کراکوف میں نیو ائیر

3  جنوری‬‮  2015

کراکوف پولینڈ کا تاریخی شہر ہے‘ میں 2014ء کے آخری دن گزارنے کیلئے کراکوف آ گیا‘ کیوں آگیا؟ یہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا‘ شاید شہر کے قدیم ترین کیفے جاما میخا لیکا میں کافی پینے کیلئے آگیا‘ یہ کافی شاپ 1890ء میں بنی اور یہ آج ایک سو 24 سال بعد بھی قائم ہے‘ کیفے کا ماحول‘ فرنیچر‘ دیواریں‘ چھتیں‘ فرش اور پردے قدیم سٹائل کے ہیں‘ یہ ماضی میں پولینڈ کے شاہی خاندان‘ سیاستدانوں‘ بیورو کریٹس‘ مصوروں‘ شاعروں‘ ادیبوں ور پروفیسروں کا مستقل مسکن ہوتا تھا‘ یہ آج بھی کلچر‘ ادب اور رومانس کا مرکز ہے‘ میں جولائی 2014ء میں کراکوف آیا تو جاما میخا لیکا بند تھا‘ شاید کافی شاپ میں پینٹ ہو رہا تھا‘ میں شاید جاما میخا لیکا میں ایک شام گزارنے کیلئے یہاں آ گیا یا پھر میں 2014ء کے آخری دن یورپ کے سرد ترین شہر میں گزارنا چاہتا تھا‘ 30 دسمبر کی رات کراکوف کا درجہ حرارت منفی 13 ڈگری سینٹی گریڈ تھا‘ میں نے رات بارہ بجے دریا کے ساتھ ساتھ واک شروع کر دی‘ دریا کا پانی جم چکا تھا‘ کنارے سفید ہو چکے تھے‘ برف پاؤں کے نیچے ٹوٹنے سے قبل چیختی تھی‘ آسمان پر ٹھٹھرا سہما آدھا چاند ساتھ ساتھ چل رہا تھا‘ وہاں اس لمحے خاموش درختوں‘ آوارہ ہواؤں اور یخ رات کے سوا کوئی نہیں تھا‘ وہ عجیب واک تھی‘ شہر اجنبی تھا‘ دریا بھی اجنبی تھا‘ رات بھی اجنبی تھی اور مسافر بھی اجنبی تھا‘ بس اگر کوئی چیز شناسا تھی تو وہ تڑپتی چیختی تنہائی تھی اور جنونی آوارگی تھی اور دنیا کے دوڑتے‘ بھاگتے ہجوم میں گم ہونے کی ناکام خواہش تھی اور چاند اور دریا کے ساتھ ساتھ بہنے کی ادھوری دعا تھی اور بس‘ باقی سب کچھ اجنبی تھا۔
کراکوف کے اس دریا کے کنارے رات بارہ بجے منفی 13 ڈگری سینٹی گریڈ میں واک کرتے ہوئے مجھے اچانک محسوس ہوا‘ میں کنفیوژ ہو چکا ہوں‘ میرا دماغ‘ میرا ذہن میرے کنٹرول میں نہیں رہا‘ میں ٹھنڈے یخ بینچ پر بیٹھ گیا‘ میرے چاروں اطراف اس وقت سناٹے‘ برف‘ سردی ور اجنبیت کے ڈھیر تھے‘ میں اس لمحے کراکوف کے دریائے وسٹولا (Vistula) کے کنارے اس اعتراف پر مجبور ہو گیا ’’میں کنفیوژ ہو چکا ہوں‘‘ میں اس کے بعد وجوہات تلاش کرنے لگا‘ میری ناک‘ میرے منہ سے سفید دھوئیں کی لکیریں نکل رہی تھیں‘ میں نے گردن تک ٹوپی پہن رکھی تھی‘ ہاتھوں پر دستانے تھے‘ گلے میں مفلر تھا اور بدن پر تین گرم شرٹس کے اوپر لانگ کوٹ تھا لیکن سردی اس کے باوجود ہڈیوں میں اتر رہی تھی‘ دریائے وسٹولا آہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا‘ میں اس لمحے اپنے آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور میں نے اعتراف کیا میری فلاسفی غلط تھی‘ جنرل ضیاء الحق کے جہاد کے دوران پیدا ہونے والے دانشور غلط تھے‘ میرے سینئرز اور میں نے معاشرے کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا‘ ہم نے قوم کو مذہب‘ روحانیت اور مشرقیت کی افیون دے دے کر سلا دیا اور ہم عوام کو حقائق کی زمین سے غیر حقیقی توقعات کے آسمان پر لے گئے اور ہم میں اب اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں‘ ہم میں اعتراف جرم کی طاقت نہیں‘ میں نے تسلیم کیا میں لاشیں دیکھ دیکھ کر اندر سے قبرستان بن چکا ہوں‘ میرے اندر کتبے ہی کتبے ہیں اور یہ کتبے مجھے اب آرام سے زندگی نہیں گزارنے دے رہے‘ دہشت گردی کی جنگ کے دوران مرنے والے 55 ہزار معصوم لوگ اب میرے جیسے لوگوں کو کبھی آرام‘ کبھی شانتی سے زندگی نہیں گزارنے دیں گے‘ ہم لوگوں نے اب لاشوں کے اس بوجھ کے ساتھ زندگی گزارنی ہے‘ میں نے اعتراف کیا‘ پشاور کے 150 معصوم بچوں نے مجھے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے‘ ان معصوموں نے میرا ذہنی توازن بگاڑ دیا ہے اور مجھے اب نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے اور میں نے اعتراف کیا میں ماضی میں صرف تکنیک سے لکھتا تھا‘ دل سے نہیں اور اب جب دل سے لکھ رہا ہوں تو لوگ اعتراض کرتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ یہ حقائق کے عادی نہیں ہیں‘ ہم نے انہیں افیون کا عادی بنا دیا تھا لہٰذا آج یہ افیون کے علاوہ کسی حقیقت کو حقیقت ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ یہ حماقتوں کی جنت سے باہر آنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور میں نے اعتراف کیا ہم جب تک معاشرے میں ایسا امن قائم نہیں کریں گے جیسا کراکوف جیسے شہروں میں ہے کہ میں سات سمندر پار آدھی رات دریا کے کنارے بیٹھا ہوں اور کوئی مجھے شک سے نہیں دیکھ رہا‘ ہم اس وقت تک اپنے معاشرے کو رہنے کے قابل نہیں بنا سکیں گے‘ میں نے اعتراف کیا‘ امن عقائد سے بڑی نعمت ہوتا ہے اور ہم اس نعمت کو عقائد کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں‘ میں نے اعتراف کیا ہم لوگ جینا بھول چکے ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص آدھا درندہ ہے اور یہ کبھی مذہب‘ کبھی طبقے‘ کبھی فرقے اور کبھی نسل کی بنیاد پر دوسرے کو چیرنا پھاڑنا عین عبادت سمجھتا ہے اور ہم اگر معاشرے کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں توپھر ہمیں بڑے فیصلے کرنا ہوں گے‘ ہمیں عقائد‘ نسل پرستی‘ لسانیت اور طبقاتی تقسیم کو کنٹرول کرنا ہو گا اور میں نے اعتراف کیا ہم نے اگر معاشرے کو سدھارنے کی کوشش نہ کی تو ملک میں لمبا مارشل لگ جائے گا اور اگلا جنرل صرف جنرل نہیں ہو گا وہ پاکستان کا اتاترک ہو گا‘ وہ مساجد سے لے کر تبلیغ تک ہر چیز پر پابندی لگا دے گا۔
میں کراکوف میں دو دن رہا‘ اگلا دن اچھا تھا‘ اس دن درجہ حرارت صرف منفی آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ تھا‘ وہ سال کا آخری دن تھا‘ شہر کے وسطی حصے میں نیو ائیر کی تقریب کیلئے سٹیج لگا تھا‘ پولینڈ میں عوامی مقامات پر شراب نوشی پر پابندی ہے‘ آپ کو یہاں لوگ ہاتھوں میں بوتلیں اٹھا کر پھرتے دکھائی نہیں دیتے‘ شراب نوشوں کو مے نوشی کیلئے ریستورانوں‘ کلبوں اورکافی شاپس میں جانا پڑتا ہے‘ پولش معاشرہ اس معاملے میں بڑی حد تک اسلامی ہے تاہم حکومت 31 دسمبر کو شراب نوشی کی خصوصی اجازت دے دیتی ہے‘ نوجوان اس شام بوتلیں اٹھا کر پھرتے دکھائی دیتے ہیں‘ میں شام کے وقت مرکز گیا تو مجھے وہاں ہر دوسرا شخص نیو ائیر کی تیاری میں دکھائی دیا‘ لوگ خوش تھے‘ یہ دور دراز سے نیوز ائیر کی تقریب دیکھنے آئے تھے‘ شام کے وقت سینٹر میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی‘ آپ جدھر دیکھتے تھے‘ آپ کو لوگ ہی لوگ اور سر ہی سر دکھائی دیتے تھے‘ ہر شخص کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی مگر وہ اس کے باوجود ڈسپلن میں تھا‘ یہ کسی دوسرے شخص سے ٹکراتا تھا اور نہ ہی غل غپاڑہ کرتا تھا‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو شراب خانے بھی کسی ملک میں قانون کی حکمرانی جانچنے کا ایک طریقہ ہوتے ہیں‘ دنیا کے کسی ملک میں اگر قانون کمزور ہے تو وہاں شراب خانے اور ڈسکو کلب نہیں بن سکتے اور اگر بن جائیں تو یہ چل نہیں سکتے‘ کیوں؟کیونکہ قانون کو نشے سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے‘ اگر قانون کمزور ہو گا تو لوگ شراب پی کر غل غپاڑہ بھی کریں گے اور ایک دوسرے سے دست و گریبان بھی ہوں گے‘ اس کے نتیجے میں شراب خانے اور کلب میں لڑائی ہو گی‘ لوگ ایک دوسرے کا سر پھاڑیں گے اور یوں وہ شراب خانہ یا کلب ایک آدھ لڑائی کے بعد بند ہو جائے گا چنانچہ دنیا کسی ملک میں امن اور قانون دیکھنے کیلئے یہ بھی دیکھتی ہے کیا اس ملک میں شراب خانے اور کلب ہیں اور اگر ہیں تو یہ کتنے عرصے سے ہیں‘ اگر اس کا جواب ناں ہو تو ماہرین محسوس کرتے ہیں ملک میں امن اور قانون دونوں نہیں ہیں‘ ہم مسلمان ہیں اور اسلامی معاشرے میں شراب اور کلب دونوں کی گنجائش نہیں ہوتی‘ ہونی بھی نہیں چاہیے لیکن کیا لوگ نیو ائیر جیسے مواقع پر اکٹھے بھی نہیں ہو سکتے؟ کیا یہ بھی غیر اسلامی ہے؟ کیا یہ بھی ناشائستہ ہے؟ اگر ہاں تو کیا لوگوں کو تفریحی کیلئے ہر بار دھرنے کا انتظار کرنا ہو گا؟ اور کیا یہ ہر بار ڈی جے بٹ کا راستہ دیکھیں گے؟ ہمیں بہرحال ملک میں مختلف نوعیت کی تقریبات شروع کرنی چاہئیں‘ ہمیں بسنت کی طرف بھی واپس جانا چاہیے اور ہمیں ملک میں میلوں ٹھیلوں کا کلچر بھی دوبارہ زندہ کرنا ہو گا تاہم یہ تقریبات تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہنی چاہئیں‘ قانون کو ہر حال میں مقدم ہونا چاہیے‘ کراکوف کے سینٹر میں لوگ جمع تھے‘ آپ اگر کبھی کراکوف جائیں تو آپ کو سینٹر میں ایک بڑا گھنٹہ گھر ملے گا‘ نیو ائیر کا سٹیج اس گھنٹہ گھر کے ساتھ بنا تھا‘ آٹھ بجے کنسرٹ شروع ہو گیا‘ گلوکار آتے‘ میوزک بجتا‘ میوزک کے ساتھ ساتھ سینکڑوں روشنیاں آن آف ہوتیں اور گلوکار گانا شروع کر دیتا‘ ہجوم گانے کے ساتھ ساتھ ناچنے لگتا‘ ہجوم میں جوان بھی تھے‘ بچے بھی اور بوڑھے بھی‘ یہ تمام لوگ خوش تھے‘ پولیس تھی لیکن نہ ہونے کے برابر۔ لوگ خود ہی قطار بنا لیتے تھے اور کندھے سے کندھا جڑا ہونے کے باوجود دوسرے شخص کو دھکا نہیں مارتے تھے‘ لوگ بوتلیں بھی نہیں پھینک رہے تھے‘ کوئی کسی کے ساتھ بدتمیزی بھی نہیں کر رہا تھا‘ میں ہجوم سے ہٹ کر کافی شاپ کی دوسری منزل پر بیٹھ گیا‘ مجھے وہاں سے سارا ہجوم نظر آ رہا تھا‘ لوگ خوش تھے اور اس خوشی میں ناچ رہے تھے‘ میں نے پاکستان میں لوگوں کو اتنا خوش صرف عمران خان کے دھرنے میں دیکھا‘ ہمیں عمران خان کو کم از کم اتنی داد ضرور دینی چاہیے‘ یہ لوگوں کو کھینچ کر باہر لے آیا‘ اور نوجوان دھرنے میں خوشی سے ناچتے تھے‘ یہ چیز ثابت کرتی ہے ہمارے لوگوں میں خوشی ابھی تک قائم ہے‘ یہ ناچ بھی سکتے ہیں‘ گا بھی سکتے ہیں اور خوش بھی ہو سکتے ہیں بس کوئی ہو جو انہیں بے خوف بنا کر باہر لے آئے‘ جو انہیں خوش ہونے کا موقع دے دے‘ میں کراکوف کے سینٹر کی طرف واپس آتا ہوں‘ رات گیارہ بج کر 55 منٹ پر میوزک تیز ہوگیا‘ لوگوں نے پاگلوں کی طرح ناچنا شروع کر دیا‘ وہ ناچتے رہے‘ ناچتے رہے یہاں تک کہ بارہ بجنے میں تیس سیکنڈ رہ گئے‘ میوزک تیز ہو گیا‘ لوگوں کا جنون بھی بڑھ گیا‘ بارہ بجنے میں دس سیکنڈ رہ گئے تو میوزک بند ہو گیا‘ لوگ بھی رک گئے‘ الٹی گنتی شروع ہوئی‘ نو‘ آٹھ‘ سات‘ چھ‘ پانچ‘ چار‘ تین‘ دو‘ ایک ‘ زیرو اور ساتھ ہی آسمان بقہ نور بن گیا‘ آتشبازی شروع ہو گئی‘ ہمارے اردگرد سینکڑوں ہزاروں رنگ تھے اور تیز میوزک تھا‘ لوگ دیوانہ وار ناچ رہے تھے اور ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دے رہے تھے‘ وہ ایک دوسرے سے بغل گیر بھی ہو رہے تھے‘ میوزک تیز سے تیز ہوتا گیا‘ روشنیاں بھی جلتی بجھتی رہیں‘میں ساڑھے بارہ بجے تک وہاں بیٹھا رہا‘ کافی شاپ کے ملازم نے بتایا‘ یہ ہمارے شہر کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے اور اس کے سارے اخراجات میونسپل کارپوریشن برداشت کرتی ہے۔
میں ساڑھے بارہ بجے وہاں سے اٹھا اور دوبارہ دریا کے کنارے آ گیا‘ دریا کا کنارہ خاموش تھا‘ دور دور تک کوئی بندہ بشر نہیں تھا‘ لوگ سنٹر میں ناچنے میں مصروف تھے‘ میں اداس ہو گیا‘ میں دراصل انسانوں کے اس گروپ سے تعلق رکھتا ہوں جنہیں خوش ہونا نہیں آتا‘ خوشی کھیل کی طرح ہوتی ہے‘ آپ کو یہ سیکھنی پڑتی ہے اور میں بدقسمتی سے یہ نہیں سیکھ سکا لہٰذا میں خوشی کے مواقع پر ہمیشہ اداس ہو جاتا ہوں‘ میں اس وقت بھی اداس تھا اوراداسی کے اس دورے کے دوران بس ایک سوال پوچھ رہا تھا ’’اگریہ لوگ غلط ہیں‘ اگر نیو ائیر منانے والے دنیا کے 95 فیصد لوگ غلط ہیں تو پھر یہ خوش کیوں ہیں‘ یہ پرامن اور خوبصورت زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟ دنیا میں کسی غلط چیز کا نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا‘ پھر ان کا غلط اچھے نتائج کیوں دے رہا ہے اور اگر ہم لوگ ٹھیک ہیں‘ ہمارا طرز زندگی اچھا ہے تو پھر ہم خوشی کیوں نہیں ہیں‘ ہم پرامن‘ مطمئن‘ مسرور اور کامیاب کیوں نہیں ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص جسمانی‘ ذہنی اور روحانی طور پر کیوں بیمار ہے؟‘‘ مجھے سوال کا کوئی جواب نہیں ملا‘ آپ کوشش کریں شاید آپ کو مل جائے۔
نوٹ: کراکوف انگریزی میں KRAKOW لکھا جاتا ہے‘ پولش لوگ اسے کراکو کہتے ہیں۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…