سڈنی سے ائیرپورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی دانت سے دانت ٹکرانے لگے‘ باہر یخ ہوائیں تھیں‘ میں رمضان سے ایک دن قبل لاہور سے روانہ ہوا تو پنجاب کے میدان تپ رہے تھے‘ زمین سے آسمان تک گرم ہوائیں چل رہی تھیں اور مشرق سے مغرب تک لو ہلکورے لے رہی تھی لیکن آسٹریلیا میں موسم الٹ تھا‘ دنیا میں جون جولائی گرم مہینے ہوتے ہیں جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں یہ سردیوں کا آغاز ہوتا ہے‘ یہ دونوں ملک باقی دنیا سے چھ مہینے پیچھے ہیں‘ یہاں نومبر‘ دسمبر اور جنوری میں گرمی پڑتی ہے اور لوگ نیم برہنہ ہو کر ساحلوں کا رخ کرتے ہیں جبکہ یہ جون جولائی میں گرم جیکٹس پہن لیتے ہیں‘ ہیٹر جلا لیتے ہیں اور رضائیاں اوڑھ لیتے ہیں‘ نیوزی لینڈ میں اس وقت برف پڑ رہی ہے‘ میں اپنے دوست مظہر بخاری کے ساتھ نیوزی لینڈ میں ہوں‘ ہم آک لینڈ شہر سے کرائسٹ چرچ کی طرف سفر کر رہے ہیں لیکن یہ آج کی بات ہے‘ اس دن جس دن میں سڈنی ائیر پورٹ پر اترا وہ ایک مختلف دن تھا‘ گرم علاقے سے ٹھنڈے یخ علاقے کی طرف 16 گھنٹے کا طویل سفر‘ مغرب سے مشرق کی طرف تھکا دینے والی مسافت اور اس کے بعد موسم کا تغیر یہ تینوں حیران کن تھے‘ دنیا شمال‘ جنوب‘ مشرق اور مغرب چار سمتوںمیں تقسیم ہے‘ ہم اگر چند لمحوں کےلئے شمال اور جنوب کو فراموش کر دیں اور دنیا کو مشرق اور مغرب صرف دو حصوں میں تقسیم کریں تو دنیا نیوزی لینڈ سے سٹارٹ ہو گی اور سپین کے آخری ساحلوں پورٹو‘ ویگو اور سنتیاگو پر پہنچ کر ختم ہو جائے گی‘ اس سے آگے کیا ہے؟ اس سے آگے سمندر ہے اور سمندر کے دوسرے سرے پر امریکا ہے‘ الاسکا امریکا کی آخری ریاست ہے‘ دنیا میں سورج کی پہلی کرن نیوزی لینڈ پر پڑتی ہے‘ سورج نیوزی لینڈ کے بعد آسٹریلیا پہنچتا اور آسٹریلیا کے بعد ایشیا کے مختلف ملکوں سے ہوتا ہوا یورپ اور یورپ سے امریکا جاتا ہے اور پھر گھوم کر دوبارہ نیوزی لینڈ پہنچ جاتا ہے‘ گویا نیوزی لینڈ سورج کا گھر ہے‘ سورج جہاں بھی جائے گا‘ یہ جہاں بھی سوئے گا ‘یہ جاگے گا بہرحال نیوزی لینڈ میں۔ یہ شروع نیوزی لینڈ ہی سے ہو گا‘ نیوزی لینڈ کے پیچھے کیا ہے؟ نیوزی لینڈ کے پیچھے قطب جنوبی ہے‘ یہ انٹارکٹیکا میں واقع ہے‘ یہ برفیلی زمین ہے جہاں ہزاروں‘ لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں سے برف جمی ہے اور جہاں اندھیرا بھی ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہاں سورج نہیں پہنچتا‘ قطب جنوبی سے بالکل سیدھ میں آخر میں قطب شمالی ہے‘ مجھے اللہ کے کرم سے قطب شمالی کے اس مقام تک پہنچنے کا موقع ملا جہاں دنیا ختم ہو جاتی ہے‘ جہاں سے آگے برف‘ گلیشیئر اور موت کے سوا کچھ نہیں‘ میں پورٹو‘ ویگو اور سنتیاگو کے ان قصبوں میں بھی پہنچا جہاں مغرب ختم ہو جاتا ہے اور مجھے امریکا کے ان ساحلوں تک جانے کی توفیق بھی ملی جہاں سے سورج کی واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے اور میں اب زمین کے اس سرے کی تلاش میں نکلا ہوں جہاں سے دن کا آغاز ہوتا ہے‘ جہاں سے سورج کا سفر شروع ہوتا ہے لیکن وہاں جانے سے قبل سڈنی پہنچنا ضروری ہے۔
آسٹریلیا ایک نئی دریافت ہے‘ یہ زمین 45 ہزار برس قبل آباد ہوئی‘ دنیا میں ایک وقت گزرا ہے جب ساری زمین مشرق سے مغرب تک منجمد تھی‘ انسان اس وقت روشنی اور آگ کی تلاش میں افریقہ سے نکلا اور برف پر چلتا ہوا کرہ ارض پر پھیل گیا‘ برف پگھلنا شروع ہوئی‘ سمندر بنے اور انسان زمین کے مختلف حصوں تک محصور ہو کر رہ گیا‘ امریکا اور آسٹریلیا بھی ان حصوں میں شامل تھے‘ تہذیب‘ افریقہ‘ یورپ‘ ایشیا میں پروان چڑھتی رہی‘ علم نے جنم لیا‘ ٹیکنالوجی آئی‘ انسان نے سمتوں اور زاویوں کا علم سیکھا‘ کشتیاں اور بحری جہاز بنائے اور افریقہ‘ یورپ اور ایشیا سے گم شدہ زمینوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا‘ انسان نے پہلے افریقہ‘ یورپ اور ایشیا کے درمیان رابطہ پیدا کیا‘ یہ پھر1492ءمیں امریکا پہنچا اور یہ وہاں اپنے برف کے وقت کے بچھڑے کزنوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا‘ کولمبس نے امریکا میں گھوڑے‘ گندم‘ کافی اور تلواریں متعارف کرائیں اور امریکا کے مقامی باشندوں ریڈ انڈینز نے اسے تمباکو‘ مکئی‘ آلو اور جنسی بیماریوں کا تحفہ دے دیا‘ کولمبس کے امریکا پہنچنے سے قبل دنیا میں سوزاک اور آتشک جیسی موذی بیماریاں نہیں تھیں‘ یورپی باشندے دھڑا دھڑ امریکا پہنچے‘ بھینسوں کا شکار کیا‘ سونے اور چاندی کی کانیں کھودیں اور تمباکو کے کھیت اگائے‘ یہ آہستہ آہستہ وہاں آباد بھی ہونے لگے‘ ہالینڈ کے جہاز رانوں نے 1606ءمیں قطب جنوبی کی طرف سفر شروع کیا‘ ولیم جینززون نیوگنی پہنچا‘ یہ آسٹریلیا بھی آیا‘ آسٹریلیا میں لوگ موجود تھے‘ یورپی باشندوں نے ان جانور نما انسانوں کو ”اب اوریجنل“ کا نام دیا‘ یہ نام اور یہ باشندے آج تک آسٹریلیا میں موجود ہیں‘ ولیم کی مقامی باشندوں سے جنگیں ہوئیں‘ صلح ہوئی اور یہ اپنے لوگوں اور مقامی لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے لگا لیکن پھر مقامی خواتین پر دست درازی کی وجہ سے اس کی لڑائی ہوئی اور مقامی لوگوں نے اسے واپس ہالینڈ جانے پر مجبور کر دیا‘ ولیم کے بعد سپین کا جہاز ران لوئیس ویز ڈی ٹورس آیا‘ یہ آسٹریلیا کے مغربی ساحلوں پر اترا‘ یہ تسمانیہ‘ فجی‘ نیوگنی اور جکارتہ بھی پہنچا لیکن یہ بھی یہاں سیٹل نہ ہو سکا‘ برطانوی جہاز رانوں نے 1622ءمیں آسٹریلیا پر دستک دینا شروع کی لیکن آسٹریلیا کو برطانیہ کی کالونی کیپٹن جیمز کک نے بنایا‘ یہ 1769ءمیں نیوزی لینڈ اور 1770ءمیں سڈنی کے ساحل پر اترا‘ برطانیہ میں اس وقت کنگ جارج سوم کی حکومت تھی‘ کیپٹن کک نے بادشاہ کو آسٹریلیا پر قبضے کےلئے راضی کر لیا‘ بادشاہ نے ہاں کر دی جس کے بعد آسٹریلیا آج تک برطانیہ کے زیر اثر ہے‘ برطانوی ملکہ آج بھی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی ملکہ ہے اور یہاں کی فوج رائل آرمی کہلاتی ہے‘ حکومت کو منتخب عوام کرتے ہیں لیکن یہ وفاداری کا حلف ملکہ کا اٹھاتی ہے‘ ملکہ آج بھی آسٹریلیا کی ملکہ ہے‘سڈنی ایک دھیما‘ کھلا اور ہوا دار شہر ہے‘ آسٹریلیا کا کل رقبہ 76لاکھ‘92 ہزار 24 مربع کلو میٹر ہے‘ اس رقبے میں سڈنی کا حصہ 12 ہزار تین سو67 مربع کلو میٹر ہے‘ آسٹریلیا کی آبادی دو کروڑ 38 لاکھ ہے‘ سڈنی میں 48 لاکھ چالیس ہزارلوگ رہتے ہیں۔ آپ اگر نقشے میں آسٹریلیا کو دیکھیں تو آپ کو ملک کے تمام شہر سمندرکے کنارے آباد ملیں گے‘ ملک درمیان میں بنجر اور غیر آباد ہے‘ فاصلے لمبے اور مسافتیں طویل ہیں‘ ملک پانی کی کمی کا شکار بھی ہے‘ پانی کی یہ کمی اس کی آبادی کے کم ہونے کی بنیادی وجہ ہے‘ سڈنی کا اوپرا ہاﺅس دنیا میں آسٹریلیا کی پہچان ہے‘ یہ ایک عظیم عمارتی معجزہ ہے‘ میرے آرکیٹیکٹ دوست اعجاز قادری کا دعویٰ ہے‘عمارتیں دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں کی نشانیاں ہوتی ہیں‘ مصر اہرام سے پہچانا جاتا ہے جبکہ پیرس آئیفل ٹاور‘ لندن کا شہر لندن برج اور لندن آئی‘نیویارک مجسمہ آزادی اورنیویارک برج‘ بھارت تاج محل‘ استنبول آیا صوفیہ‘ روم کلوزیم‘ ویٹی کن سٹی‘ سینٹ پیٹر چرچ اور لاہور شاہی قلعہ اور مینار پاکستان سے پہچانا جاتا ہے‘ عمارتیں دنیا کی تمام تہذیبوں کی نشانیاں ہیں لہٰذا سڈنی کا اوپرا ہاﺅس آسٹریلیا کی پہچان ہے‘ یہ عمارت واقعی تعمیراتی معجزہ ہے‘ آپ اسے باہر سے دیکھیں تو آپ اس کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے‘ آپ اس کے اندر داخل ہو جائیں تو آپ اس کی دلکشی اور ہیبت میں کھو جائیں گے‘ یونیسکو نے اسے 2007ءمیں عالمی ورثہ قرار دے دیا‘ یہ اب پوری دنیا کی ملکیت ہے‘ اوپرا ہاﺅس کا ڈیزائن منفرد ہے‘ یہ عمارت دور سے ہوا میں تیرتے ہوئے بادل دکھائی دیتی ہے‘ اوپرا ہاﺅس کا تصور برطانیہ کے مشہور موسیقار Eugene Goossens نے دیا تھا‘ یہ 1946ءمیں سڈنی آیا اور اس نے حکومت کو سڈنی میں شاندار اوپرا ہاﺅس بنانے کا مشورہ دیا‘ حکومت نے مشورہ مان لیا‘ وزیراعظم نے ڈیزائن کیلئے بین الاقوامی مقابلہ کرانے کا فیصلہ کیا‘ 1955ءمیں اشتہار دیا گیا‘ 1956ءمیں 28 ممالک سے 722 ڈیزائن آئے‘ 222 آرکی ٹیکٹس نے سکیمیں جمع کرائیں‘ عالمی سطح کی کمیٹی بیٹھی اور کمیٹی نے ڈنمارک کے 38 سال کے غیر معروف ڈیزائنر جورن اٹزون Jorn Utzon کا ڈیزائن پسند کر لیا‘ اٹزون نے سڈنی ہاربر پر بادلوں کا ٹکڑا ڈیزائن کیا تھا‘ یہ ایک غیر معمولی ڈیزائن تھا‘ دنیا میں اس سے قبل کنکریٹ کا اتنا بڑا منصوبہ نہیں بنا تھا‘ ماہرین کا خیال تھا‘ یہ ممکن نہیں لیکن حکومت نے اٹزون کو موقع دینے کا فیصلہ کیا‘ سنگ بنیاد رکھا گیا ‘1959ءمیں کام شروع ہوا‘ حکومت نے اوپرا ہاﺅس کیلئے لاٹری جاری کی‘ رقم جمع کی اور تعمیر شروع کر دی‘ اٹزون نے دن رات ایک کر دیے‘ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا رہا لیکن اوپرا ہاﺅس کی کمیٹی اور اٹزون میں اختلافات پیدا ہو گئے‘ یہاں تک کہ اٹزون دل برداشتہ ہو کر ڈنمارک واپس چلا گیا‘ حکومت نے اٹزون کے جانے کے بعد بھی کام جاری رکھا‘ اوپرا ہاﺅس دسمبر 1972ءمیں مکمل ہو گیا‘ یہ اس وقت تک ایک ناکام منصوبہ تھا لیکن یہ جوں ہی مکمل ہوا‘ یہ دنیا کی حیران کن عمارت بن گیا‘ حکومت کو 1999ءمیں اٹزون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا احساس ہوا چنانچہ حکومت نے اسے سڈنی آنے اور اپنا ماسٹر پیس دیکھنے کی دعوت دی لیکن اٹزون اس وقت تک بوڑھا بھی ہو چکا تھا اور وہ علیل بھی تھا‘ آپ ٹریجڈی دیکھئے ‘دنیا سے ہر سال 82 لاکھ لوگ اوپرا ہاﺅس دیکھنے سڈنی آتے ہیں لیکن جورن اٹزون 2008ءمیں اپنا تخلیق کردہ ماسٹر پیس دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو گیا‘ اوپرا ہاﺅس کا تصور Eugene Goossens نے دیا تھا‘ وہ بھی یہ ماسٹر پیس نہ دیکھ سکا‘ وہ 1956ءمیں سیکس سکینڈل میں پھنسا ‘آسٹریلیا نے اس پر سڈنی آنے پر پابندی لگا دی اور وہ 1962ءمیںلندن میں اس وقت انتقال کر گیا جب اوپرہاﺅس کی دیواریں کھڑی ہو چکی تھیں۔
میں مظہر بخاری کے ساتھ 21 جون کو اوپرا ہاﺅس کے سامنے پہنچا اور یہ انسانی معجزہ دیکھ کر مبہوت ہو گیا‘ یہ واقعی انسان کام دکھائی نہیں دیتا‘ آپ بھی جب زندگی میں سڈنی کا اوپرا ہاﺅس دیکھیں گے‘ تو آپ مصر کے اہراموں کو بھی بھول جائیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ اہراموں میں صرف پتھر پر پتھر جوڑے گئے تھے جبکہ اوپرا ہاﺅس دنیا کی ایسی عظیم عمارت ہے جو ستونوں کے بغیر کھڑی کی گئی ہے‘ یہ ایک ایسی عمارت ہے جو خود انجینئرنگ کا شاہکار ہے لیکن یہ موسیقی اور تھیٹر جیسے آرٹ کا ویٹی کن سٹی ہے‘میں جب آرٹ کے اس ویٹی کن سے باہر آیا تو میں اٹزون کے فن کو سلام پیش کرنے پر مجبور ہوگیا‘ میں نے عمارت کو سیلوٹ کیا اور اٹزون کی روح کے ایصال کےلئے بینچ پر ایک منٹ کےلئے خاموش بیٹھ گیا‘ اٹزون واقعی کمال کا تخلیق کار تھا‘ تخلیق کی ایک گریٹ ٹریجڈی۔
سڈنی سے
23
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں