اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

فرشتہ عمران خان

datetime 30  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

میاں نواز شریف بھی جس دن ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گے‘ یہ بھی یقینا مان لیں گے عمران خان میاں برادران اور پاکستان مسلم لیگ ن دونوں کے سب سے بڑے محسن ہیں‘ یہ نہ ہوتے تو شاید آج میاں نواز شریف وزیراعظم‘ میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ اور پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں نہ ہوتی‘ آپ کو اگر میری بات پر یقین نہ آئے تو آپ ایک بار پھر وقت کو ”ری وائینڈ“ کریں اور تاریخ کو 30 جولائی 2015ءسے جون 2013ءمیں لے جائیں اور میاں نواز شریف کی گورننس اور باڈی لینگویج کا تجزیہ کریں‘ مجھے یقین ہے آپ کوبھی یقین آ جائےگا‘ قوم اگر تجزیہ کرے تو اسے دو میاں نواز شریف نظر آئیں گے‘ ایک میاں نواز شریف جون 2013ءسے اگست 2014ءتک کے میاں نواز شریف تھے اور دوسرے میاں نواز شریف وہ میاں نواز شریف ہیں جو آج قوم کو نظر آ رہے ہیں‘ پہلے میاں نواز شریف صرف وزیراعظم تھے‘ وہ وزیراعظم شام سات بجے گھر چلا جاتا تھا اور صبح آٹھ بجے تک اس سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا تھا‘ وزیراعظم ہاﺅس اور پی ایم آفس میں روزانہ کل چار میٹنگز ہوتی تھیں اور یہ میٹنگز بھی بے نتیجہ رہتی تھیں‘ وزراءگروپوں میں تقسیم تھے‘ چودھری نثار علی خان اور خواجہ آصف ایک دوسرے سے سلام تک لینے کے روادار نہیں تھے‘ اسحاق ڈار اور چودھری نثار کے درمیان بھی اختلافات تھے‘ خواجہ سعد رفیق اپنے چھوٹے بھائی سلمان رفیق کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے سرد رویئے کی وجہ سے میاں برادران سے ناراض تھے‘ وزرات خارجہ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کا میدان جنگ بن چکی تھی‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہئیں یا جنگ حکومت اس ایشو پر بھی تقسیم تھی‘ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننی ہو گی میاں نواز شریف فوج کے ساتھ کمفرٹیبل تھے اور نہ ہی فوج کو میاں صاحب پر اعتماد تھا‘ میاں صاحب نے 2013ءکو حکومت سنبھالتے ہی فوج کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی‘ میاں شہباز شریف وزیراعظم کو روکتے رہے لیکن حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے گرد گھیرا تنگ کر دیا‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ بھی میاں صاحب کے تعلقات ٹھیک نہیں تھے‘ آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل ظہیر الاسلام اور سابق ڈی جی جنرل احمد شجاع پاشا کے ساتھ بھی تعلقات خرابی کی انتہا کو چھو رہے تھے‘ فروری 2014ءمیں ترکی کے صدر عبداللہ گل نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرنے کےلئے سہ فریقی کانفرنس بلائی‘ افغان صدر حامد کرزئی نے وہاں وزیراعظم کی موجودگی میں آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بدتمیزی کی اور ہمارے وزیراعظم خاموشی سے یہ تماشہ دیکھتے رہے‘ حامد میر پر حملے کے بعد حکومت جیو کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور آئی ایس آئی اور فوج کو تنہا چھوڑ دیا گیا‘ وزیراعظم حامد میر کی عیادت کےلئے بھی چلے گئے جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی کو خیریت کا فون تک نہ کیا‘ فوج نے اس رویئے کو سخت ناپسند کیا‘ خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید کے بیانات نے رہی سہی کسر پوری کر دی‘ پرویز رشید نے دلیل اور غلیل کا بیان دے دیا‘ خواجہ آصف کا بیان جرنیل معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں‘ یہ پاﺅں پڑے ہوئے ہیں اور خواجہ سعد رفیق کے بیان” مشرف غدار ہیں‘ مرد کے بچے بنیں‘ ڈرامے بازی چھوڑیں“ نے بھی غلط فہمیوں کے پرندوں کو آسمان تک پہنچا دیا‘ ہم اگر ان دنوں کا تجزیہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا‘ فوجی قیادت میاں نواز شریف کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھی‘ آرمی چیف ملاقات کےلئے وزیراعظم کے پاس آتے تھے تو کوئی نہ کوئی لیفٹیننٹ جنرل ان کے ساتھ ہوتا تھا‘ بھارت کے ساتھ تجارت پر بھی فوج کو تحفظات تھے‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات پر بھی فوج خوش نہیں تھی اور وزیراعظم کے غیر ملکی دورے بھی فوج کو پریشان کر رہے تھے۔
آپ اگر ماضی میں جائیں تو آپ کو محسوس ہو گا حکومت کے پہلے سال تک وزیراعظم کی حکومتی معاملات پر گرفت ڈھیلی تھی‘ وزراءکی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیا جا رہا تھا‘ حکومت خاندانی اقتدار میں تبدیل ہو چکی تھی‘ وزیر اعظم غیر ملکی دورے پر جاتے تھے تو پورے خاندان کو ساتھ لے جاتے تھے‘ میاں منشاءکے ساتھ کاروباری تعلقات کی خبریں بھی عام تھیں اور میگا کرپشن کی کہانیاں بھی سنی جا رہی تھیں‘ ملک کے سیاسی تجزیہ نگار یہ صورتحال دیکھتے تھے تو وہ برملا کہہ اٹھتے تھے‘ میاں نواز شریف نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور یہ اس بار بھی پانچ سال پورے نہیں کر سکیں گے۔ مجھے بھی اس وقت یقین تھا میاں نواز شریف 2014ءپار نہیں کر سکیں گے کیونکہ محاذ آرائی کسی بھی وقت صورتحال کو 12 اکتوبر 1999ءتک لے جا سکتی تھی لیکن پھر عمران خان فرشتہ بن کر میاں نواز شریف کی زندگی میں آئے اور ملک کا سارا سیاسی نقشہ بدل گیا‘ عمران خان کا دھرنا شروع ہوا اور میاں نواز شریف جاگ گئے‘ یہ اب دیر تک دفتر بیٹھتے ہیں‘ وزراءکے باہمی اختلافات بھی ختم ہو چکے ہیں‘ وہ اپوزیشن جس سے میاں صاحب کے تعلقات کشیدہ تھے وہ اب میاں نواز شریف کی محافظ بن چکی ہے‘ فوج اور حکومت کے تعلقات بھی مثالی ہیں‘ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق دونوں فوج کے ترجمان بن چکے ہیں‘ پرویز رشید بھی فوج کی محبت میں سینہ ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ وزارت خارجہ دوبارہ فوج کے سائے میں آ گئی‘ حکومت اب ضرب عضب کے معاملے میں فوج کی کوئی فرمائش نہیں ٹالتی‘ فوجی عدالتیں بھی بنیں‘ کراچی کے معاملات بھی فوج کے پاس چلے گئے‘ آپ حکومت اور فوج کے تعلقات ملاحظہ کیجئے‘ 16 جون 2015ءکو آصف علی زرداری نے فوج کے خلاف بیان دیا تو میاں نواز شریف نے نہ صرف زرداری کے ساتھ اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی بلکہ پوری حکومت پتھر اٹھا کر آصف علی زرداری کے پیچھے دوڑ پڑی اور میاں صاحب اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے وہ احسانات بھی بھول گئے جو اس نے دھرنے میں ن لیگ پر کئے تھے‘ دھرنے سے قبل کوئی غیر ملکی مہمان آرمی چیف سے ملنا چاہتا تھا تو حکومت اس ملاقات کی منظوری دیتی تھی لیکن دھرنے کے بعد آرمی چیف دنیا بھر کے دورے کر رہے ہیں‘ یہ وہاں سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول بھی پاتے ہیں اور حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا‘ حکومت نے اپنی رفتار بھی بڑھا دی‘ راولپنڈی کی میٹرو مکمل ہو گئی‘ ملتان میں کام جاری ہے‘ یہ بھی 25 دسمبر تک مکمل ہو جائے گی‘ بجلی کے منصوبوں پر بھی دن رات کام ہو رہا ہے‘ ایل این جی میں بھی خوشخبری آ رہی ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی دوڑ بھاگ رہی ہے اور وہ میاں نواز شریف جو ایک سال پہلے تک اپنی پارٹی کے اہم ترین وزراءسے ملنے کےلئے تیار نہیں ہوتے تھے وہ اب 21 ویں ترمیم سے لے کر اقتصادی راہداری تک اور آرمی پبلک سکول کے سانحے سے لے کر پی ٹی آئی کو ”ڈی سیٹ“ نہ کرنے تک کے فیصلے ملک کی اہم سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے کر کرتے ہیں‘ یہ کیا ہے؟ یہ تبدیلی کہاں سے آئی؟ یہ سب عمران خان کی مہربانی ہے‘ عمران خان اگر میاں نواز شریف پر دھرنے کی نوازش نہ کرتے تو میاں نواز شریف بدستور سوتے رہتے‘ یہ فوج کے ساتھ اپنی محاذ آرائی بھی جاری رکھتے اور یوں یہ 2014ءمیں واقعی فارغ ہو جاتے‘ ملک میں مارشل لاءلگ جاتا‘ قومی حکومت بن جاتی یا پھر نئے الیکشن ہو چکے ہوتے اور جہانگیر ترین یا اسد عمر وزیراعظم‘ شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ اور ہمارے دوست شفقت محمود وزیر تجارت کا قلم دان سنبھال چکے ہوتے اور محترمہ شیریں مزاری ناراض ہو کر گھر بیٹھ چکی ہوتیں لیکن ایسا نہ ہوا‘ عمران خان نے میاں نواز شریف کے کان میں سیٹی بجا کر انہیں اٹھا دیا اور یہ بھی آصف علی زرداری کی طرح زمینی حقائق سے واقف ہو گئے‘ یہ بھی جان گئے پاکستان میں حکومت کرنی ہے تو پھر حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا اور میاں نواز شریف نے یہ سمجھوتہ کر لیا اور یہ میاں نواز شریف دوسرے میاں نواز شریف ہیں۔
عمران خان میاں نواز شریف کےلئے فرشتہ بن کر کیوں آئے! آپ کو یہ جاننے کےلئے نواز شریف اور عمران خان کا ٹریک ریکارڈ دیکھنا ہو گا‘ میاں نواز شریف دراصل ایک خوش نصیب انسان ہیں‘ قسمت ہر دور میں ان پر مہربانی رہی‘ آپ 1980ءسے 2015ءتک میاں نواز شریف کی 35 سالہ سیاسی تاریخ کا جائزہ لے لیجئے‘ آپ دو نکتوں تک پہنچ جائیں گے‘ ایک‘ میاں نواز شریف کو آج تک کوئی شخص نقصان نہیں پہنچا سکا‘ وہ تمام لوگ جنہوں نے آج تک انہیں فارغ کرنے کی کوشش کی وہ خود فارغ ہو گئے اور یہ اقتدار میں واپس آ گئے‘ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے قدرت جب بھی اپنا استحقاق استعمال کرتی ہے‘ یہ اپنا فیصلہ میاں نواز شریف کے پلڑے میں ڈال دیتی ہے‘ آپ دور نہ جائیں‘ آپ دھرنے کو دیکھ لیں‘ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خوفناک ترین حملہ تھا لیکن میاں نواز شریف اس حملے میں بھی بال بال بچ گئے‘ یہ ان کی خوش قسمتی نہیں تو کیا ہے؟ دو‘ میاں نواز شریف کو جب بھی نقصان پہنچا اس کی وجہ کوئی اور نہیں تھا ‘یہ خود تھے‘ آپ ان کی سیاسی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئے‘ یہ آپ کو ہمیشہ اپنی وجہ سے مسائل کا شکار ہوتے نظر آئیں گے‘ ہم اگر یہ کہیں میاں نواز شریف اپنا ڈیزاسٹر خود ہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ یہ وہ مولا جٹ ہیں جسے مولا نہ مارے تو مولا نہیں مر سکتا جبکہ آپ اس کے مقابلے میں عمران خان کا ٹریک بھی نکال کر دیکھ لیں‘ یہ آپ کو ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال کے علاوہ ہر جگہ بدقسمتی کا شکار ہوتے نظر آئیں گے‘ عمران خان کی کوشش ہمیشہ لاجواب ہوتی ہے لیکن یہ آخر میں پہنچ کر کوئی نہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ دوبارہ پہلی سیڑھی پر آ جاتے ہیں اور خان صاحب کے ساتھ اس بار بھی یہی ہوا۔
کھیل کا فائنل راﺅنڈ ختم ہو چکا ہے‘ ملک کے دونوں کھلاڑیوں کو اب اپنی اپنی پالیسی ”ری وزٹ“ کرنی چاہیے‘ عمران خان کو چاہیے‘ یہ میاں نواز شریف کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اور اس لمحے کا انتظار کریں جب میاں نواز شریف کے اندر سے دوبارہ وہ پہلا نواز شریف باہر آ جائے جو کیلے پر پاﺅں رکھنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا یوں خان صاحب کا کام ہو جائے گا‘ یہ اگر نواز شریف کو اسی طرح الجھائے رکھیں گے تو انہیں فوج سے لڑنے کی فرصت نہیں ملے گی اور یوں خان صاحب ”اوور ایج“ ہو جائیں گے‘ میاں صاحب کو بھی چاہیے یہ بھی اس راﺅنڈ کو فائنل سمجھ کر نیا محاذ نہ کھولیں‘ یہ بھی صبر کریں‘ کیوں؟ کیونکہ اگلی غلطی ان کی اپنی غلطی ہو گی اور یہ آج تک اپنی غلطی سے نہیں بچ سکے‘ میاں صاحب کے اندر کا مولا ہمیشہ ان کا قاتل ثابت ہوا۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…