تاریخ کا ادراک

5  مئی‬‮  2015

یہ تینوں مسئلے مشترک ہیں اور ان مسئلوں کے حل کےلئے بہرحال دونوں ملکوں کی قیادت کو میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ ”یہ بیٹھنا“ تاریخ کا سبق ہے‘ تاریخ بتاتی ہے انسان خواہ کتنی بڑی جنگ لڑ لے‘ یہ خواہ کروڑوں لوگ قتل کر دے یا قتل کروا لے اسے بہرحال میز پر ہی بیٹھنا ہو گا‘ یہ مسائل بہرحال مذاکرات ہی کے ذریعے حل کرے گا‘ تاریخ کا دوسرا سبق دشمنوں کی ملاقات کا وقت ہے‘ دنیا میں جب دو قومیں لڑتی ہیں تو ان کی زندگی میں بہت کم ایسے وقت آتے ہیں جب ان کے سربراہوں کے درمیان ملاقات ہوتی ہے‘ ملاقات کا یہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے کیونکہ یہ وقت قوموں کا مستقبل طے کرتا ہے‘ آپ اس ملاقات میں مزید جنگ یا جنگ بندی کا فیصلہ کرتے ہیں‘ آگرہ کی ملاقات میں یہ دونوں مواقع موجود تھے‘ پاکستانی جرنیل بھارت کی شدت پسند سیاسی جماعت بی جے پی کے ایسے وزیراعظم سے مل رہا تھا جو مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا تھا لیکن جنرل مشرف نے تاریخ کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے یہ موقع ضائع کر دیا‘ یہ خالی ہاتھ واپس آ گئے اور انہیں بعد ازاں بھارتی قیادت کو دوبارہ آگرہ جیسی پوزیشن پر لانے کےلئے درجنوں پاپڑ بیلنے پڑے‘ ہمیں امریکا‘ یورپ اور چین کی مدد بھی لینا پڑی اور نیٹو کو وہ رعایتیں بھی دینی پڑیں جنہوں نے ملک کو دوزخ کے منہ تک پہنچا دیا‘ یہ ادراک کی وہ کمی تھی جس کا خمیازہ ملک آج تک بھگت رہا ہے۔
تاریخ کا یہ المیہ صرف جنرل پرویز مشرف تک محدود نہیں تھا بلکہ ہمارے زیادہ تر حکمران اسی صورتحال کا شکار ہیں‘ آپ میاں نواز شریف کی مثال لے لیجئے‘ میاں صاحب تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے‘ یہ تجربہ کار ترین سیاستدان ہیں لیکن یہ اس تجربے کے باوجود آج تک تاریخ کے ادراک سے محروم ہیں‘ یہ آج کے زمانے میں بھی وہ غلطیاں کر رہے ہیں جو دو تین سو سال قبل نادان بادشاہ کیا کرتے تھے‘ میاں صاحب آج تک تاریخ کو نہیں سمجھ سکے مثلاً آپ 25 اپریل کی مثال لیجئے‘ 25 اپریل 2015ءکو برطانیہ‘ فرانس‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں گیلی پولی کی جنگ کی سو سالہ دعائیہ تقریبات ہوئیں‘ برطانیہ نے سو سال قبل 25 اپریل 1915ءکو گیلی پولی کے جزیرے پر حملہ کیا‘ گیلی پولی ترک جزیرہ ہے‘ یہ ”بلیک سی“ کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے یورپ اور روس کے بحری جہاز گزرتے تھے‘ پہلی جنگ عظیم کا مرکز یورپ تھا‘ جرمنی برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو ”ٹف ٹائم“ دے رہا تھا‘ سر ونسٹن چرچل اس وقت ”فرسٹ لارڈ آف ایڈمریلٹی“ تھے‘ چرچل کا خیال تھا ہم اگر ایک دوسرا محاذ کھول لیں تو جرمنی کی توجہ یورپ سے ہٹ جائے گی اور یوں ہم یورپ میں جنگ جیت جائیں گے‘ چرچل کو گیلی پولی ایک ایسی جگہ نظر آئی جہاں قبضہ کر کے یہ دنیا کا اہم ترین بحری روٹ اپنے ہاتھ میں لے سکتے تھے‘ چرچل کا خیال تھا برطانیہ گیلی پولی پر قبضے کے بعد استنبول پر بھی قابض ہو جائے گا‘ چرچل نے 25 نومبر 1914ءکو اپنا یہ منصوبہ برٹش وار کونسل میں پیش کیا‘ جرنیلوں کو چرچل سے اختلاف تھا لیکن چرچل ڈٹ گیا‘ وارکونسل نے منصوبے کی منظوری دے دی‘ برطانیہ نے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور فرانس کے فوجی جمع کئے اور 25 اپریل 1915ءکو گیلی پولی پر یلغار کر دی‘ برطانوی بحری جہاز گیلی پولی پہنچے اور فوجیوں نے ساحلوں پر اترنا شروع کر دیا‘ خلافت عثمانیہ اس وقت آخری سانسیں لے رہی تھی‘ خلیفہ نے گیلی پولی کی حفاظت کی ذمہ داری 19 ویںڈویژن کو سونپ دی‘ اتاترک اس وقت ترک فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے‘ یہ گیلی پولی میں تعینات تھے‘ ترک فوج جزیرے میں کمزور تھی‘ جزیرے کا ساحل 150 میل لمبا تھا جبکہ جوان صرف 84 ہزار تھے



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…