اسلام آباد ۰نیوز ڈیسک)اسرائیل کے وزیر خزانہ اور انتہا پسند مذہبی جماعت ریلیجیس صہیونزم پارٹی کے سربراہ بیتزالیل اسموٹریچ نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے امکان پر ایک ایسا متنازع بیان دیا ہے جس پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ ان کی اپنی حکومت کے ارکان نے بھی سخت ردِعمل ظاہر کیا ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسموٹریچ نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر اسرائیل کو سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا پڑا تو وہ اس معاہدے کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔یروشلم میں جمعرات کے روز ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے انتہائی توہین آمیز لہجے میں کہا، ’’اگر سعودی عرب یہ کہے کہ تعلقات کی بحالی فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے، تو ہمارا جواب ہوگا: نہیں، شکریہ۔ وہ اپنے صحرا میں اونٹوں پر سواری کریں، اور ہم اپنی معیشت و ریاست کی ترقی جاری رکھیں گے۔
‘‘یہ تقریب زومیٹ انسٹیٹیوٹ اور مکور ریشون اخبار کے اشتراک سے منعقد ہوئی تھی۔ وزیر خزانہ کے اس بیان نے اسرائیلی سیاست میں ہلچل مچا دی، اور اپوزیشن رہنماؤں نے اسے ’’شرمناک‘‘، ’’غیرسفارتی‘‘ اور ’’قوم کے وقار کو مجروح کرنے والا‘‘ قرار دیا۔قائدِ حزبِ اختلاف یائیر لپید نے ایک پوسٹ میں کہا کہ نیتن یاہو کی حکومت مشرقِ وسطیٰ میں مثبت تبدیلی لانے کے بجائے سوشل میڈیا کے عام صارفین کی طرح زبان استعمال کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ قیادت نہیں بلکہ تباہی کی راہ ہے۔‘‘لپید نے عربی زبان میں کی گئی ایک ٹویٹ میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو یقین دلایا کہ ’’اسموٹریچ کے خیالات پورے اسرائیل کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘‘اسی طرح ڈیموکریٹس پارٹی کے رہنما یائیر گولان نے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’ایسی سوچ ہی 7 اکتوبر 2023 کے سانحے کی بنیاد بنی تھی۔ سعودی عرب سے تعلقات مسترد کرنا دراصل حماس کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے تاکہ وہ غزہ پر اپنی گرفت برقرار رکھے۔‘‘بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز نے کہا کہ وزیر خزانہ کا بیان ’’ناسمجھی اور حکومتی ذمہ داری کے فقدان‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو انتہا پسندی سے بالاتر ہو اور مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے، نہ کہ صرف سیاسی لائکس کے لیے بیانات دے۔
عوامی دباؤ بڑھنے پر اسموٹریچ نے بعد ازاں اپنے الفاظ پر معذرت کی اور کہا کہ ’’میرا سعودی عرب سے متعلق بیان نامناسب تھا، اگر اس سے کسی کو دکھ پہنچا ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔‘‘ تاہم انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ ’’سعودی عرب اسرائیل کے تاریخی اور مذہبی حق کو تسلیم کرے اور حقیقی امن کی راہ اپنائے۔‘‘یاد رہے کہ حال ہی میں اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ نے ایک بل کی ابتدائی منظوری دی ہے جس کے تحت مغربی کنارے کی یہودی آبادیاں اسرائیل میں ضم کی جا سکیں گی۔ اگرچہ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی جماعت لیکود پارٹی نے اس بل کی مخالفت کی، تاہم حکومت کے دائیں بازو کے اتحادی اس کے حامی ہیں۔دوسری جانب، امریکی صدر جو بائیڈن آئندہ نومبر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کرنے والے ہیں، جہاں اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی اہم موضوعِ گفتگو ہوگا۔















































