محمد عرفان خان،14 سال کے محمد عرفان خان اور میاں شہباز شریف اور ملک ریاض تینوں کی کہانی میں ایک قدر مشترک ہے،یہ تینوں ایک ہی کہانی کے تین کردار ہیں اور ہم چاہیں بھی تو ہم ان تینوں کو ایک دوسرے اور ایک تیسرے سے الگ نہیں کر سکتے،محمد عرفان خان کون ہے! یہ چودہ سال کا خوبصورت لڑکا تھا،یہ آج بھی ہے لیکن یہ اب اتنا خوبصورت نہیں جتنا یہ 8 ماہ پہلے تک تھا،یہ کراچی میں رہتا ہے،یہ والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔ یہ اگست 2014ء تک عام نوجوان بچوں کی طرح بھاگتا،دوڑتا اور چھلانگیں لگاتا تھا،یہ تعلیم کے میدان میں بھی بہت آگے تھا،والدین،دوست احباب اور رشتے دار اسے دیکھتے تھے تو وہ اس پر نثار ہو جاتے تھے لیکن پھر ایک انہونی ہوئی،عرفان خان کے جسمانی اعضاء میں تبدیلی آنے لگی اور والدین کے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ٹانگیں،اس کے پاؤں کی انگلیاں اور اس کے گھٹنے مڑ گئے،یہ کھڑا ہونے سے معذور ہوگیا،ڈاکٹروں سے رابطہ کیا گیا،ٹیسٹ ہوئے مگر بیماری کی وجوہات معلوم نہ ہو سکیں۔ اس دوران عرفان کے ہاتھ،ہتھیلیاں اور ہاتھ کی انگلیاں بھی مڑ گئیں،یہ اب کوئی چیز پکڑ نہیں سکتا تھا،پھر اس کے حلق کے اندر تبدیلیاں آئیں اور یہ نگلنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو گیا،پھر اس کی زبان سوجھ گئی اور قدرت نے اس کی بولنے کی صلاحیت بھی چھین لی،پھر اس کے پورے جسم پر خارش ہونے لگی،خارش کے ساتھ ہی اس کی نیند بھی جاتی رہی،یہ نیند سے بھی محروم ہو گیا،عرفان آٹھ مہینوں میں انسان سے سبزی بن گیا،یہ اب پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے،ہاتھوں سے کوئی چیز پکڑ سکتا ہے‘کھانے کی کوئی چیز نگل سکتا ہے اور نہ ہی سو سکتا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب بیماری تھی،ڈاکٹروں اور والدین نے ریسرچ کی تو پتہ چلا عرفان خان پر ’’ولسن ڈزیز‘،کا حملہ ہوا،یہ بیماری 1912ء میں دریافت ہوئی،دنیا میں اس وقت اس کے ایک سے تین کروڑ مریض ہیں،ولسن ڈزیز کا اگر شروع میں علاج نہ کیا جائے تو مریض 9 ماہ سے تین سال کے درمیان سسک سسک کر فوت ہو جاتا ہے،ڈاکٹروں نے علاج تلاش کیا،پتہ چلا بھارت کے شہر ممبئی کے اسپتال ’’جاس لاک‘،میں ایک ڈاکٹر ہیں،ابھانگرال۔ یہ ولسن بیماری کے ایکسپرٹ ہیں۔ یہ اس سے قبل نریندرا نام کے ایک بھارتی مصور کا علاج کر چکے ہیں،نریندرا پر بھی 12 سال کی عمر میں ولسن بیماری کا حملہ ہوا اور یہ بھی عرفان خان کی طرح معذور زندگی گزارنے لگا،والدین اور ڈاکٹروں کو ولسن ڈزیز کا علم ہوا تو انھوں نے ریسرچ شروع کی اور یہ بہت جلد ڈاکٹر نگرال تک پہنچ گئے‘ڈاکٹر نگرال نے نریندرا کا علاج شروع کیا،علاج کامیاب ہوگیا،یہ اب اپنے پاؤں پر بھی کھڑا ہوتا ہے‘یہ بولتا بھی ہے اور یہ چیزیں بھی پکڑتا ہے۔ نریندرا نے اپنی تعلیم بھی مکمل کی اور یہ بھارت کا ایک کامیاب مصور بھی بنا،یہ خبر عرفان خان کے والدین کے لیے خوش خبری تھی،ڈاکٹر نگرال سے رابطہ ہوا تو پتہ چلا،علاج پر 30 لاکھ روپے خرچ ہوں گے،یہ خبر ولسن بیماری سے بڑی بیماری ثابت ہوئی،عرفان خان کے والدین کراچی کے سفید پوش لوگ ہیں،یہ اتنی بڑی رقم ’’افورڈ‘،نہیں کر سکتے اور یہاں سے میاں شہباز شریف اور ملک ریاض کی کہانی شروع ہوئی۔ عرفان خان کے والدین نے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا،ان کا کہنا تھا،میں عرفان کا کیس میاں شہباز شریف کو پہنچا دوں یا پھر ملک ریاض کو۔ میری ہنسی نکل گئی،میرا دوست مائینڈ کر گیا،اس نے مجھ سے ہنسنے کی وجہ پوچھی،میں نے اس سے عرض کیا ’’ہم بہت دلچسپ لوگ ہیں،میں نے آج تک کسی شخص کے منہ سے میاں شہباز شریف اور ملک ریاض کے لیے کلمہ خیر نہیں سنا،لوگ ان دونوں کو سرعام برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ ان دونوں سے تعلق کی وجہ سے مجھے بھی گالیاں دیتے ہیں،میں ملک ریاض کی وجہ سے 17 سال سے گالیاں کھا رہا ہوں اور لوگ میاں شہبازشریف کی وجہ سے مجھے 10 سال سے برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن جب بھی کوئی شخص کسی مہلک مرض کا شکار ہوتا ہے،کسی کو مالی امداد کی ضرورت پڑتی ہے،کسی بیوہ،کسی یتیم بچے اور کسی بزرگ کو اعانت کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر کسی شخص کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ لوگ مجھے فون کرتے ہیں اور میاں شہباز شریف یا ملک ریاض سے رابطے کی فرمائش کرتے ہیں،میں لوگوں کے اس رویے پر حیران ہوں،میاں شہباز شریف اور ملک ریاض اگر غلط ہیں،یہ اگر برے ہیں تو پھر لوگوں کو مشکل وقت میں پورے ملک میں صرف یہ دو لوگ کیوں نظر آتے ہیں اور اگر یہ اچھے ہیں‘یہ درد دل رکھتے ہیں،یہ دکھی انسانیت کا ساتھ دیتے ہیں،یہ عرفان خان جیسے بچوں کی مدد کرتے ہیں تو پھر لوگ انھیں برا بھلا کیوں کہتے ہیں،یہ انھیں گالی دیتے وقت ان کی اچھائیوں،ان کی خوبیوں کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں،یہ لوگ ان کے بارے میں اتنے سخت گیر کیوں ہیں؟‘،میرا دوست خاموش رہا،میں نے اس سے عرض کیا’’ آپ حقیقت ملاحظہ کیجیے،عرفان کا تعلق صوبہ سندھ اور کراچی شہر سے ہے،کراچی اڑھائی کروڑ لوگوں کا شہر ہے۔ آصف علی زرداری اور سید قائم علی شاہ سندھ کے والی وارث ہیں،میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں اور ملک ریاض کا نوے فیصد کاروبار پنجاب تک محدود ہے،یہ پچھلے سال پنجاب اور وفاقی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے کراچی گئے،یہ وہاں کاروبار کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جب عرفان پر ولسن بیماری کا حملہ ہوا تو اس کے والدین کو بھی پورے کراچی اور پورے سندھ کے بجائے یہ دو لوگ نظر آئے،کیوں؟ کیا یہ ان دونوں کے درد دل اور انسانیت کی خدمت کا اعتراف نہیں‘،میرا دوست خاموش رہا،میں نے اس سے عرض کیا ’’ آئیے ہم ایک تجربہ کرتے ہیں۔ ہم عرفان خان کے علاج کے لیے مختلف مخیر حضرات سے رابطہ کرتے ہیں اور ان سے عرفان کے علاج کی ذمے داری اٹھانے کی درخواست کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں ملک میں کس میں اتنا حوصلہ ہے ‘یہ اللہ کے نام پر اکیلا تیس لاکھ روپے خرچ کر دے،کس میں اتنی جان ہے یہ اس بچے کو بھارت بھجوائے،علاج کرائے اور اسے اس کے پاؤں پر کھڑا کر دے،آئیے ہم تجربہ کرتے ہیں،ہم سید قائم علی شاہ سے رابطہ کرتے ہیں،ہم آصف علی زرداری کی منت کرتے ہیں،ہم بلاول زرداری بھٹو کو فون کرتے ہیں،ہم سندھ کے وزیر صحت مہتاب حسین داہر سے درخواست کرتے ہیں۔ ہم میاں منشاء سے اپیل کرتے ہیں‘ہم ملک کے پہلے دس امراء کے پاس جاتے ہیں،ہم ان کی ٹھوڑی،ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں،ہم ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان سے درخواست کرتے ہیں،آپ خدا کے لیے عرفان کی زندگی بچا لیں اور پھر اس منت،اس درخواست کا نتیجہ دیکھتے ہیں،چلیے ہم عمران خان سے رابطہ کرتے ہیں،ہم علامہ طاہر القادری،ہم مولانا فضل الرحمن،ہم سراج الحق،ہم پرویز خٹک،ہم ڈاکٹر عبدالمالک،ہم محمود اچکزئی،ہم چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور ہم اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے رابطہ کرتے ہیں،ہم ان سے درخواست کرتے ہیں۔ آپ خدا کے لیے عرفان کے علاج کی ذمے داری اٹھا لیں،آپ اگر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی صرف ایک دن کی تنخواہ عرفان کے لیے وقف کر دیں تو یہ بچہ بچ جائے گا،چلیے ہم وزیراعظم سے درخواست کرتے ہیں،آپ اس بچے کا علاج بھی کرائیں اور آپ ملک کے چاروں صوبوں کے دو،دو ڈاکٹروں کوملک سے باہر بھجوا کر ’’ولسن ڈزیز‘،کے علاج کی ٹریننگ دلائیں تاکہ مستقبل میں اگر کوئی بچہ اس بیماری کا شکار ہو تو اس کا علاج ملک میں ممکن ہو،آپ آئیے میرا ساتھ دیجیے،ہم عرفان کا پرچم اٹھا کر ملک کے ہر ایوان میں جاتے ہیں،ہم ہر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ ہم ہر اس گلی‘ہر اس کوچے اور ہر اس غار میں آواز دیتے ہیں جہاں ہماری آواز سنی اور سنائی جا سکتی ہے اور ہم اس کے بعد نتیجہ دیکھتے ہیں‘‘میرے دوست نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا’’ عرفان کے پاس زیادہ دن نہیں ہیں،ہم یہ تجربہ نہیں کر سکیں گے،میری درخواست ہے،آپ تجربہ کرنے کے بجائے میاں شہباز شریف اور ملک ریاض سے رابطہ کریں تاکہ بچے کا علاج ہو سکے‘،میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ میں یہ کالم ملک کے کسی ایسے تیسرے شخص کے لیے لکھ رہا ہوں جو پچھلی دو دہائیوں سے سامنے نہیں آیا،میں اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں ملک ریاض اور میاں شہباز شریف کے علاوہ کوئی ایسا شخص تلاش کر رہا ہوں جو عرفان جیسے بچوں کی اپیل پر آنکھ بند کر کے اپنے اکاؤنٹس کے منہ کھول دے،جو یہ سوچے بغیر دوسرے کی مدد کرے ’’عرفان کا تعلق میرے صوبے سے نہیں،میں پنجاب کا بجٹ سندھ کے شہری پر کیوں لگاؤں‘،جو اٹھے اور یہ اعلان کرے میں دھرنوں پر ایک ایک ارب روپے خرچ کر سکتا ہوں تو کیا میں عرفان کے لیے 30 لاکھ روپے کا بندوبست نہیں کر سکتا؟ اور جو یہ کہے’’ میں نے اللہ کے دیے ہی سے دینا ہے،میرے پاس کیا تھا،میرے پاس کیا رہ جائے گا‘،کیا اٹھارہ کروڑ لوگوں کے اس ملک میں میاں شہباز شریف اور ملک ریاض کے علاوہ بھی کوئی زندہ شخص موجود ہے۔ اگر ہاں تو محمد عرفان خان اس کا انتظار کر رہا ہے۔ (آپ اگر عرفان کے علاج کی مالی سکت رکھتے ہیں تو آپ مہربانی فرما کر -03008208203 پر عرفان کے خاندان سے رابطہ کر لیں)۔ نوٹ:۔ ولسن ڈزیز اعصاب کی بیماری ہے،یہ جینز کے ’’ڈس آرڈر‘،سے پیدا ہوتی ہے‘یہ بیماری جسم میں تانبے کی مقدار بڑھا دیتی ہے،یہ تانبا انسان کے جگر،گردوں اور دماغ کو بری طرح متاثر کرتا ہے،ہم میں سے 100 لوگوں میں سے کسی ایک میں ولسن بیماری کے اثرات ہوتے ہیں،مرد اور عورت اگر دونوں ولسن بیماری کے اثرات رکھتے ہوں تو ان کی اولاد میں ولسن ڈزیز کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دنیا کے ایک لاکھ انسانوں میں ایک سے چار لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں،یہ بیماری امریکی ڈاکٹر سمیئل الیگزینڈر ولسن نے 1912ء میں دریافت کی ،ڈاکٹر ولسن 1878ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے،امریکا نقل مکانی کی اور یہ 1937ء میں انتقال کر گئے لیکن دنیا کو ولسن بیماری کی معلومات دے گئے‘یہ بیماری بعد ازاں ڈاکٹر ولسن کی وجہ سے ولسن ڈزیز کہلائی،ولسن ڈزیز کا علاج نیوزی لینڈ کے نیورالوجسٹ ڈریک ڈینی براؤن نے 1951ء میں دریافت کیا،دنیا میں اس وقت ولسن ڈزیز کے ایک کروڑ سے تین کروڑ مریض ہیں،یورپ میں ہر سال بارہ ہزار مریض سامنے آتے ہیں۔ ہم اگر ملک میں شادی سے قبل میڈیکل ٹیسٹ لازمی قرار دے دیں تو ہم اپنے بچوں کو ولسن ڈزیز،تھیلیسیمیا اور ہیپاٹائیٹس جیسے دو درجن امراض سے بچا سکتے ہیں مگر شاید گوادر کاشغر روٹ جیسے بڑے بڑے منصوبوں میں مصروف وزیراعظم کے پاس اس معمولی انسانی المیے کے لیے وقت نہیں،ہم سعودی عرب کی مدد کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا سکتے ہیں لیکن شادی سے قبل میڈیکل ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کے لیے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد نہیں لا سکتے۔ہم زندہ قوم ہیں اور زندہ قوموں کے پاس اپنے زندہ لوگوں کے لیے وقت اور سرمایہ نہیں ہوا کرتا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں