اسلام آباد (نیوز ڈیسک)بحرین میں ایک شخص کو چار دہائیوں بعد یہ صدمہ انگیز حقیقت معلوم ہوئی کہ وہ جن بچوں کو اپنا سمجھ کر پال پوس رہا تھا، وہ درحقیقت اس کے حیاتیاتی بچے ہی نہیں ہیں۔یہ معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب مذکورہ شخص کو ایک طبی معائنے کے دوران پتہ چلا کہ وہ قدرتی طور پر اولاد پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔
اس طبی حقیقت نے شکوک کو جنم دیا، جس کے بعد بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا۔ رپورٹ میں یہ بات واضح ہو گئی کہ اس کا ان بچوں سے کوئی حیاتیاتی تعلق موجود نہیں۔اس انکشاف کے بعد معاملہ عدالت میں پہنچا، جہاں بحرین کی ہائی شریعت کورٹ نے سائنسی شواہد کی روشنی میں فیصلہ سناتے ہوئے اسے بچوں کا قانونی والد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ سرکاری ریکارڈز سے اس شخص کا نام بچوں کے والد کے طور پر نکال دیا جائے اور تمام دستاویزات کو اس نئی حقیقت کے مطابق اپڈیٹ کیا جائے۔مدعی کے وکیل، ابتسام الصباغ، نے اس مقدمے کو سچائی اور عدل کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے جذبات سے ہٹ کر مکمل طور پر سائنسی حقائق اور شریعت کی روشنی میں فیصلہ دیا ہے۔
عدالتی فیصلے میں جعفری فقہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اگرچہ نکاح، اقرار یا گواہوں کی بنیاد پر پدری نسبت قائم کی جا سکتی ہے، مگر جب سائنسی شہادت کسی تعلق کو ممکن نہ سمجھے تو شرعی اصول بھی اس سے روگردانی نہیں کر سکتے۔یہ فیصلہ اس بات کی نظیر ہے کہ اسلامی فقہ میں بھی جدید سائنسی حقائق کو اہمیت دی جاتی ہے، خاص طور پر جب وہ ناقابل تردید ہوں اور کسی انسان کی زندگی پر گہرا اثر ڈال سکتے ہوں۔