میں مون ہوں‘ نہیں میں عمران‘ میزان‘ عدنان‘ نواز‘ بلاول‘ بہرام‘ حسن اور اویس ہوں‘ نہیں! آپ ایک لمحے کیلئے رکئے‘ میں یہ بھی نہیں ہوں‘ میں ایک نعش ہوں‘ خون میں لت پت نعش‘ میری آنکھ‘ میری گردن‘ میرے سینے اور میری دونوں ٹانگوں میں تیرہ گولیاں لگی ہیں‘ میرے جسم سے خون کے فوارے نکلتے رہے‘ میں نے اپنی ایک زندہ آنکھ سے خود یہ ابلتے ہوئے فوارے دیکھے‘ میرے لہو کے چھینٹے کلاس روم کے وائیٹ بورڈ‘ دیواروں‘ فرش اور ڈیسک پر پڑی میری کتابوں پر پڑے اور خون کا دباؤ جب کم ہو گیا تو لہو نے میری یونیفارم کا راستہ دیکھ لیا‘ میں آہستہ آہستہ اپنے ہی لہو میں تر ہوتا گیا لیکن نہیں آپ مزید ٹھہریئے میرے بدن‘ میرے وجود پر صرف میرا لہو نہیں تھا‘ اس پر اویس‘ حسن‘ بہرام اور عدنان کا خون بھی تھا‘ یہ بھی میرے ساتھ نعشیں بنے‘ یہ بھی میرے ساتھ تڑپتے رہے۔
میں صرف 14 سال کا تھا‘ میں نے 14سال کی عمر میں زندگی اور موت دونوں دیکھ لیں‘ میں ایک ہی دن میں خوشی‘ خوف‘ درد اور موت چاروں مراحل سے گزر گیا‘ میں انسان سے لاش بن گیا‘ میرے ساتھ کیا ہوا؟ میں زندگی سے موت کے غار میں کیسے اترا؟ آپ یقیناًجاننا چاہیں گے‘ آپ یقیناًسننا چاہیں گے‘ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بچہ تھا‘ میں پیدا ہوا تو میری ماں اولاد کی صلاحیت سے محروم ہو گئی‘ میرے والدین نے اسے اللہ کی مرضی سمجھا اور میری پرورش میں لگ گئے‘ میری ماں‘ میرے والد نے دن اور رات کو اینٹ بنایا اور ان اینٹوں سے میری ذات‘ میری شخصیت کی عمارت کی تعمیر شروع کر دی‘ میں چودہ سال کا ہو گیا‘ 16 دسمبر کو میری ماں مجھے سکول چھوڑنے آئی‘ میری ماں مجھے چودہ سال سے سکول چھوڑتی اور سکول سے لیتی آ رہی ہے‘ یہ مجھے روز اپنے ہاتھ سے ناشتہ کراتی تھی‘میں صبح نخرے کرتاتھا‘ میری ماں مجھے اٹھاتی تھی لیکن میں آنکھیں موند کر لیٹارہتا تھا‘ میری ماں مجھے گدگداتی تھی‘ میری بند آنکھوں پر پیار کرتی تھی‘ میرے سر‘ میری گردن کو سہلاتی تھی‘ مجھے کیک‘ ٹافیوں اور چاکلیٹ کا لالچ دیتی تھی‘ میں تب جا کر آنکھیں کھولتا تھا‘ میں تب جا کر باتھ روم میں گھستا تھا‘ میری ماں مجھے نہلاتی بھی تھی‘ میں بڑا ہو چکا تھا لیکن میری ماں مجھے چھوٹا ہی سمجھتی تھی‘ وہ جب تک مجھے خود نہیں نہلالیتی تھی اسے تسلی نہیں ہوتی تھی‘ گھر سے سکول تک ہمارا کوئز ٹائم ہوتا تھا‘ میری ماں مجھ سے سوال پوچھتی جاتی تھی اور میں جواب دیتا جاتا تھا اور یوں میرے سبق‘ میرے لیسنز کی دہرائی ہوتی جاتی تھی‘ میں راستے میں چیزوں کو ٹھڈے بھی مارتا جاتا تھا‘ میری ماں مجھے منع کرتی تھی مگر میں ماں کو چڑانے کیلئے یہ ضرور کرتا تھا‘ ٹھڈے مارنے سے میرے جوتے گندے ہو جاتے تھے اور تسمے کھل جاتے تھے‘ ماں سکول پہنچ کر مجھے دہلیز پرکھڑا کرتی‘ خود نیچے بیٹھتی ‘ اپنے ہاتھوں سے میرے تسمے باندھتی اور پھر اپنے دوپٹے سے میرے دونوں جوتے صاف کرتی ‘ میں چھٹی کے وقت سکول سے نکلتا تو میری ماں باہر کھڑی ہوتی تھی‘ وہ انگلی پکڑ کر مجھے گھرلے جاتی ‘یہ ہمارا روز کا معمول تھا۔
16 دسمبر کو بھی یہی ہوا‘ میں صاف جوتوں کے ساتھ سکول میں داخل ہو ااور ماں گندہ دوپٹہ لے کر گھر واپس چلی گئی‘ ہم اس دن بہت خوش تھے‘ ہمارے دو پیریڈز خالی تھے‘ ہم نے پیریڈز کے بعد فٹ بال کھیلنا تھا‘ ہم کلاس میں بیٹھے تھے‘ ٹیچر ہمیں مطالعہ پاکستان پڑھا رہا تھا‘ اچانک زور دار دھماکہ ہوا‘ پورا سکول لرز گیا‘ ہمارے کانوں میں سائیں سائیں کی آوازیں آنے لگیں‘ ہم سب سکتے کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے‘ کانوں کی سائیں سائیں ابھی جاری تھی کہ گولیوں کی تڑ تڑ کی آوازیں آنے لگیں‘ ہمارے ٹیچر دوڑ کر باہر نکلے‘ واپس پلٹے‘ کلاس کا دروازہ بند کیا‘ کنڈی لگائی اور چیخ کر کہا ’’ سکول پر حملہ ہو گیا‘ آپ سب زمین پرلیٹ جاؤ‘‘ ہماری آدھی کلاس زمین پر لیٹ گئی‘ باقی دوہرے ہو کر بینچوں کے نیچے گھس گئے‘باہر گولیاں چل رہی تھیں‘ چیخنے‘دوڑنے‘ گرنے اور مدد مدد کی آوازیں آ رہی تھیں‘ ہم بینچوں کے نیچے سہمے بیٹھے تھے‘ اچانک کسی نے دروازے کو دھکا دیا‘ دروازہ ٹوٹ کر اندر گرگیا‘ دو لوگ اندر آئے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی‘ دونوں کے چہروں پر لمبی داڑھیاں تھیں‘ وہ ایف سی کی یونیفارم اور فوجی بوٹوں میں تھے‘ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کلمہ پڑھو‘ کلمہ پڑھو اور ساتھ ساتھ اللہ اکبر‘ اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے اور بچوں پر کلاشنکوف کے بریسٹ مار رہے تھے‘ میرے سامنے میرے سارے دوست مارے گئے‘ ہمارے استاد میز پر گر پڑے تھے‘ ان کا سینہ چھلنی ہو چکا تھا اور وہ میز پر پڑے تڑپ رہے تھے‘ وہ دونوں حملہ آور گولیاں چلاتے تھے‘ فرش پر گرے بچوں کو ٹھڈے مارتے تھے‘ جس بچے میں ذرا سی بھی جان ہوتی تھی‘ وہ اس کے سینے میں گولی اتار دیتے تھے‘ کمرہ لاش گھر بن گیا تو ایک قاتل کمرے میں رہ گیا اور دوسرا بھاگ کر باہر نکل گیا‘ کمرے میں موجود شخص نے بینچوں کے نیچے جھانک کر دیکھا‘ ہم بارہ لڑکے بینچوں کے نیچے چھپے بیٹھے تھے‘ اس نے چیخ کر ہمیں حکم دیا‘ کلمہ پڑھو اور ساتھ ہی فائر کھول دیا‘ ہم سب کو گولیاں لگ گئیں‘ میری دونوں ٹانگوں میں گولیاں لگیں‘ میں الٹ کرگرا اور بینچ میرے اوپر گر گیا‘ میری دونوں ٹانگیں بری طرح زخمی تھیں‘ مجھے اس دن معلوم ہوا موت کا خوف درد پر بھاری ہوتا ہے‘ آپ جب موت کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں تو آپ کو کوئی درد‘ کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی‘ میں بھی اس کیفیت میں تھا‘ میں نے اپنی ٹائی منہ میں ٹھونسی اور نعشوں کے درمیان لیٹ گیا‘ بینچ میرے اوپر پڑا تھا‘ میں آدھ کھلی آنکھوں سے دائیں بائیں دیکھتا تھا تو مجھے دوسیاہ لمبے بوٹ اپنے اردگرد چلتے دکھائی دیتے تھے اور میں دوبارہ اپنی آنکھیں میچ لیتا تھا‘ بوٹ چند لمحے کلاس میں پھرتے رہے‘ وہ شخص جہاں کسی بچے میں زندگی کی رمق محسوس کرتا تھا‘ وہ اس کے سر یا سینے میں گولی مار دیتا تھا‘ اس نے جب تسلی کر لی‘ اسے جب یقین ہو گیا کلاس میں کوئی بچہ زندہ نہیں بچا تو وہ بھی باہر نکل گیا‘ میں نے چند سیکنڈ انتظار کیا‘ مجھے جب کلاس میں کوئی حرکت محسوس نہ ہوئی تو میں نے بینچ کھسکایا‘ بہرام‘ اویس اور حسن کی نعشیں سائیڈ پر کیں اور دروازے کی طرف گھسیٹناشروع کر دیا‘ میری دونوں ٹانگیں بے جان تھیں‘ میرا پورا جسم خون میں لت پت تھا‘ میں دونوں ہاتھوں کے ذریعے اپنے لت پت وجود کو دروازے کی طرف گھسیٹ رہا تھا‘ میرے راستے میں میرے دوستوں‘میرے کلاس فیلوز کی نعشیں پڑی تھیں‘ پورے کمرے میں لہو اور بارود کی بو پھیلی تھی‘ نعشوں کی آنکھیں پھٹی اور منہ کھلے تھے‘ میں ان پھٹی آنکھوں ‘ کھلے منہ اور آڑھی ترچھی پڑی نعشوں کے درمیان سے گھسیٹتا ہوا‘ کلاس سے باہر نکل گیا‘ باہر بڑے کمرے میں ایک خاتون ٹیچر کی نعش کرسی پر پڑی تھی‘ خاتون کو کرسی پر گولی ماری گئی تھی اور پھر اس کی نعش کو آگ لگا دی گئی تھی‘ ٹیچر کا ہاتھ کرسی سے نیچے جھول رہا تھا‘ ٹیچر کی گردن سے خون کی لکیر بازو پر آرہی تھی اور بازو سے انگلیوں پر پہنچ کر نیچے فرش پر گر رہی تھی‘ میں گھسیٹتا ہوا‘ سرکتا ہوا بڑے کمرے سے باہر آگیا‘ باہر کوریڈور میں نعشیں بکھری تھیں‘ زخمی بچے درد سے کراہ رہے تھے‘ سکول کے آڈیٹوریم سے فائرنگ کی آوازیں آرہی تھیں‘ سکول میں ہر طرف قیامت کا منظر تھا‘ لاشیں تھیں‘ خون کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ تھے‘ انسانی جسموں کے چیتھڑے تھے‘ دیواروں‘ دروازوں اور گملوں پر گولیوں کے نشان تھے‘ اللہ اکبر کے نعرے تھے اور دوڑتے بھاگتے بچوں کی صدائیں تھیں ‘ میں صدمے کے عالم میں اپنے جسم کو فرش پر گھسیٹتا جا رہا تھا‘ میرے سامنے سیڑھیاں آ گئیں‘ میں نے سیڑھیوں سے اترنے کی کوشش کی‘ میرے ہاتھ دوسری سیڑھی پر تھے‘ جسم فرش پر اور مفلوج ٹانگیں پیچھے دور کوریڈور میں‘ میں نے اچانک ایک وحشی آواز سنی ’’وہ دیکھو‘ اس لڑکے کو دیکھو‘‘ اور پھر اس آواز کے ساتھ ہی سیاہ رنگ کے دو بوٹ دوڑتے ہوئے میری طرف آئے‘ میں خوف کی آخری منزل چھونے لگا‘ وہ بوٹ میرے قریب پہنچے‘ میں نے خوف کے عالم میں اوپر دیکھا‘ میرے سامنے لمبے بالوں اور لمبی داڑھی والا ایک خوفناک شخص کھڑا تھا‘ اس کے کپڑے خون سے لتھڑے ہوئے تھے‘ وہ غصے سے میری طرف دیکھ رہا تھا‘ اس نے کلاشنکوف میری طرف سیدھی کی اور چلا کر کہا کلمہ پڑھو‘ میں بے اختیار کلمہ پڑھنے لگا‘ میں ابھی مشکل سے محمدالرسول اللہ تک پہنچا تھا کہ ٹھاہ کی آواز آئی اور کوئی تیز گرم چیز میری آنکھ میں اتر گئی‘ سکینڈ کے ہزارویں حصے میں وہ تیز گرم چیز میرے سر سے دوسری طرف نکل گئی‘ میں تڑپا اور سیڑھیوں پر سیدھا ہو گیا‘ ٹھاہ کی دوسری آواز آئی اور میری گردن اور میرا سینہ کھل گیا‘ وہ شخص مجھے تڑپتا ہوا دیکھتا رہا‘ میں تڑپا‘ کسمسایا اور ٹھنڈا ہو گیا‘ مرنے کے بعد مجھے عجیب تجربہ ہوا‘ مجھے معلوم ہوا انسان مرنے کے بعد بھی وہیں رہتا ہے‘ میں بھی وہیں تھا‘ ان سیڑھیوں کے قریب جہاں میری لاش پڑی تھی‘ میں وہاں اکیلا نہیں تھا‘ میرے دائیں بائیں وہ سارے بچے موجود تھے جن کی لاشیں آرمی پبلک سکول کے کلاس رومز‘آڈیٹوریم اور کوریڈورز میں پڑی تھیں‘ ہم سب اپنی اپنی نعشوں کے سرہانے کھڑے تھے اور اپنے مرے ہوئے‘ ٹوٹے ہوئے‘ پھٹے ہوئے وجودوں سے پوچھ رہے تھے’’ ہمارا قصور کیا تھا‘ ہمیں کیوں مار دیا گیا؟‘‘ ہمارے وجود خاموش ٹھنڈے تھے‘ یہ ٹھنڈے وجود کیا جواب دیتے ؟ یہ جانتے تھے ہمارا قصور صرف اتنا تھا کہ ہم نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کے بیٹے نہیں تھے‘ ہم عام لوگوں کے بچے تھے اور یہ ملک عام لوگوں کے بچوں کیلئے نہیں بنا۔
میں نے گیٹ پر اپنی ماں کو دیکھا‘ میری ماں کو آج خالی ہاتھ واپس جانا تھا۔
16 دسمبر
17
دسمبر 2014
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں