جمعرات‬‮ ، 21 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کیا دیکھا‘ کیا سیکھا

datetime 22  جولائی  2015
حضرت شاہ شمسںؒ تبریز 
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مسافر 16 گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد عید سے دو دن قبل اسلام آباد پہنچا‘ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں 25 دن گزرے‘ یہ 25 دن مسافر کی زندگی کے 45 سالوں سے کتنے مختلف تھے؟ یہ وہ سوال تھا جو وہ سارا راستہ اپنے آپ سے پوچھتا رہا‘ جواب واضح تھا‘ مسافر نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بے شمار ایسی چیزیں دیکھیں جو باقی دنیا سے مختلف تھیں‘ مثلاً آسٹریلیا عیسائی دنیا کا واحد ترقی یافتہ ملک ہے جس میں پرائمری کے بعد لڑکیوں کے سکول الگ ہو جاتے ہیں‘ ملک میں ”کو ایجوکیشن“ کی سہولت بھی موجود ہے‘ وہ والدین جو اپنی بچیوں کو مخلوط سکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں‘ وہ بچیوں کو مخلوط سکولوں میں بھجوا دیتے ہیں جبکہ باقی والدین لڑکوں کو مردانہ سکولوں اور بچیوں کو زنانہ سکولوں میں داخل کرا دیتے ہیں‘ یہ سہولت یورپ اور امریکا میں موجود نہیں‘ سکول بارہ جماعتوں تک ہوتے ہیں‘ بارہ درجے پاس کرنے کے بعد طالب علم یونیورسٹیوں میں چلے جاتے ہیں‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تعلیم کو بہت اہمیت دے رہے ہیں‘ آپ ملک میں کوئی بھی کام کرنا چاہیں ‘آپ بال کا ٹنا چاہیں یا انشورنس ایجنٹ بننا چاہیںیا پھر کشتی چلانا چاہیں آپ کےلئے ڈپلومہ ضروری ہو گا‘ آپ اس کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکیں گے چنانچہ ملک بھر میں ہزاروں تعلیمی سنٹر کھلے ہیں‘ یہ سنٹر ”آر ٹی او“ کہلاتے ہیں‘ یہ ادارے شہریوں کو چھوٹے چھوٹے کورسز کرواتے ہیں‘ حکومت کورسز کرنے اور کروانے والوں دونوں کو امداد بھی دیتی ہے‘ کوئینز لینڈ سٹیٹ میں حکومت ”آر ٹی اوز“ کو فی سٹوڈنٹ کے لحاظ سے ادائیگی کرتی ہے‘ کاسٹ آف لیونگ زیادہ ہے چنانچہ آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے شہری سکول کی تعلیم کے بعد یونیورسٹی جانے کی بجائے پروفیشنل کورس کرتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں‘ آپ کو اعلیٰ تعلیم کے رجحان میں اس کمی کے باعث یونیورسٹیوں میں زیادہ تر طالب علم غیر ملکی نظر آتے ہیں‘ آپ کسی یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو وہاں چینی اور بھارتی طلباءکا قبضہ نظر آئے گا‘ حکومت اس مسئلے کو سیریس لے رہی ہے چنانچہ یہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے طالب علموں کو شہریت دے کر انہیں وہیں رکھ لیتی ہے یوں ان کو سکلڈ لوگ بھی مل جاتے ہیں اور شہریوں کی ”ٹیکس منی“ بھی ضائع نہیں ہوتی‘ ان دونوں ملکوں نے چھوٹی اور مشکل جابز اپنے شہریوں کےلئے آسان بنا دی ہیں‘ تعمیرات ان دونوں ملکوں میں مہنگا ترین پیشہ ہے‘ آپ کو اس شعبے میں صرف آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے لوگ نظر آئیں گے‘ آپ کو سڑک سے کثیر منزلہ عمارت کی تعمیر تک صرف گورے دکھائی دیں گے لیکن آپ لیبارٹریوں‘ ہسپتالوں‘ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور فیکٹریوں میں چلے جائیں آپ کو وہاں غیر ملکی زیادہ نظر آئیں گے‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے‘ حکومت کو جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے یہ وہاں غیر ملکیوں کو شہریت کا لالچ دے کر ”فٹ“ کر لیتی ہے اور جہاں کم تعلیم اور معمولی ہنر سے کام چل سکتا ہے یہ وہاں اپنے لوگوں کو فوقیت دیتی ہے‘ حکومت نے آبادی اور وسائل دونوں پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے‘ آسٹریلیا کا رقبہ 76 لاکھ‘ 92 ہزار 24 مربع کلو میٹر ہے‘ یہ پاکستان سے نو گنا بڑا ملک ہے لیکن آسٹریلیا کی آبادی صرف دو کروڑ 38 لاکھ ہے گویا یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے دس گنا چھوٹا ملک ہے‘ آسٹریلیا کا نوے فیصد رقبہ بے آباد ہے‘ یہ اگر چاہے تو یہ اس نوے فیصد رقبے پر پاکستان جیسے دس ملک آباد کر سکتا ہے لیکن یہ جانتا ہے ملکوں کو صرف رقبہ درکار نہیں ہوتا انہیں وسائل بھی چاہیے ہوتے ہیں چنانچہ یہ امیگریشن کے معاملے میں بہت سخت ہیں‘ یہ غیر ہنر مند لوگوں کو ملک میں نہیں گھسنے دیتے ہاں البتہ آپ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہیں اور آپ آسٹریلیا کے شہریوں کےلئے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں تو آسٹریلیا کے دروازے آپ کےلئے کھلے ہیں‘ آپ خواہ دنیا کے کسی بھی خطے‘ کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں آپ کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں خوش آمدید کہا جائے گا‘ پاکستانی ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور کمپیوٹر ایکسپرٹس اس سہولت کا جی بھر کر فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ آپ کو امریکا کے بعد آسٹریلیا میں سینکڑوں ڈاکٹر ملیں گے۔ حکومت وسائل کو بہت اہمیت دیتی ہے‘ یہ جانتی ہے ہم دنیا کو انڈسٹری میں مات نہیں دے سکیں گے چنانچہ انہوں نے زراعت کو اپنی صنعت بنا لیا‘ یہ لوگ لاکھوں ایکڑ پر گنا‘ کیلا‘ کپاس اور پھل اگاتے ہیں‘ آسٹریلین گائے اور بھیڑیں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ڈیری پراڈکٹس پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شمار ہوتے ہیں‘ یہ ہر سال 24 بلین ڈالر کی ڈیری مصنوعات بیچتے ہیں‘ دنیا کا مہنگا ترین شہد نیوزی لینڈ میں پیدا ہوتا ہے‘ یہ دونوں ملک دنیا بھر کو گوشت بھی سپلائی کرتے ہیں۔
آسٹریلیا میں پانی کم ہے چنانچہ حکومت نے جدید ترین ”ایری گیشن“ سسٹم ایجاد کرا لیا‘ یہ سسٹم دونوں ملکوں میں استعمال ہوتا ہے‘ آپ اس سسٹم سے کم پانی سے زیادہ فصل حاصل کرتے ہیں‘ آپ اپنے ٹوائلٹ کا فلش سسٹم دیکھئے‘ آپ کو فلش ٹینک کے ساتھ دو بٹن نظر آئیں گے‘ ایک بٹن دبانے سے پوری ٹینکی خالی ہو جاتی ہے جبکہ دوسرے بٹن سے صرف آدھا ٹینک استعمال ہوتا ہے‘ یہ سسٹم آسٹریلیا نے ایجاد کیا اور یہ اس وقت پوری دنیا میں رائج ہے‘ اس سے پانی کی بچت ہوتی ہے۔ مسافر 25 دن عام ٹونٹی کا پانی پیتا رہا‘ کیوں؟ کیونکہ پورے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں ٹونٹی کا پانی پینے کےلئے محفوظ ہے چنانچہ وہاں گورنر جنرل سے لے کر عام شہری تک لوگ ٹونٹی کا پانی پیتے ہیں‘ منرل واٹر صرف سفر کے دوران پیا جاتا ہے‘ آپ اس کے مقابلے میں پاکستان کا کوئی ایسا شہر دکھا دیجئے جس میں ٹونٹی کا پانی پیا جا سکتا ہو‘ ہمارے ملک میں وزیراعظم سے واسا کے چیئرمین تک اور وزیراعلیٰ سے عام شہری تک منرل واٹر پینے پر مجبور ہیں اور جو لوگ نہیں پیتے ان کی زندگی ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی محتاج ہو جاتی ہے چنانچہ عوام کے پاس دو آپشن ہیں‘ یہ منرل واٹر کمپنیوں کو پیسے دیں یا پھر ڈاکٹروں اور فارما سوٹیکل کمپنیوں کی خدمت کریں‘ کاش ہم ملک کو صاف پانی ہی فراہم کر دیں۔ آسٹریلیا کی ٹرینوں کی نشستیں بھی مختلف ہیں‘ آپ نشست کی پشت کو کھینچ کر اس کا رخ بدل سکتے ہیں‘ سیٹ وہیں رہتی ہے لیکن بیک کو آگے اور پیچھے کیا جا سکتا ہے یوں آپ اپنا پورا رخ بدل سکتے ہیں‘ یہ بندوبست ٹرینوں کے رخ کو مد نظر رکھ کر کیا گیا‘ ٹرینوں میں انجن کبھی ڈبوں کے آگے لگتا ہے اور کبھی پیچھے چنانچہ گھنٹے بعد مسافروں کا رخ بدل جاتا ہے‘ وہ پہلے آگے کی طرف جا رہے ہوتے ہیں اور پھر ٹرین انہیں پیچھے سے کھینچ رہی ہوتی ہے‘ مسافر اس صورتحال میں کمفرٹیبل فیل نہیں کرتے چنانچہ حکومت نے سپیشل سیٹس لگا دیں‘ مسافر اب ان سیٹس کو آگے پیچھے کر کے اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ مسافر کو آسٹریلیا میں ایک اور دلچسپ چیز بھی نظر آئی‘ آسٹریلیا کا ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ہر سال انکم ٹیکس وصول کرنے کے بعد ٹیکس دہندہ کو ایک خط لکھتا ہے‘ یہ ٹیکس دہندہ کا شکریہ ادا کرتا ہے‘ ملکی معیشت کے اعداد و شمار دیتا اور پھر اسے بتاتا ہے آپ نے اس معیشت میں کتنا حصہ ڈالا اور اب آپ کا ٹیکس کہاں کہاں خرچ ہو گا‘ یہ خط مسافر کےلئے ایک دلچسپ چیز تھی کیونکہ اس خط میں حکومت وہ تمام معلومات عام شہری کے دروازے تک پہنچاتی ہے جو ہماری حکومتیں ملک کے خاص لوگوں تک سے خفیہ رکھتی ہیں‘ آسٹریلین حکومت ٹیکس کا سب سے بڑا حصہ صحت پر خرچ کرتی ہے‘ اس کے بعد ویلفیئر پر اور اس کے بعد تعلیم اور دفاع کی باری آتی ہے‘ آسٹریلین لوگ ناموں کو مختصر کرنے کے ماہر ہیں‘ میں وہاں پہنچ کر جاوید سے ”جے و“ مظہر میز تھا‘ رضوی رِز تھا‘ شہباز شیب تھا‘ عامر امیر تھا اور فیاض فیض۔ یہ ہر نام‘ ہر لفظ کو مختصر کر دیتے ہیں‘ فٹ بال کو پوری دنیا میں فٹ بال کہا جاتا ہے لیکن آسٹریلین فٹ بال کو ”فٹی“ کہتے ہیں‘ آسٹریلین فٹی اپنے نام کی طرح فٹ بال سے ذرا سا مختلف کھیل ہے‘ یہ لوگ یونیورسٹی کو ”یونی“ کہتے ہیں‘ مسافر نے دنیا کے کسی حصے میں یونیورسٹی کو یونی نہیں سنا۔ آسٹریلیا کے پاس کھلا آسمان اور وسیع ساحل ہیں‘ حکومت نے ان دونوں کو سیاحت کا ذریعہ بنا لیا‘ ملک میں ایسی سینکڑوں ہوائی کمپنیاں ہیں جو سیاحوں کو پیرا شوٹ کے ذریعے آسمان سے کودنے کا موقع فراہم کرتی ہیں‘ یہ کھیل ”سکائی ڈائیو“ کہلاتا ہے‘ مسافر نے بھی زندگی میں پہلی بار سڈنی کے مضافات میں ”سکائی ڈائیو“ کی‘ ہمیں جہاز کے ذریعے چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر لے جایا گیا اور وہاں سے نیچے پھینک دیا گیا‘ یہ ایک ہولناک تجربہ تھا لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ شاندار تفریح بھی تھی‘ ساحلوں پر ”سکوبا ڈائیونگ“ بھی کرائی جاتی ہے‘ آپ کی پشت پر آکسیجن کا سیلنڈر باندھ کر آپ کو گہرے پانی میں پھینک دیا جاتا ہے اور آپ پانی میں میل ڈیڑھ میل نیچے جا کر آبی زندگی دیکھتے ہیں‘ مسافر پانی سے گھبراتا ہے چنانچہ یہ سکوبا ڈائیونگ نہ کر سکا۔
پاکستان سے لوگ پہلی بار 1861ءمیں آسٹریلیا گئے تھے‘ یہ انگریز کا زمانہ تھا‘ آسٹریلیا آباد ہو رہا تھا‘ کراچی کے بلوچ اونٹ لے کر آسٹریلیا پہنچے اور یہ اور ان کے اونٹ آسٹریلیا میں رچ بس گئے‘ یہ لوگ آج بھی وہاں موجود ہیں لیکن یہ آسٹریلین بن چکے ہیں‘ یہ خان کی مناسبت سے ”غان“ کہلاتے ہیں‘ ان کی اکثریت مذہب تک تبدیل کر چکی ہے‘ آسٹریلیا میں 1861ءتک اونٹ نہیں تھا‘ پاکستانی خان اونٹ لے کر آسٹریلیا گئے‘ آج آسٹریلیا میں پاکستانی اونٹوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہ لوگ نہ صرف اونٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں بلکہ یہ اونٹوں کی آبادی کنٹرول رکھنے کےلئے انہیں گولی مارنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں‘ میلبورن کے قدیم ریلوے سٹیشن کے ساتھ لوہے کا پرانا پل ہے‘ اس پل پر ان 128 ممالک کی تختیاں لگی ہیں جن کے باشندے آسٹریلیا میں موجود ہیں‘ ان 128 تختیوں میں پاکستان کی تختی بھی شامل ہے‘ تختی پر لکھا ہے‘ آسٹریلیا میں پاکستانی 1861ءسے آنا شروع ہوئے‘ یہ 1900ءسے قبل کراچی‘ لاہور‘ سیالکوٹ اور کے پی کے سے آئے‘ ان کی آمد کا سلسلہ آج بھی جاری ہے‘ مسافر تختی کے پاس رک گیا اور اس نے اپنے آپ سے پوچھا ”رزق کتنی خوفناک چیز ہے‘ یہ انسان سے وطن بھی چھین لیتا ہے اور رشتے بھی“ مسافر نے دیکھا‘ میلبورن کے اس پل پر 128 ممالک کی تختیوں کے سائے میں زندگی کی یہ سب سے بڑی حقیقت لکھی تھی۔
ہم انسان رزق کھاتے ہیں لیکن یہ رزق اکثر اوقات ہم انسانوں کے وطن سمیت سارے رشتے کھا جاتا ہے‘ ہم انسان کس قدر مظلوم ہیں‘ مسافر نے 25 دن کے اس سفر میں ہر جگہ یہ دیکھا‘ ہر جگہ یہ سیکھا۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…