مدائن شہرکورات کی گہری سیاہ تاریکی اپنی آغوش میں لے چکی تھی، یہ شہر جو کل تک کسرٰی کی سلطنت کا ایک حصہ تھااس سلطنت کا جو دنیا کی سُپر پاور تھی۔ مال اور شوکت میں سب سے آگے اور اب مدائن کئی روز کی جنگ کے بعد اسلامی خلافت کا حصہ بن چکا تھا۔ کسرٰی کے سپاہیوں نے بہت مزاحمت کی سلطنت کو بچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی
لیکن مسلمان مجاہدین کی ایمانی طاقت کے بپھرے دریاکے سامنے کسرٰی کی طاقت تنکے کی طرح بہہ گئی۔ جس کے نتیجے میں مالِ غنیمت کنکروں کی طرح بکھرا پڑا تھا۔ مدائن شہر کے باہر دور دور تک خیمے نصب تھے۔ جن میں مسلمان مجاہدین ٹھہرے ہوئے تھے۔اچانک خیموں کے درمیان ایک انسانی سایہ ابھرا، اس نے اپنی آستین میں کوئی بہت وزنی چیز اٹھا رکھی تھی۔ یہ سایہ لمبے قدم اٹھاتا ایک خیمے کے قریب آکر رک گیا۔ اندھیرے میں ماحول کا جائزہ لینے کے بعد جب اسے یقین ہو گیا کہ اس کا مطلوبہ خیمہ یہی ہے، تو اس نے خیمے کے دروازے پرٹھہر کر سلام کیا۔ جواب میں وعلیکم السلام کی آواز آئی۔ وہ اس آواز کو ہزاروں میں پہچان سکتا تھا، یہ آواز اس کے سپہ سالار سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کی آوازتھی، جو پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار ساتھی تھے اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ المسلمین کی طرف سے مقرر کردہ امیرِ لشکر تھے۔ انہی کی مومنانہ قیادت میں کسرٰی کی سلطنت اسلام کے دامن میں آئی تھی۔سلام کا جواب پا کر انسانی سایہ خیمے کے اندر داخل ہوا۔ آستین میں چھپائی ہوئی چیز کو نکالا اور امیرِ لشکر کے سامنے رکھ دیا۔ یہ جواہرات سے مرصع کسرٰی کا مشہور ترین قیمتی تاج تھا۔ جو اس قدر وزنی تھا کہ کسرٰی کے تخت کے عین اوپر، چھت سے زنجیر کے ساتھ اسے لٹکا دیا گیا تھا۔
بادشاہ اس سر پر پہننے کے بجائے اپنا سر اس کے اندر دے لیتا اور دربار سے اٹھتے وقت اسے وہیں لٹکتا چھوڑ آتا۔سبحان اللہ! اب یہی قمیتی تاج سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے، آپ رضی اللہ عنہ کے قدموں میں، زمین پر پڑا تھا۔سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے تاج کو ٹٹولا اور سوچا کہ اتنا قیمتی تاج دیکھ کر اس غریب سپاہی کی نیت میں فرق نہیں آیا۔نیت میں فرق بھلا کیسے آتا،
یہ سپاہی کسی جابر فوج کا سپاہی نہیں، اللہ کے دین کا سپاہی تھا۔جس کا صرف ایک ہی مقصد تھا، اللہ کے دین کو ہر خطے میں پہنچانا، اسے اپنے آپ پر اور دوسروں پر نافذ کرنے کی پُر خلوص اور فدائیانہ کوشش۔اس کے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہی تعلیم دی تھی۔وہ اچھے سے جانتا تھا کہ دوسرے کا مال ہو یا مالِ غنیمت اس میں سے ایک تنکے کی خیانت بھی حرام ہے
اور اس کے عملِ جہاد کو برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔سپاہی نے تاج امیر کے حوالے کیا اور واپس چلنے کے لیے مڑا، سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ نے اسے روک لیا اورفرمایا:اے مجاہد اسلام ، اے میرے بھائی اپنا نام تو بتاتے جائو’سپاہی نے دروازے کی طرف پیٹھ پھیری اور وہ الفاظ کہے جو تاریخ میں مسلمانوں کے اعلیٰ کردار و اصاف کی تابندہ مثال بن کر تا قیامت چمکتے رہیں گے!
اس نے امیر کو جواب دیتے کہا کہ”جس کی رضا کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے، وہ میرا نام جانتا ہے”۔یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔تاریخ میں اس مجاہد کا نام آج تک کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کون تھا جس نے اتنا قیمتی تاج موقع ملنے کے باوجود امیر کے قدموں کے لا ڈالا۔