اسلام آباد (نیوز ڈیسک)فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کو بڑی حد تک قبول کر لیا ہے اور اس پر باضابطہ طور پر اپنا جواب جمع کرا دیا ہے۔عربی نیوز چینل الجزیرہ کے مطابق، باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ حماس نے صدر ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے کے حوالے سے اپنا جواب ثالثوں کے ذریعے پہنچا دیا ہے۔حماس کی جانب سے جاری تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم غزہ پر اسرائیلی جارحیت ختم کرنے اور اسرائیلی فوجوں کے مکمل انخلا کے بدلے تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے تیار ہے۔ حماس نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے کی تفصیلات پر گفت و شنید کے لیے ثالثوں کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونے پر آمادہ ہے۔
تنظیم کے مطابق، وہ غزہ کی انتظامیہ ایک غیر جانبدار اور آزاد ادارے کے سپرد کرنے پر راضی ہے، جو فلسطینی ماہرین (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل ہوگا۔ اس ادارے کی تشکیل قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی ممالک کی حمایت کے تحت کی جائے گی۔حماس کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کی تجویز میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے متعلق جو نکات شامل ہیں، انہیں قومی وحدت، بین الاقوامی قوانین اور متعلقہ قراردادوں کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ تمام امور ایک جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے تحت حل کیے جائیں گے، اور حماس اس میں اپنی ذمہ دارانہ شمولیت کو یقینی بنائے گی۔تاہم حماس نے امن منصوبے کے چند نکات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، بالخصوص برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے مجوزہ کردار کو واضح طور پر مسترد کر دیا گیا ہے۔
اسی دوران حماس کے سینئر رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ جب تک اسرائیلی قبضہ ختم نہیں ہوتا، حماس اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں 72 گھنٹوں کے اندر قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو اپنے امن منصوبے پر رضامندی کے لیے ایک ڈیڈ لائن دی تھی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر جاری پیغام میں کہا کہ حماس کے پاس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے اتوار کی شام 6 بجے تک کا وقت ہے۔ٹرمپ کے مطابق، یہ حماس کے لیے آخری موقع ہے، کیونکہ دیگر ممالک پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے معاہدے سے انکار کیا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ معاہدہ کرنے سے اس کے جنگجوؤں کی جانیں محفوظ رہیں گی۔