تھے تو پھر یہ بے چارے شاہ جہاں کی طرح اپنی آخری عمر اپنے بیٹے کی قید میں گزارتے تھے‘ راؤ اقبال خان بھی شاہ جہاں تھے‘ یہ بیٹے کو اسی سال کی عمر تک صحت مند اور چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے اور بیٹا یہ برداشت نہ کر سکا اور بیٹا بھی وہ جو نشے کا عادی تھا‘ جسے کوئی کام نہیں آتا تھا اور جس کی زندگی کا واحد مقصد والد کی دولت ہتھیانا تھا‘ راؤ اقبال اور ان کے خاندان کو ان کی یہ تین غلطیاں نگل گئیں۔
آپ بھی اگر راؤ اقبال خان ہیں یا آپ راؤ اقبال کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں تو آپ تین باتیں پلے باندھ لیں‘ آپ اپنے کسی بیٹے کو غیر تعلیم یافتہ اور بے ہنر نہ رہنے دیں‘ انہیں ہنر مند بنائیں اور یہ جوں ہی جوان ہوں آپ انہیں ملازمت کروائیں‘ یہ لوگ خواہ پانچ چھ برس بعد ملازمت چھوڑ دیں لیکن انہیں ملازمت ضرور کرنی چاہیے کیونکہ ملازمت انسان کو انسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے‘ یورپ اور امریکا کے تمام بزنس مین اور سیاسی خاندان اپنے بچوں کو ملازمت ضرور کرواتے ہیں‘ یہ انہیں ہنر بھی سکھاتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم بھی دلاتے ہیں‘ دو‘ آپ کا بچہ اگر کسی نفسیاتی یا اخلاقی بیماری کا شکار ہو گیا ہے‘ یہ نشے کا عادی ہے تو آپ وقت یا شادی کو اس کا علاج نہ سمجھیں‘ آپ فوری طور پر اس کا طبی علاج کروائیں کیونکہ آپ نے اگر اپنے کسی بیٹے کو وقت یا حالات پر چھوڑ دیا تو پھر وہ کسی بھی وقت آپ اور آپ کے خاندان کیلئے لالہ بن جائے گا اور آخری مشورہ‘ آپ اگر صحت مند ہیں اور طویل عمر پانا چاہتے ہیں تو آپ ساٹھ سال کی عمر میں اپنے تمام بچوں کو ان کا حصہ دے دیں‘ آپ اپنے پاس صرف اتنی دولت رکھیں جس سے آپ کا بڑھاپا عزت کے ساتھ گزر سکے کیونکہ آپ اگر دولت کو سینے سے لگائے رکھیں گے تو پھر آپ کے راؤ اقبال بننے کے چانسز بڑھتے جائیں گے‘ میں نے زندگی میں آج تک کسی شخص کو غربت اور بھوک سے مرتے نہیں دیکھا لیکن میں اب تک راؤ اقبال جیسے ایسے درجنوں لوگ دیکھ چکا ہوں جو اپنی ہی دولت کے ہاتھوں قتل ہو گئے‘ جو اپنی خوش حالی کی گولی کا شکار ہو گئے۔
دولت کے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگ
13
اگست 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں