پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ کوچ وقار یونس اور وکٹ کیپر سرفراز احمد کا ایشو آج کل بچے بچے کی زبان پر ہے‘ سرفراز احمد ٹیلنٹڈ کرکٹر ہیں‘ یہ2006ءسے پرفارم کر رہے ہیں‘ایماندار بھی ہیں اور مثبت بھی۔ وقار یونس کا بیک گراﺅنڈ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں‘ اکمل برادرز کی مشکوک سرگرمیاں ہوں یا سٹے بازوں کے ساتھ رابطے ہوں وقار یونس مختلف اوقات میں خبروں میں رہے‘ قوم جسٹس قیوم کی انکوائری رپورٹ کو بھی نہیں بھولی‘ یہ رپورٹ 2000ءمیں سامنے آئی اور سلیم ملک پر میچ فکسنگ کے جرم میں پابندی لگی جبکہ وسیم اکرم‘ مشتاق احمد اور آج کے ہیڈ کوچ وقار یونس کوجرمانہ ہوا‘ یہ بات بھی پوشیدہ نہیں وقار یونس کو نجم سیٹھی پی سی بی میں لے کر آئے‘ یہ دوبئی سے پاکستان آئے‘ رات کے اندھیرے میں لاہور میں نجم سیٹھی سے ملاقات ہوئی‘ یہ اپنی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر ہیڈ کوچ بنے‘ وقار یونس کو ٹیم سلیکشن میں رول دیا گیا‘ تنخواہ (سولہ ہزار ڈالر ماہانہ) بھی مرضی کے مطابق ملی‘ سالانہ ٹریول الاﺅنس (25 ہزار ڈالر) بھی حسب منشا ملا اور باقی سہولتیں بھی جو مانگیں وہ دے دی گئیں‘ یہ بات بھی پوشیدہ نہیں چیف سلیکٹر معین خان بھی نجم سیٹھی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بات بھی اب چھپی نہیں رہی چیئرمین شہریار خان اور نجم سیٹھی میں شدید اختلافات ہیں‘ شہریار خان نے کیسینو میں ڈنر کے ایشو پر معین خان کو پاکستان واپس بلا لیااور نجم سیٹھی چیئرمین کے اس حکم پر خوش نہیں ہیں چنانچہ سرد جنگ انتہا کو چھو رہی ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں سیاسی مداخلت بھی اب ڈھکی چھپی بات نہیں‘
یہ بورڈ 1948ءمیں بنا‘صدر پاکستان شروع سے بورڈ کے پیٹرن ان چیفچلےآ رہے ہیں لیکن نجم سیٹھی نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو نئی راہ دکھائی‘ حکومت نے قواعد میں تبدیلی کی اور میاں نواز شریف اکتوبر2013ءکو بورڈ کے پیٹرن انچیف بن گئے یوں بورڈ کی زیادہ تر پاورز وزیراعظم ہاﺅس شفٹ ہو گئیں اورنجم سیٹھی اور ذکاءاشرف کے درمیان کھینچا تانی بھی قوم کے حافظے میں ابھی تازہ ہے‘ یہ تمام حقائق کیا ثابت کرتے ہیں؟ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں ہمارا کرکٹ بورڈ بھی اسی طرح چل رہا ہے جس طرح ہماری پی آئی اے‘ ریلوے‘ واپڈا‘ سٹیل مل اور پارلیمنٹ چل رہی ہے‘ ہم ہر فیلڈ میں شیروں کا ایک لشکر بناتے ہیں‘ ہم لشکر کو پالتے پوستے ہیں اور یہ لشکر جب مقابلے کےلئے تیار ہو جاتا ہے تو ہم اس کی سربراہی کسی لنگڑے لومڑ کے حوالے کر دیتے ہیں اور یوں ہمارے شیر بکروں کی ٹکروں سے زخمی ہو جاتے ہیں اور دنیا ہماری حالت پر قہقہے لگاتی ہے‘ یہ ہماری قومی عادت بن چکی ہے‘ میں دعوے سے کہتا ہوں ہم اگر ملک میں کرکٹ‘ میوزک اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نہیں چلا سکتے تو پھرہم یہ ملک نہیں چلا سکتے‘ کیوں؟ کیونکہ قدرت نے ہمارے ملک کو انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ موسیقی اور کرکٹ میں بے انتہا نواز رکھا ہے‘ ہمارے بچے پیدائشی سافٹ ویئر انجینئر ہوتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ موبائل فون لیجئے‘ ملک کے کسی گاﺅں میں جائیے اور یہ فون گاﺅں کے سات آٹھ سال کے کسی بچے کے حوالے کر دیجئے‘ آپ شام کو بچے کا انٹرویو کیجئے‘ وہ بچہ آپ کو موبائل فون کے تمام فیچرز بتا دے گا‘ ہم ترقی پذیر ملکوں میں سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی قوم ہیں‘ ہمارے 70 فیصد نوجوانوں کے ای میل ایڈریس ہیں اور85 فیصد جوان موبائل فون بھی استعمال کرتے ہیں اور موبائل ایپلی کیشنز اور سوشل میڈیا بھی۔ کمپیوٹر کا پہلا وائرس لاہور کے ایک نوجوان نے ایجاد کیا تھا‘ ہم جس نوجوان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کےلئے ملک سے باہر بھجواتے ہیں‘ وہ واپس نہیں آتا‘ یورپ اور امریکا کے ادارے اسے بھاری تنخواہ پر نوکریاں دے دیتے ہیں‘
ہمارے خطے میں موسیقی کے جراثیم بھی بہتات میں پائے جاتے ہیں‘ میوزک کی مارکیٹ بھارت ہے لیکن ٹیلنٹ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے‘ دنیا آج تک وجہ دریافت نہیں کر سکی‘ ہمارے نوجوان گلوکار اٹھتے ہیں اور بھارت کا پورا میدان مار کر واپس آ جاتے ہیں‘ آپ بڑے غلام علی خان سے لے کر عاطف اسلم تک پاکستان کی موسیقی کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ حیران ہو جائیں گے اور ہم کرکٹ میں بھی اسی طرح مالا مال ہیں‘ ہم نے کرکٹ میں درجنوں ریکارڈ ہولڈرز پیدا کئے‘ ہمارے دشمن ہماری پوری ٹیم کو تباہ کر دیتے ہیں لیکن چند ماہ میں نیا شاہکار سامنے آ جاتا ہے اور یہ شاہکار بھی دنیا کو حیران کر دیتا ہے لیکن ہم اس ٹیلنٹ کے باوجود کرکٹ کے میدان میں بھی اسی طرح بدنصیب ہیں جس طرح ہم موسیقی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مار کھا رہے ہیں‘ ہم اپنے گلو کاروں کو ”میراثی“ کا خطاب دیتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سرحد پار کرتے ہیں تو لاکھوں‘ کروڑوں لوگ ان کے چرن چھوتے ہیں‘ ہم اپنے آئی ٹی سپیشلسٹ کو نوکری نہیں دیتے مگر دنیا ان لوگوں کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے‘ میں ایسے درجنوں نوجوانوں کو جانتا ہوں جو ملک میں نوکری کےلئے مارے مارے پھرتے رہے لیکن جب باہر کی کمپنیوں کو ان کے ٹیلنٹ کا علم ہوا تو یہ کمپنیاں انہیں ان کے گھروں میں بٹھا کر دس دس ہزار ڈالر ماہانہ دے رہی ہیں‘ میں ایسے بچوں کو بھی جانتا ہوں جو انٹرنیٹ پر برانڈ بناتے ہیں اور یہ بعد ازاں یہ برانڈ سال چھ مہینے میں فروخت کر کے ایک دو کروڑ روپے کما لیتے ہیں‘ ہم ان بچوں کی قدر کیوں نہیں کرتے اور دنیا ہمارے بچوں کو عزت اور رزق کیوں دیتی ہے؟ آپ جب اس سوال کا جواب تلاش کریں گے تو آپ کو ملک میں کرکٹ کے زوال کی وجہ بھی معلوم ہو جائے گی اور یہ وجہ یقینا میرٹ اور وژن ہو گا‘ ہم لوگ بنیادی طور پر ”وژن لیس“ ہیں‘ ہم گلوبل وژن کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے‘ ہم ڈاکٹر کو دکان پر بٹھا دیتے ہیں‘ انجینئر کو عمرے اور حج کرانے کی ذمہ داری دے دیتے ہیں‘ مولوی سے فارن پالیسی بنواتے ہیں‘ بزنس مین کو سکول چلانے کا ٹاسک دے دیتے ہیں‘ استاد کو الیکشن کرانے پر لگا دیتے ہیں‘ ججوں سے دھاندلی کمیشن بنواتے ہیں‘ فوج کو میٹر ریڈنگ پر لگا دیتے ہیں‘ رینجرز سے پولیس کا کام لیتے ہیں اور پولیس کو وی آئی پیز کی سیکورٹی کی ذمہ داری دے دیتے ہیں اور آخرمیں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں‘ ہم ترقی کیوں نہیں کر رہے؟ بھائی صاحب! شہریار خان سفارت کار ہیں‘ یہ 1960 ءمیں فارن سروس میں آئے اور 1994ءمیں ریٹائر ہوئے‘ یہ 34 سال سفارت کار رہے لیکن جب یہ ایک کلو میٹر پیدل نہیں چل سکتے تو آپ نے انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا‘ اس سے اچھا تھا آپ یہ ذمہ داری چودھری برجیس طاہر کو دے دیتے‘ یہ کم از کم سو تک گنتی تو جانتے ہیں‘ نجم سیٹھی صحافی اور بزنس مین ہیں‘ یہ پوری زندگی کتابیں چھاپتے اور کالم لکھتے رہے‘ یہ 2009ءمیں اینکرپرسن بھی بن گئے لیکن حکومت نے انہیں 24 جون 2013ءکو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین لگا دیا‘ کیوں؟ کیا یہ کرکٹر ہیں ؟ ہرگز نہیں‘ کرکٹ میں نجم سیٹھی اور میں دونوں برابر ہیں‘ میں کرکٹ کے بارے میں صرف اتنا جانتا ہوں‘ ٹیم میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں‘ بارھواں کھلاڑی باہر بیٹھ کر کسی کرکٹر کے بیمار ہونے کا انتظار کرتا ہے اور دونوں ٹیموں کے پاس گیند ایک ہی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ‘ نجم سیٹھی صاحب کی معلومات بھی اس سے زیادہ نہیں ہوں گی مگر یہ بھی چیئرمین بنا دیئے گئے‘ ان سے قبل ذکاءاشرف کو یہ ذمہ داری سونپی گئی‘ یہ بزنس مین اور زمیندار ہیں‘ شوگر مل کے مالک ہیں اور گنا اور گندم اگاتے ہیں‘ پوری زندگی کرکٹ کو صرف ٹیلی ویژن پر دیکھا مگر انہیں بھی چیئرمین کا عہدہ دے دیا گیا‘ آپ کرکٹ بورڈ کے تمام سابق چیئرمینوں کے پروفائل نکال کر دیکھئے آپ حیران رہ جائیں گے پاکستان کرکٹ بورڈ ایک ایسا بدقسمت ادارہ ہے جس کی چیئرمینی ڈاکٹروں کو بھی نصیب ہوئی‘ بزنس مینوں کو بھی‘ ججوں کو بھی‘ بیوروکریٹس کو بھی‘ جرنیلوں کو بھی‘ سفارت کاروں کو بھی‘ سیاستدانوں کو بھی اور صحافیوں کو بھی۔ یہ عہدہ اگر نصیب نہیں ہوا تو کرکٹروں کو نصیب نہیں ہوا چنانچہ ہماری کرکٹ حیران کن ٹیلنٹ کے باوجود عالمی نوحہ بن کر رہ گئی‘ دنیا آج ہم پر ترس بھری نظریں ڈالتی ہے اور پھر قہقہے لگاتی ہے۔
آپ میاں نواز شریف کی ہوس اقتدار ملاحظہ کیجئے‘ ملک چل نہیں رہا‘ پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ جا ری ہے‘ پنجاب اسمبلی کے 11 مسلم لیگی ارکان نے ندیم افضل چن کو ووٹ دے دیئے‘ بجلی پوری نہیں ہو رہی‘ دہشت گردی رک نہیں رہی‘ مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی‘ حکومت عمران خان سے نبٹ نہیں پا رہی‘ حکومت سے سینٹ کا الیکشن ہوتا نہیں‘ ملک سے پٹرول غائب ہو جاتا ہے‘ہم کراچی سنبھال نہیں پا رہے اور وزیراعظم کے پاس سینٹ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی فرصت نہیں ہوتی لیکن وزیراعظم پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف بھی ہیں‘ ہمارے ہردل عزیز وزیراعظم یہ اختیار بھی صدر مملکت کو نہیں دینا چاہتے‘ یہ کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف کا موڑھا بھی اپنی کرسی کے نیچے چھپا کر بیٹھے ہیں چنانچہ پھر اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو اس وقت نکل رہا ہے‘ پاکستان کرکٹ بورڈ سیاستوں‘ سٹے بازیوں اور اقرباءپروری کا گڑھ بن چکا ہے‘ بورڈ میں انا کے جھنڈے لہرا رہے ہیں‘ وقار یونس سرفراز احمد کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں‘ یہ چار میچوں میں انہیں کھیلنے کی اجازت نہیں دیتے‘ ٹیم جب مجبور ہو جاتی ہے تو سرفراز احمد کو ذلیل کرنے کےلئے اوپنر بھجوا دیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کرم کرتا ہے اور وہ سرفراز احمد جنہیں چار میچوں میں ڈریسنگ روم سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی وہ کمال کر دیتے ہیں اور صحافی جب وقار یونس سے سرفراز احمد کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو وقار یونس اس جائز سوال کو ”سٹوپڈ“ قرار دے دیتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب کو جاگنا ہو گا‘ یہ کرکٹ کو فوری طور پر ہاکی کی جگہ قومی کھیل قرار دے دیں‘ چیئرمین کا عہدہ ختم کر دیں‘ بارہ رکنی بورڈ بنائیں‘ بورڈ میں صرف قومی سطح کے کرکٹرز کو شامل کیا جائے‘ یہ لوگ بھی شفاف عمل کے ذریعے منتخب ہوں‘ کرکٹ کو ڈسٹرکٹ لیول سے شروع کیا جائے‘ ڈسٹرکٹ کرکٹ بورڈز بنائیں‘ کھلاڑی وہاں سے سلیکٹ ہو کر صوبوں کی ٹیموں میں آئیں‘ چاروں صوبوں کی کرکٹ ٹیمیں بنائیں‘ یہ ٹیمیں سارا سال ایک دوسرے کے ساتھ میچ کھیلیں‘ تین نیشنل ٹیمیں بنائیں‘ یہ ٹیمیں انٹرنیشنل مقابلوں میں جائیں‘ تینوں ٹیموں کے بہترین کھلاڑیوں سے ورلڈ کپ کےلئے ٹیم تیار کی جائے‘ یہ ٹیم پورا سال پریکٹس کرے اور کھلاڑیوں کو بول چال‘ بی ہیو کرنے‘ انٹرنیشنل قوانین اور سٹے بازی کے برے اثرات کے بارے میں تعلیم بھی دی جائے‘ ہم نے اگر یہ نہ کیا تو ہم زوال کی تاریخ بن کر رہ جائیں گے‘ملک میں کرکٹ ختم ہو جائے اور صرف پیٹرن انچیف رہ جائیں گے۔