وہ 1925ء میں پیدا ہوا‘ چھ سال کی عمر میں ولی عہد بنا اور 22سال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بن گیا‘ وہ محمد رضا شاہ پہلوی تھا لیکن پوری دنیا اسے شاہ ایران کے نام سے جانتی تھی۔ وہ ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا دوست تھا‘ یورپی پریس اسے ’’امریکن گورنر‘‘ کہتا تھا‘ وہ امریکی وفاداری میں بہت آگے چلا گیا‘ امریکہ نے اسے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا حکم دیا اور اس نے ایران میں داڑھی اور پردہ پر پابندی لگا دی۔
اس کے دور میں کوئی باپردہ عورت گھر سے نکلتی تھی تو پولیس سرے عام اس کا برقع پھاڑ دیتی تھی‘ شاہ ایران نے تمام زنانہ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ کو یونیفارم بنا دیا‘ شراب نوشی‘ رقص اورزنا فیشن بن گیا۔ شاہ کے دور میں ایران دنیا کا واحد ملک تھا جس میں کالجوں میں شراب کی دکانیں تھیں‘ یونیورسٹیوں میں خواتین کی سودے بازی ہوتی تھی اور اس مکروہ کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل تھی‘ شاہ کے زمانے میں دو جرنیلوں کے ہم جنس پرست بیٹوں نے آپس میں شادی کی‘ سرکاری سطح پر نہ صرف ان کی دعوت ولیمہ ہوئی بلکہ شاہ اور اس کی کابینہ نے خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کی۔ شاہ نے امریکہ کی محبت میں ایران میں موجود 42ہزار امریکیوں کو سفارتی حیثیت دے دی ‘ امریکہ نے شاہ ایران کے دفتر میں ’’گرین فون‘‘ لگا رکھا تھا اور اسے امریکہ سے جو ہدایات ملتی تھیں ‘ وہ ان پر فوری عملدرآمد کراتا تھا لیکن پھر شاہ کی امریکہ نواز پالیسیوں پر بغاوت ہوئی ‘ یہ بغاوت تین سال تک چلتی رہی‘ شاہ نے 12شہروں میں مارشل لاء لگا دیا‘ عوام نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا‘ شاہ نے حکومت شاہ پور بختیار کے حوالے کی اور ملک سے فرار ہو گیا‘ اس کا خیال تھا امریکہ اب اس کی وفاداریوں کا بدلہ دے گا لیکن جوں ہی شاہ ایران کا طیارہ ایران کی حدود سے نکلا‘ امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں‘ شاہ پہلے مصر گیا‘
پھرمراکش‘ پھر بہا ماس اور پھر میکسیکو‘ وہ اس دوران امریکہ سے مسلسل مدد مانگتا رہا لیکن وائٹ ہاؤس اس کا ٹیلی فون تک نہیں سنتا تھا۔شاہ ایران سواسال تک مارا مارا پھرتا رہا لیکن کسی نے اس کی مدد نہ کی‘ امریکہ نے اس کے اکاؤنٹس تک ’’سیز‘‘ کر دئیے‘آخر میں انورالسادات کام آیا اوراس نے اسے پناہ دے دی ۔ جولائی 1980ء میں قاہرہ میں اس کاانتقال ہوا‘ انتقال کے وقت اس کے پاس اس کی تیسری بیوی کے سوا کوئی نہ تھا‘لوگ اس کا جنازہ تک پڑھنے نہ آئے چنانچہ اسے اس کے بیڈ روم ہی میں امانتاً دفن کردیا گیا۔
یہ صرف رضا شاہ پہلوی کی کہانی نہیں‘ امریکہ کا ہر دوست حکمران اسی انجام کا شکار ہوا‘ آپ ’’اناس تاسیوسو‘‘ کی مثال لیجئے ‘ وہ نکاراگوا میں امریکی ایجنٹ تھا‘ نکاراگوا میں کمیونزم کی تحریک شروع ہوئی تو امریکہ نے اناس تاسیوسو کو ڈالر اور اسلحہ دے کر کمیونزم کے خلاف کھڑا کردیا۔ تاسیوسو امریکہ کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑتا رہا‘ 1979ء میں نکارا گوا میں اس کے لئے حالات مشکل ہو گئے‘ وہ ملک سے فرار ہوا لیکن جوں ہی اس نے نکارا گوا سے باہر قدم رکھا‘
امریکا نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا‘ اس نے امریکہ آنے کی کوشش کی لیکن امریکی حکومت نے اجازت نہ دی‘یوں اناس تاسیوسو جنگلوں اور غاروں میں چھپ کر زندگی گزارنے لگا‘ وہ1980ء میں اسی پریشانی کے عالم میں انتقال کر گیا اور اس کے چند قریبی دوستوں نے اسے پیراگوئے کے شہر اسنشن میں دفن کر دیا‘ آج لوگ اس کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔چلی کے آمر’’جنرل اگارتے اگستو پنوشے‘‘ نے 1973ء میں سی آئی اے کی مدد سے جنرل ایلینڈو کی منتخب حکومت پر شب خون ماراتھا‘
پنوشے نے اقتدارمیں آتے ہی چلی کی عوام کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ پنوشے 1990ء تک چلی پر حکمران رہا‘ ان 17برسوں میں پنوشے نے امریکہ کے کہنے پر ہزاروں شہری قتل کرائے‘ امریکہ کی ناپسندیدہ تنظیموں پر پابندیاں لگائیں اور امریکہ کی خواہش پر اپنے شہریوں کے انسانی حقوق غصب کئے‘ عوام1990ء میں پنوشے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ‘وہ مارچ 1990ء میں لندن فرار ہو گیا‘ اس کا خیال تھا برطانیہ اور امریکہ اسکی وفاداریوں کی قدر کریں گے لیکن لندن آتے ہی برطانوی پولیس نے اسے گرفتارکیا اور اسے اس کے گھر میں نظر بند کر دیا‘
اس نے اس ناروا سلوک پر امریکہ سے احتجاج کیا لیکن امریکی حکومت نے اسے جواب تک دینے کی زحمت نہ کی‘ برطانوی حکومت نے اسے 2000ء میں چلی کے حوالے کر دیا‘ اس کے خلاف مقدمہ چلا‘ 3دسمبر 2006ء کو اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ دم توڑ گیا‘ اس کی موت پر پورے ملک میں خوشیاں منائی گئیں جبکہ امریکی حکومت نے ایک سطرکا تعزیتی پیغام تک جاری نہ کیا۔ انگولا کا باغی سردار ’’جوناس سیومنی‘‘ بھی امریکہ نواز لیڈر تھا‘وہ برسہا برس انگولا میں امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا‘
نومبر1992ء میں امریکہ نے اسے کیمونسٹوں کے ساتھ امن معاہدے کا حکم دیا‘ اس نے معاہدے پر دستخط کر دئیے جس کے نتیجے میں جوناس سیومنی بے دست و پا ہو گیا‘ معاہدے پر دستخطوں کے دو ماہ بعد کمیونسٹوں نے ’’ہامبو‘‘ میں اس کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کر دیا‘ وہ فرار ہو گیا‘ آج اس واقعہ کو پندرہ سال گزر چکے ہیں ‘جوناس سیومنی جان بچانے کیلئے چھپتا پھرر ہا ہے لیکن امریکی حکومت اس کا ٹیلی فون تک نہیں سنتی۔ ’’جنرل نوریگا‘‘ پانامہ میں امریکہ کا آلہ کار تھا‘ اسے بھی امریکیوں نے کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کیا۔
وہ1990ء تک امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا لیکن امریکہ کی تسلی نہ ہوئی لہٰذا امریکہ نے پانامہ پر حملہ کر دیا‘صدرنوریگا گرفتار ہوا‘ امریکی ایما پر عدالت نے اسے 40سال قید بامشقت کی سزا سنا دی اور نوریگا گزشتہ چودہ برس سے جیل میں امریکی دوستی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔’’فرڈی ننڈمارکوس‘‘ 22برس تک فلپائن میں امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہا۔ اس نے فلپائن سے کمیونسٹوں کوچن چن کرختم کردیا لیکن 1986ء میں امریکہ ہی نے اس کی حکومت ختم کرا دی‘ مارکوس امریکہ آ گیا‘
امریکہ نے اسے پناہ تو دے دی لیکن اسے وہ عزت اوروہ توقیر نہ دی جس کا وہ حق دارتھا‘مارکوس نے باقی زندگی ہونولولو کے ایک چھوٹے سے مکان میں گزاری اور اسے ایک عام پناہ گزین کے برابر وظیفہ ملتا تھا‘ مارکوس 1999ء میں اسی بے بسی کے عالم میں آنجہانی ہو گیا۔1979ء ہی میں امریکہ نے رہوڈیشیا میں بشپ ایبل منروریوا کو موغا بے اور نکومو کے مقابلے میں کھڑا کیا‘ بشپ امریکیوں کیلئے لڑتا رہا لیکن جب وہ لڑتے لڑتے کمزور ہو گیا تو امریکہ نے اس کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیااورصدرصدام حسین کی کہانی تو پوری دنیا جانتی ہے۔
انقلاب ایران کے بعد امریکہ نے صدام حسین کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا‘ صدام حسین نے امریکہ کی ایماء پر 22ستمبر 1980ء کو ایران پر حملہ کیا‘ یہ جنگ 20اگست1988ء تک 8سال جاری رہی اور اس میں دس لاکھ افراد ہلاک اور 20لاکھ زخمی ہوئے۔ صدام حسین 1990ء تک امریکہ کا دوست رہا لیکن پھر امریکہ نے تیل کے لالچ میں عراق پر حملہ کر دیا‘ اس جنگ میں 86ہزار عراقی شہری شہید ہوئے‘ 2003ء میں امریکہ نے ایک بار پھر عراق پر حملہ کیا‘ صدام حسین گرفتار ہوا اور امریکی ہدایات پر اسے30دسمبر2006ء کو بغداد میں پھانسی دے دی گئی۔
شاہ ایران سے لے کرصدام حسین تک امریکی تاریخ دوست کشی کی ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امریکی اپنی خارجہ پالیسی کو ’’ڈسپوزل ڈپلومیسی‘‘ کہتے ہیں‘ ان کا فلسفہ ہے خریدو‘ استعمال کرو اور پھینک دو‘ امریکی قوم بلیڈ کند ہونے سے پہلے بیوی بدل لیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ اپنے دوستوں کو کاغذ کے گلاس‘ پلیٹ‘ ٹشو اور گندی جراب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ یہ لوگ ہمیشہ کیس ٹو کیس اور پراجیکٹ ٹو پراجیکٹ چلتے ہیں چنانچہ ان کے دوست جنرل اگستو پنوشے ہوں‘
جنرل رضا شاہ پہلوی ہوں یا جنرل صدام حسین یہ لوگ اس وقت انہیں دوست سمجھتے ہیں جب تک وہ ان کیلئے خدمات سرانجام دے سکتے ہیں اور جس دن انہیں محسوس ہوتا ہے یہ شخص ان کی ’’ذمہ داری‘‘ بنتا جا رہا ہے‘ یہ اس کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق جیسا سلوک کرتے ہیں اوراس کے بعدیہ ان کی قبروں تک پر ’’سابق‘‘ کی مہر لگا دیتے ہیں۔
یہ ہے امریکی دوستی اور اس کا انجام اور امریکہ پچھلے دو سو چودہ برس سے’’دوستی‘‘ کے اسی فلسفے پر کاربند ہے اور اس نے آج تک کسی شخص کیلئے اپنی یہ پالیسی نہیں بدلی لیکن ہمارے مہربان یہ سمجھ رہے ہیں 2007ء تک پہنچ کر امریکہ نے اپنا سارا فلسفہ بدل لیا ہے اور وہ اب بحیرہ عرب کے آخری ساحل اوربحر اوقیانوس کی آخری لہر تک ہمارا ساتھ دے گا‘
ہمارے یہ دوست بھول گئے ہیں وہ امریکی جو اپنی ماں‘ اپنے باپ کو بھول جاتے ہیں وہ بحرانوں میں ان کا کیاساتھ دیں گے۔ امریکہ ڈوبتے سورجوں کی زمین ہے اور ڈوبتے سورجوں کے بیٹے ہمیشہ چڑھتے سورجوں کے دوست ہوتے ہیں اور اس وقت ہمارے مہربانوں کا سورج ڈوب رہا ہے چنانچہ امریکہ کی وفاداری کا رخ بھی بدل رہا ہے۔ بس ایک دو ہفتوں کی بات ہے اور اس کے بعد نیا کپ‘ نئی پلیٹ اور نیا گلاس ہوگا اورکونڈالیزارائس ہو گی۔