اسلام آباد(نیوز ڈیسک) مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ ہفتہ کی علی الصبح ایران کی جانب سے اسرائیل پر ایک اور بڑے پیمانے پر میزائل حملہ کیا گیا، جسے “آپریشن وعدہ صادق سوم” کا تسلسل قرار دیا گیا ہے۔ ایرانی حکام نے اس کارروائی کو اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف ایک “انتقامی ردعمل” قرار دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس تازہ حملے میں درجنوں میزائل داغے گئے، جن کی گونج تل ابیب اور یروشلم سمیت کئی شہروں میں سنائی دی۔ اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ میزائل براہِ راست تل ابیب میں گرے، جن میں ایک وزارتِ دفاع کی عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ گش دان کے علاقے میں بھی ایرانی میزائل گرنے کی اطلاعات ملی ہیں۔میزائلوں کے باعث متعدد مقامات پر آگ بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق 63 افراد زخمی جبکہ 4 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں شہریوں کو ہنگامی بنیادوں پر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔پاسدارانِ انقلاب کے مطابق اب تک اسرائیل کی مختلف تنصیبات پر 300 سے زائد میزائل داغے جا چکے ہیں۔
جبکہ اسرائیلی دفاعی نظام نے متعدد میزائلوں کو فضاء میں ہی تباہ کر دیا۔ تاہم کئی میزائل اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ذرائع کے مطابق حملے کے دوران اسرائیل کے وسطی حصے میں 9 مختلف مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ تل ابیب میں 5 مقامات پر تباہی ہوئی۔ ایک 32 منزلہ عمارت میں آگ لگنے کی بھی اطلاع ملی ہے، جس پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔قبل ازیں، ایران نے ایک گھنٹے میں تین مختلف وقفوں کے دوران 150 سے 200 میزائل اسرائیل پر داغے تھے۔ تجزیہ کار اس تازہ صورتحال کو خطے میں ایک بڑی جنگ کے خدشے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس کے عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اسرائیل کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے داغے گئے کم از کم 200 بیلسٹک میزائلوں میں سے کئی کو امریکی دفاعی شراکت سے فضا میں تباہ کر دیا گیا، مگر کئی میزائل اپنے ٹارگٹ پر گرنے میں کامیاب رہے۔