کربلا معرکہ حق و باطل کی وہ داستان ہے جس نے قیامت تک آنے والی انسانیت پر اپنے انمٹ گہرے نقوش چھوڑے ہیں، خانوادہ رسولؐ نے اپنے لہو سے دین کی آبیاری کرتے ہوئے اس کی حفاظت فرمائی۔ کربلا الم ، دکھ، مصیبت اور مصائب کی وہ داستان ہے جو جگر کو چھلنی کر دیتی ہے مگر معرکہ حق و باطل اور شہادت امام حسینؓ کے بعد خاندان نبیؐ پر جو مصائب و آلام آئےوہ
کچھ کم نہ تھے۔ حضرت امام حسینؓ کی بہن اور ان کی شہادت کے بعد قافلہ حق کی رہبر و رہنما حضرت زینب ؓ کی قیادت جب یہ لٹا پٹا خاندان یزید کے دربار میں پہنچا تو وہاں ایک عجیب ہی منظر تھا۔ جاہ حشمت کے خدائوں کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں، چہرے پر خوف اور شرمندگی کے سائے لہرا رہے تھے۔ یزید خود اندر سے خوفزدہ اور ڈرا ہوا تھا ، تاریخ کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ یزید نے جب اپنی حالت اور اپنے درباریوں کا حال محسوس کیا تو اس نے اسے رفع کرنے کیلئے قیدیوں سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ معروف عالم دین علامہ ثاقب رضا مصطفائی نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یزید کے دربار میں قافلہ حسینیؓ کی موجودگی میں پیش آنے والے چند حالات و واقعات کا ذکرکرتے ہوئےکہتے ہیں کہ یزید نے قافلہ حسینیؓ کے سامنے پہلے تو دکھ کا اظہار کیا اور اسی کو بنیاد بنا کر بعض لوگ یزید کی بریت کا اعلان کرتے ہیں، علامہ ثاقب کا کہنا تھا کہ شاید اسی موقع کیلئے کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ قاتل کی پشیمانی مقتول کی اہمیت کوتو بڑھا سکتی ہے مگراس کے دامن سے قتل کے داغ کو نہیں دھو سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ یزید کے ٹسوے تھے جو وہ بہا رہا تھا۔ بعد میں اس نے حضرت امام زین العابدینؓ کے دندان مبارک پر چھڑی مارنا شروع کر دی،تو وہاں موجود حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ جو صحابی رسول ؐ تھے
وہاں موجود تھے وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے، ان کا بدن کانپ رہا تھا، کہنے لگے ظالم !یہاں اپنی چھڑی ہٹا لے، میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ حضوراکرمﷺ نے ان ہونٹوں کو خود چوما ہے، یہ کہہ کر آپؓ دربار سے نکل گئے، آپؓ روتے تھے اور آپؓ کے بدن پر کپکپی طاری تھی۔ بعد میں یزید حضرت امام زین العابدین ؓ سے مخاطب ہوا اور کہا کہ حضرت! غلطی ہو گئی ، میں
ایسا نہیں چاہتا تھا، بتائیں اگر آپ ؓ کی کوئی شرط ہو؟جس کے جواب میں حضرت امام زین العابدینؓ نے یزید کے سامنے چار شرائط رکھیں،پہلی شرط یہ تھی کہ سر حسینؓ سمیت تمام کربلا کے شہیدوں کے سر مبارک ہمارے حوالے کردئیے جائیں تاکہ ہم کربلا جا کر ان کی تدفین کر سکیں، دوسری شرط یہ تھی کہ ہمیں مدینہ حفاظت سے پہنچا دیا جائے، تیسرے شرط یہ تھی کہ مجھے آج
جمعہ کے روز دمشق کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت دی جائے، چوتھی شرط یہ تھی کہ قاتلان حسین ؓ کو ہمارے حوالے کیا جائے۔ جس پر یزید نےدربار میں مخاطب ہو کر پوچھا کہ کون ہے حسین ؓ کا قاتل، لوگوں نے کہا کہ خولی ہے، وہاں موجود خولی نے کہا کہ میں نے قتل نہیں کیا، یہ سنان بن انث نخی نے کیا ہے، جب سنان بن انث نخی سے دریافت کیا گیا
تو اس نے جواب دیا کہ میں حسینؓ کو قتل کیوں کرتا؟یہ تو شمر بن ذوالجوشن نے کیا ہے، شمر بن ذوالجوشن سے جب پوچھا گیا کہ تم بتائو تو وہ اس نے کہا کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا ، میرا امام حسینؓ نے کیا کچھ بگاڑا تھا؟قتل اس نے کیا ہے جس کی حکومت کو خطرہ تھا، وہ ہے قاتل حسینؓ کا، جس پر یزید نے امام زین العابدینؓ کو کہا کہ یہ شرط آپ ؓ کی میں پوری نہیں کر سکتا،
اگر دمشق کی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں۔ فلک نے پھر وہ نظارا دیکھا کہ 14سالہ امام زین العابدینؓ دمشق کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ کیلئے منبر پر کھڑے ہیں، سامنے یزید اور عمائدین سلطنت بھی براجمان تھے، عوام کا بھی ہجوم تھا، آپؓ نے خطبہ شروع کیا تو لوگ زاروقطار رونے لگے، آپؓ نے اپنے اہل بیت کے مناقب جب لوگوں کے
سامنے رکھے تو یزید گھبرا گیا کہ کہیں لوگ میرے گریبان تک نہ پہنچ جائیں، اس نے مئوذن کو اشارہ کیا کہ جلدی سے اذان دی جائے، مئوذن نے جب اذان دینا شروع کی اور تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا تو حضرت شہزادہ زین العابدینؓ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں، مئوذن نے جب شہادتین’’اشہد ان لا الہ الا اللہ کہی تو
اس کے جواب میں آپؓ نے کہا کہ ہاں ، ہاں! اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کی گواہی ہم نے خون سے دی ہے، جب مئوذن اشہد ان محمد ا رسول اللہ پر پہنچا تو حضرت امام زین العابدینؓ یزید سے مخاطب ہو کر بولے کہ یزید دیکھ کہ اذان میں تیرے نانا کا نام ہے یا میرے نانا کا نام ہے، آج بھی منبر پر میرے نانا کا نام ہے۔ علامہ ثاقب رضا مصطفائی کہتے ہیں کہ یزید مر گیا
اس کا نام مر گیا، اس کا تشخص مر گیا۔ حسینؓ کل بھی زندہ تھا، حسین آج بھی زندہ ہے، حسینؓ کربلا کے تپتے ہوئے ریگزار میں بھی زندہ تھا ، کوفے کے بازار میں بھی زندہ تھااور دمشق کی جامع مسجد میں بھی زندہ تھا، مدینہ میں بھی زندہ ، مکہ میں بھی زندہ، کابل میں بھی زندہ، قندھار میں بھی زندہ، قلعہ جھنگی میں بھی زندہ، تورا بورا میں بھی زندہ، موصل میں بھی زندہ ،
بغداد میں بھی زندہ، غزہ کی پٹی فلسطین میں بھی زندہ۔ آج حسینؓ کی زندگی اور بانکپن دنیا کو بتا رہا ہے کہ امریکہ کے منہ پر طمانچہ حسینؓ مارے گا،زمانہ بتائے گا کہ حسینؓ کل بھی زندہ تھا اور حسینؓ آج بھی زندہ ہے،