مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اب ’’حقیقی موقع‘‘ پیدا ہو چکا ہے اور پہلی بار تمام فریق کسی بڑے اقدام کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ڈی ڈبلیو کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ بیان ان کے پیش کردہ 20 نکاتی منصوبے سے جڑا ہے جس کی تفصیلات ہفتے کے اختتام پر جاری کی گئیں۔
20 نکاتی فارمولے کی نمایاں شقیں
منصوبے میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی گنجائش رکھی گئی ہے، جس کی اسرائیل ماضی میں مخالفت کرتا رہا ہے۔
غزہ کے مستقبل سے متعلق واضح روڈ میپ تجویز کیا گیا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا طریقہ شامل ہے، جس کے تحت غزہ میں موجود 20 زندہ یرغمالی اور کچھ جاں بحق یرغمالیوں کی واپسی کے بدلے اسرائیل سیکڑوں فلسطینی قیدی رہا کرے گا۔ اس کے ساتھ 250 عمر قید کے قیدی اور 1700 وہ فلسطینی بھی آزاد کیے جائیں گے جو 7 اکتوبر کے بعد گرفتار ہوئے۔
ہر اسرائیلی یرغمالی کی میت کے بدلے میں 15 فلسطینی شہداء کی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
حماس کو اقتدار سے الگ کرنے اور اسلحہ چھوڑنے کی شرط رکھی گئی ہے، جبکہ فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی گنجائش بھی شامل ہے۔
اسرائیل نے قطر پر حملے نہ کرنے کا وعدہ کرنا ہوگا۔
غزہ میں اقتصادی ترقی اور تعمیر نو کے منصوبے کو علاقائی طاقتوں کی ضمانت کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔
بے گھر فلسطینیوں کو واپسی کی اجازت ہوگی تاہم موجودہ مکینوں کو بے دخل نہ کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔
غزہ کو ایک عبوری حکومت کے تحت چلایا جائے گا جہاں حماس کے سابق ارکان یا تو اس فارمولے کو قبول کریں گے یا پھر کسی دوسرے ملک منتقل ہونے کا انتخاب کر سکیں گے۔
اسرائیلی فوج کو معاہدہ ہوتے ہی تمام کارروائیاں بند کرنا ہوں گی اور قبضہ شدہ علاقے واپس کرنا ہوں گے۔
اسرائیل اس بات کی ضمانت دے گا کہ وہ غزہ پر نہ قبضہ کرے گا اور نہ اسے اپنے ساتھ ملائے گا۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی اداروں کو بلا رکاوٹ غزہ تک رسائی دینے کی شق بھی شامل ہے۔
یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ نے قطر، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، پاکستان، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ان ممالک نے مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں اور خطے میں جنگ کے خاتمے کے لیے ان کی قیادت کو اہمیت دیتے ہیں۔رپورٹس کے مطابق یہ فارمولہ ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج کی مدد سے ترتیب دیا گیا ہے۔ امکان ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو “غزہ انٹرنیشنل ٹرانزیشنل اتھارٹی (GITA)” کا سربراہ بنایا جائے، جو کچھ عرصے تک غزہ کے انتظامی امور سنبھالے گی جب تک فلسطینی اتھارٹی مطلوبہ معیار پر پوری نہ اترے۔یہ تجویز ایسے وقت پر آئی ہے جب برطانیہ، فرانس اور کینیڈا سمیت کئی مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، جسے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ’’افسوسناک فیصلہ‘‘ قرار دیا ہے