اسلام آباد (نیوز ڈیسک) بنگلادیش میں نوجوان انقلابی رہنما شریف عثمان ہادی کی موت کے بعد پورے ملک میں بھارت مخالف احتجاج کی لہر پھیل گئی ہے اور کئی علاقوں میں پرتشدد مظاہرے سامنے آئے ہیں۔
ڈھاکا میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور غصے کی حالت میں عوامی لیگ اور مختلف میڈیا اداروں کے دفاتر کو آگ لگا دی۔ مشتعل مظاہرین نے توڑ پھوڑ کر کے مرکزی شاہراہیں بند کر دیں جبکہ کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپوں کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔
احتجاجی ریلیوں میں شرکاء نے عثمان ہادی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ وہ تب تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک ان کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ مظاہرین کا مؤقف ہے کہ حملہ آوروں کو فوری گرفتار کر کے انصاف فراہم کیا جائے۔
راجشاہی میں صورتِ حال مزید بگڑ گئی جہاں شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ کو بھی آگ لگانے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ حکومت نے حالات کے پیشِ نظر مختلف اضلاع میں سیکیورٹی سخت کر دی ہے۔
عثمان ہادی ان طلبہ رہنماؤں میں شامل تھے جنہوں نے جولائی میں حسینہ واجد حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ وہ طلبہ کی جانب سے قائم کیے گئے سیاسی پلیٹ فارم ’’انقلاب منچ‘‘ کے ترجمان بھی تھے۔
گزشتہ جمعے کو ڈھاکا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے انہیں شدید زخمی کر دیا تھا۔ ابتدائی علاج کے بعد انہیں سنگاپور لے جایا گیا، مگر وہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔
تحقیقات کے مطابق حملہ کرنے والے ملزمان مبینہ طور پر بھارتی سرحد سے غیر قانونی طور پر داخل ہوئے اور کارروائی کے بعد واپس بھارت چلے گئے۔ بنگلادیشی حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی مشتبہ حملہ آور کی شناخت فیصل کریم مسعود جبکہ اس کے ساتھی موٹرسائیکل سوار کی شناخت عالمگیر شیخ کے نام سے ہوئی ہے۔
اب تک اس کیس میں 14 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جن میں فیصل کے والد ہمایوں کبیر، والدہ ہاسی بیگم، اہلیہ شاہدہ پروین سمیہ اور بھائی واحد احمد سیپو بھی شامل ہیں۔ تمام افراد سے تفتیش جاری ہے۔















































