وناکا کوئینز ٹاﺅن کے ہمسائے میں آباد ہے‘ یہ وہاں سے 93 کلو میٹر دور تھا‘ رات ہو چکی تھی لیکن ہم نے وناکا جانے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ سفر بھی مشکل تھا‘ رات تھی‘ بارش تھی‘ دھند تھی اور بلیک آئس تھی لیکن ہم اس کے باوجود وناکا پہنچ گئے‘ میں یہاں خالد بلوچ اور ان کے دوست علی تاجک کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں‘ ہم جہاں بھی گئے علی تاجک نے انٹر نیٹ پر سرچ کر کے ہمارے لئے مناسب ہوٹل بک کرا دیا‘ ہم ہوٹل کا ایڈریس ”جی پی ایس“ میں ڈالتے اور وہاں پہنچ جاتے‘ ہمارا موٹل وناکا میں بھی بک تھا‘ بزرگ خاتون موٹل کی نگران تھی‘ خاتون نے ٹٹول ٹٹول کر نوٹ گنے‘ ٹٹول ٹٹول کر چابیاں تلاش کیں اور ہمیں صفر کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کمرے تک پہنچایا‘ وناکا کیسا تھا؟ ہمیں رات کے وقت اندازہ نہ ہو سکا لیکن صبح کے وقت ہم نے جوں ہی پردے ہٹائے‘ہمارے منہ سے بے اختیار سبحان اللہ نکل گیا‘ جنت میں اگر کوئی شہر ہو گا تو وہ شہر یقینا وناکا جیسا ہو گا‘ یہ شہر ٹیرس کی طرح پہاڑ پر بنا ہے‘ سامنے صاف پانی کی جھیل ہے‘ جھیل کے گرد گھنے جنگل ہیں اور جنگلوں کے آخری سرے پر برف پوش پہاڑ ہیں‘ پہاڑوں نے وناکا کو چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے‘ یہ شہر بھی شہر کم اور پوسٹ کارڈ پکچر زیادہ دکھائی دیتا ہے‘ آپ جس طرف نگاہ ڈالتے ہیں آپ کے ذہن میں کلک کلک چند سیکنڈ میں سینکڑوں فوٹو گرافس بن جاتے ہیں‘ ہم دیوانہ وار شہر کی طرف دوڑ پڑے‘ گاڑیوں پر برف جم چکی تھی‘ سڑکیں بھی بلیک آئس کے پردے میں چھپی تھیں‘ ٹریفک کا سلسلہ منقطع تھا‘ لوگ فٹ پاتھوں پر جاگنگ کر رہے تھے‘ ان کے نتھنوں سے بھاپ نکل رہی تھی اور منہ سے آوازیں اور جھیل پر کہرے کی تہہ ہلکورے لے رہی تھی‘ ہم شہر میں نکل کھڑے ہوئے‘ سڑکوں کے کنارے برف کا شیشہ سا جما تھا‘ سڑک پر جمی ہوئی برف باریک پلاسٹک شیٹ کی طرح ہوتی ہے‘ آپ کو محسوس ہوتا ہے آپ کے پیروں تلے دودھیا رنگ کی شیٹ بچھی ہے‘ آپ اس شیٹ پر جوں جوں آگے بڑھتے ہیں آپ کے پیروں تلے توں توں برف کا شیشہ ٹوٹتا جاتا ہے‘ برف ٹوٹنے کی یہ چڑ چڑ اور ٹک ٹک بھی ایک نایاب تجربہ ہے‘ آپ جب تک خود اس تجربے سے نہیں گزرتے آپ اس وقت تک اس کے مزے کو نہیں سمجھ سکتے‘ ہم برف کا شیشہ توڑتے توڑتے آگے بڑھ رہے تھے‘ شہر ہمارے سامنے کھل رہا تھا‘ سڑکیں کھلی اور خوبصورت تھیں‘ گھر لکڑی کے تھے اور ان کی کھڑکیاں پہاڑوں کی طرف کھلتی تھیں‘ صحنوں میں اونچے اونچے درخت تھے اور درختوں کے دائیں بائیں بیلیں اور پھولوں کی کیاریاں تھیں‘ سردیوں کی وجہ سے درختوں کی شاخیں مرجھائی ہوئی تھیں لیکن یہ مرجھائی ہوئی سرمئی شاخیں ماحول میں خواب گھول رہی تھیں‘ یوں محسوس ہوتا تھا قصبے پر ایک مقدس نیند اتر رہی ہے‘ ایک ایسی نیند جس میں اندیشوں کا کوئی کانٹا‘ فکر کا کوئی کنکر نہیں۔
ہم چلتے چلتے شہر کے خوبصورت ترین حصے میں پہنچ گئے‘ یہ خوبصورت ترین گھروں کی خوبصورت ترین اور خاموش ترین بستی تھی‘ ہمیں بستی کے حسن نے جکڑ لیا اور ہم بے وقوفوں کی طرح منہ کھول کر گھروں کو دیکھنے لگے‘ بستی کے تمام گھر ایک جیسے‘ خوبصورت اور آرام دہ تھے‘ کھڑکیوں کے پردے ہٹے ہوئے تھے‘ ہم نے اندر جھانک کر دیکھنا شروع کر دیا‘ تمام گھروں میں آتش دان تھے اور ان آتش دانوں کے گرد بزرگ بیٹھے تھے‘ ہم حیرت سے بستی کو دیکھنے لگے‘ بستی کے آخری سرے پر ”ریٹائرمنٹ ہومز“ کا بورڈ لگا تھا‘ مظہر بخاری نے عقدہ کھولا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی ”ریورس مارگیج“ کا سسٹم موجود ہے‘ بینک ریٹائرمنٹ ہومز خریدتے ہیں‘ ریٹائر لوگ اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی بینکوں میں جمع کرا دیتے ہیں اور بینک انہیں خوبصورت گھر بھی دے دیتے ہیں اور ساتھ ہی ماہانہ خرچ بھی۔ یہ بزرگ ان گھروں میں آرام سے زندگی گزارتے ہیں‘ یہ فوت ہو جاتے ہیں تو بینک وصیت کے مطابق باقی ماندہ رقم ان کے لواحقین میں تقسیم کر دیتا ہے اور مکان کسی نئے بزرگ کے حوالے کر دیتا ہے‘ مجھے یہ بندوبست اچھا لگا‘ یہ بندوبست اس وقت یورپ اور امریکا میں بھی موجود ہے‘ کاش کوئی ادارہ‘ کوئی کمپنی پاکستان میں بھی یہ انتظام کر دے‘ اس سے ان ہزاروں بزرگوں کو فائدہ ہو گا جو بڑھاپے میں بچوں کے آسرے پر خوار ہوتے ہیں‘ ہم نے وناکا جھیل کے گرد چکر لگایا‘ یہ سیر میری زندگی کی شاندار ترین سیروں میں سے ایک تھی‘ ہمارے سروں پر درخت جھکے تھے‘ قدموں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے جھرنے بہہ رہے تھے‘ دائیں جانب جھیل تھی اور بائیں جانب شہر کی چھتیں اور مارکیٹیں۔ وہ سب کچھ فلم کا سین محسوس ہوتا تھا‘ ہم دیر تک وہاں ٹہلتے رہے‘ بارہ بجے موسم گرم ہوا‘ برف پگھلی اور سڑک ٹریفک کےلئے کھل گئی اور ہم کرائسٹ چرچ کےلئے روانہ ہو گئے‘ کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ کا تیسرا بڑا شہر ہے‘ ہم نے اتوار کے دن کرائسٹ چرچ سے فلائیٹس لینی تھیں‘ مظہر بخاری نے سڈنی واپس جانا تھا اور میں نے میلبورن کی فلائیٹ پکڑنی تھی‘ ہماری خواہش تھی ہم رات سے پہلے پہلے کرائسٹ چرچ پہنچ جائیں چنانچہ ہم بارہ بجے وناکا سے روانہ ہو گئے‘ وناکا سے کرائسٹ چرچ کے راستے میں دو برفانی درے آتے ہیں‘ لنڈس پاس پہلا اور بلند ترین درہ ہے‘ آپ جوں جوں اس درے کی طرف بڑھتے جاتے ہیں‘ آپ کے گرد برف کا ریگستان وسیع ہوتا جاتا ہے‘ آپ کو اگر کبھی ریگستان دیکھنے کا موقع ملا ہو تو آپ بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیںآپ جس طرف دیکھتے ہیں آپ کو ہاں دور دور تک‘ تاحد نظر کروٹ بدلتی ریت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا‘ برفیلے دروں کی صورتحال بھی ایسی ہی ہوتی ہے‘ آپ جس طرف نظر دوڑاتے ہیں‘ آپ کو برف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا‘ لنڈس پاس بھی ایک ایسا ہی مقام ہے‘ آپ کو آسمان سے زمین اور مشرق سے مغرب تک سفید برف کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا‘ ہم درے میں پہنچے تو اس کے حسن نے ہمیں مکڑی کے جالے میں الجھی مکھی کی طرح پھانس لیا اور ہم رکنے پر مجبور ہو گئے‘ وہ درے کا ویو پوائنٹ تھا‘ آپ اگر اس وقت سیٹلائیٹ سے اس جگہ کی تصویر لیتے تو آپ کو وہاں سفید دودھیاں برف کے درمیان دو سیاہ دھبے حرکت کرتے نظر آتے‘ وہ منظر بھی مقدس کنواری کی شرمیلی نظروں جیسا تھا‘ ہم اسے دیکھتے تھے اور اس کے تقدس میں ڈوبتے چلے تھے‘ ہم گنگ اور حیران ہو کر اندھیری کوٹھڑی سے نکلے قیدی کی طرح دائیں بائیں دیکھتے تھے اور خواب میں چلے جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی زمین پر ایسے ہزاروں منظر چھپا رکھے ہیں جو انسان کے منتشر ذہن کے سارے انتشار‘ انسان کے تھکے وجود کی ساری تھکاوٹ اور انسان کی زخمی روح کے سارے زخم چوس لیتے ہیں‘ لنڈ س پاس کا ویوپوائنٹ بھی ایک ایسی ہی جگہ ‘ ایک ایسا ہی مقام تھا‘ یہ بھی آپ کے ذہن ‘ آپ کی روح اور آپ کے وجود کی ساری کثافتیں کھینچ لیتا ہے ‘یہ بھی آپ کو ایک بار پھر پیدا کر دیتا ہے اور ہم نے اس برفستان میں ایک اور جنم لیا‘ ہماری روح کو بدن کا ایک نیا لباس مل گیاا ور قدرت نے ہمار ے دماغ ‘ہمارے ذہن کو ایک نیا سافٹ وئیر عنایت کر دیا۔
ہم نے برف سے سبزے کی طرف سفر شروع کر دیا‘ پہاڑ سر اٹھاتے تھے‘ سر گراتے تھے‘ وادیاں میدان بنتی تھیں اور میدان ڈھلوانوں میں تبدیل ہو جاتے تھے‘ راستے کا ہر منظر لاجواب اور ہر موڑ شاندار تھا‘ راستے میں منجمد جھیلیں بھی آئیں‘ ٹھٹھرے دریا بھی اور سردی سے سکڑے دیہات بھی اور خوراک کی متلاشی بھیڑوں اور اور گائیوں کے فارم بھی۔ وہ سفر‘ سفر نہیں تھا‘ وہ ایک رواں ‘دوڑتی بھاگتی فلم تھی اور یہ فلم اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے وجود ‘ہمارے دماغ کا حصہ بن چکی ہے۔
نیوزی لینڈ میں ہم نے تین چیزوں کا باربار مشاہدہ کیا‘یہ تینوں چیزیں انوکھی بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔ نیوزی لینڈ زرعی ملک ہے ‘ اس کا زیادہ تر دارومدار اجناس ‘پھل اور مویشیوں پر ہے چنانچہ انہوں نے زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرنے کے لےے چند جدید طریقے وضع کئے ہیں‘ ہم بڑی آسانی سے یہ طریقے استعمال کر سکتے ہیں‘ نیوزی لینڈ کے کسانوں نے لوہے کے بڑے بڑے راڈز پر پانی کے شاور لگا رکھے ہیں‘ راڈز کے نیچے ٹائر لگے ہیں‘ آپ ان ٹائروں کو پش کر کے شاور کو کھیت کے مختلف حصوں میں لے جاسکتے ہیں ‘ یہ راڈز ٹیوب ویل کے ساتھ منسلک ہیں‘ یہ لوگ ٹیوب ویل چلاتے ہیں اور پانی غسل خانوں کے شاورز کی طرح زمین اور فصل کو تر کرنا شروع کر دیتا ہے‘ یہ جدید طریقہ ہے‘ اس طریقے سے پانی کی بچت بھی ہوتی ہے ‘ فصل کو پورا پانی بھی ملتا ہے اور افرادی قوت کی ضرورت بھی نہیں رہتی ‘ ہم نے راستے میں بے شمار ایسے فارم دیکھے جن میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک شاورز لگے تھے‘ کسان یقینا انہیں آگے سرکاتے جاتے ہیں اور کھیت کو پانی ملتا جاتا ہے‘ آپ اگر یہ انتظام دیکھنا چاہیں تو آپ انٹرنیٹ پر ”نیوزی لینڈ اری گیشن سسٹم “ ٹائپ کریں اور آپ یہ سارا بندوبست سمجھ جائیں گے‘کسانوں نے کھیتوں کے درمیان پانی کے تالاب بھی بنا رکھے ہیں ‘ یہ تالاب بارش کے پانی سے بھرجاتے ہیں اور یہ لوگ بعد ازاں یہ پانی کاشت کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں‘ نیوزی لینڈ کی دوسری منفرد چیز”لائیو سٹاک“ ہے ‘ یہاں اس وقت ایک کروڑ چالیس لاکھ بھیڑیںہیں‘ تیس چالیس لاکھ گائے بھی ہوں گی‘ آپ ملک میں جس طرف دیکھیں آپ کو بھیڑیں ہی بھیڑیں دکھائی دیتی ہیں‘یہ لوگ یہ بھیڑیں کیسے پالتے ہیں‘ یہ بھی ایک دلچسپ مشاہدہ ہے ‘ یہ لوگ اپنے کھیتوں کے گرد لکڑی یا لوہے کی تار کی باڑ لگاتے ہیں‘ کھیت میں چارہ بوتے ہیں اور بھیڑوں کو کھیت میں کھلا چھوڑ دیتے ہیں‘ بھیڑیں سارا سال کھیت میں چرتی رہتی ہیں‘ یہ لوگ مقرر ہ وقت پر ان کی اون اتارتے ہیں‘انہیں مذبحہ خانے بھجوادیتے ہیں یا پھر ان سے بچے حاصل کر لیتے ہیں ‘ یہ ہماری طرح چارہ کاٹنے کا جھنجٹ نہیں پالتے‘ نیوزی لینڈ کے کے بعد دنیا میں پاکستان کی بھیڑیں اور بکریاں بہت مشہور ہیں چنانچہ ہم نیوزی لینڈ کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر اپنے کسانوں کو خوش حال بنا سکتے ہیںاور تیسری انوکھی چیز ‘یہ لوگ دنیا بھر سے ماہرین امپورٹ کر رہے ہیں ‘ آپ اگر کسی کام میں مہارت رکھتے ہیں تو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دروازے آپ کےلئے کھلے ہیں‘ آپ بڑی آسانی سے نیوزی لینڈ کی امیگریشن حاصل کر سکتے ہیں‘یہ لوگ ہاتھ سے کرنے والے تمام کام خود کرتے ہیں لیکن جہاں دماغ ‘قلم اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے یہ اس شعبے کے ماہرین دنیا کے غریب ملکوں سے حاصل کر لیتے ہیں چنانچہ آپ کو نیوزی لینڈ میں جتنے غیر ملکی نظر آتے ہیں ‘ یہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور ماہر ہیں‘ مجھے یہ اپروچ بھی اچھی لگی۔
ہم شام کے وقت کرائسٹ چرچ پہنچ گئے‘ یہ ہماری نیوزی لینڈ میں آخری رات تھی‘ ہم نے کل اس ملک کو ”گڈ بائی “ کہہ دینا تھالیکن عارضی طور پر کیونکہ ہم نے چھ ماہ بعد قطب جنوبی دیکھنے کے لیے دوبارہ نیوزی لینڈ آنا ہے چنانچہ یہ جدائی مستقل نہیں ‘یہ عارضی ہے ۔
گڈ بائی نیوزی لینڈ
5
جولائی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں