اسلام آباد (نیوز ڈیسک)بنگلہ دیش کے عوامی و تعلیمی حلقوں نے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سوانحِ حیات کو قومی نصاب کا حصہ بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق ڈھاکہ میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں سیاسی رہنماؤں، دانشوروں، سماجی شخصیات اور طلباء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس تقریب کا مقصد قائداعظمؒ کی جدوجہد، قیادت اور ان کے وژن کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ مقررین نے کہا کہ قائداعظمؒ وہ رہنما تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک الگ شناخت اور منزل عطا کی۔طلباء نے اردو زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور قائداعظمؒ کی شان میں ملی نغمے پیش کیے، جنہوں نے ماحول کو پرجوش بنا دیا۔
ایک بنگالی شاعر نے بھی بانیٔ پاکستان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے نظم سنائی۔ مقررین نے اس موقع پر کہا کہ اگر قائداعظمؒ کی بصیرت اور قیادت نہ ہوتی تو آج بنگلہ دیش ایک متحد بھارت کا حصہ ہوتا، جہاں مذہبی آزادی ممکن نہ تھی۔شرکاء کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ بنگلہ دیش اپنی تاریخی اور فکری جڑوں سے دوبارہ جڑے۔ ان کے مطابق 1971ء کے بعد عوامی لیگ حکومت نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے وہ ہالز، جو جناحؒ اور علامہ اقبالؒ کے نام سے منسوب تھے، بھارت کو خوش کرنے کے لیے ہندو ناموں سے تبدیل کر دیے تھے — یہ عمل تاریخ سے ناانصافی کے مترادف تھا۔تقریب کے شرکاء نے زور دیا کہ قائداعظمؒ کا وژن صرف پاکستان کی آزادی تک محدود نہیں تھا بلکہ اس نے بنگلہ دیش کے قیام کی فکری بنیاد بھی فراہم کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی نسل کو اپنے حقیقی ہیروز سے روشناس کرانا وقت کی ضرورت ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امتِ مسلمہ کے تحفظ کی علامت ہے اور خانۂ کعبہ کے دفاع کے عزم کی نمائندگی کرتا ہے، اس لیے بنگلہ دیشی قوم کو ہر سال قائداعظمؒ کے یومِ پیدائش اور یومِ وفات کو قومی سطح پر منانا چاہیے تاکہ ان کی خدمات اور نظریات کو زندہ رکھا جا سکے۔عوامی رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سوانحِ حیات کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے اور تاریخی مقامات و ناموں کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، تاکہ نئی نسل اپنی اصل شناخت اور نظریاتی بنیاد سے آگاہ ہو سکے۔